خیالی پلاو زندگی کی حقیقت

ہمیں ہر اس چیز پر خود کو راضی کرنا ہوگا جو ہماری پہنچ میں ہے، اس چیز کی تمنا نہیں کرنی چاہیے جو ہماری دسترس سے دور ہو۔


مجھے وہ بارہ گھنٹے کا سفر زندگی کے سفر کیطرح محسوس ہوا۔ ہم اس قدر سامان، مال و متع جمع کرنے میں لگ جاتے ہیں جبکہ وہ صرف ایک بیگ میں چند کپڑے ڈالے ہوئے تھا۔ شاید وہ جانتا تھا کہ سامان جتنا زیادہ ہوگا اُٹھانے میں اُتنی ہی دشواری ہوگی۔ فوٹو: فائل

ٹرین مسلسل چھکا چھک کی آواز سے کبھی تیز تو کبھی آہستہ چلے جارہی تھی۔ پوری ٹرین میں مسافروں کی تعداد برتھ اور سیٹوں کی بانسبت کچھ زیادہ تھی۔ جن کو سیٹیں اور برتھ میسر تھے وہ آرام سے بیٹھے خراٹے لے رہے تھے جبکہ اضافی افراد ٹرین کے دروازوں اور آنے جانے والے راستوں پر الٹے سیدھے بیٹھے اپنے مختصر سے سفر کو طے کر رہے تھے۔

مسافر کبھی ایک ڈبے سے دوسرے ڈبے کی طرف جاتے تو کبھی واپس آتے، آنے جانے والا سلسلہ مسلسل جاری تھی۔ ایک مسافر شوپر میں چند پرانے کپڑے تھامے اپنی گود میں رکھ کر ٹرین کے آنے جانے والے راستے پر بیٹھا تھا۔ جب بھی کوئی وہاں سے گزرتا یا تو اس کے سامان کو لات مارتا یا پھر اسے خود کو بھی لگ جاتی، چائے اور پانی بیچنے والا کبھی چائے کی بوندیں اس پر گراتا تو کبھی پانی، ٹرین کے دروازے کے پاس بیٹھنے کی وجہ سے شور کے ساتھ ساتھ تیز ہوا اور اس کے ساتھ مٹھی کی گرد بھی مسلسل اسے اپنا نشانہ بنا رہی تھی ۔ مگر وہ مسافر انتہائی خاموشی، عاجزی کی گہرائیوں کے ساتھ اپنے سفر کی مسافتوں کو کم سے کم تر کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔

جب بھی کوئی اسے لات مارتا وہ کچھ دیر کے لئے اپنا سر اٹھا کر جانے والے کی کمر دیکھتا اور پھر ویسے ہی اپنا سر جھکا کر خیالوں کی دنیا میں گم ہوجاتا۔ کافی دیر یہ سلسلہ چلتا رہا آخر کار مجھ سے رہا نہ گیا اور میں اس کے پاس جاکر نیچے بیٹھ گیا۔

میں نے اسے مخاطب کر کے پوچھا کہ آخر تم ایسی خاموشی کے ساتھ کیوں بیٹھے ہوئے ہو؟ کہیں کسی سے سیٹ لے کر اوپر بیٹھ جاتے یا پھر کم از کم گزرنے والوں کو منع تو کر سکتے ہو کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں غلط کر رہے ہیں۔ اس نے میری طرف غور سے دیکھا اور شور میں اونچی آواز میں گویا ہوا۔ آپ کی بات بجا ہے مگر یہاں کسی کو کسی کا احساس نہیں ہے۔ سیٹ تو کیا کوئی اپنے برتھ پر بھی بیٹھنے نہیں دے رہا۔ ویسے بھی کتنا سفر کرنا ہے بارہ گھنٹے کا سفر کرنے کے لئے کسی کی منتیں کرنے سے بہتر ہے نیچے ہی بیٹھ جاوں۔ جس مٹی میں جانا ہے اس مٹی سے ڈرتے رہنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ رہی بات مجھ پر پانی، چائے گرانے یا لاتیں لگنے کی بات تو اتنے مختصر سے سفر میں اگر میں لڑنے جھگڑنے لگ جاؤں پورا ہی سفر اسی لڑائی میں گزر جائے گا۔ کیوں اپنے آپ کو تھکاتا پھروں جو ہورہا ہے وہ تو ہوگا خواہ مخواہ میں اپنا اخلاق خراب کیوں کروں۔

شکل و صورت سے دیہاتی اور محنت کش لگنے والے اس شخص کی باتیں کافی ہوشمندانہ تھیں۔ میں اس کی باتوں پر غور کر رہا تھا کہ وہ دوبارہ کہنے لگا۔ بھائی ہم نے اپنے زندگی کے سفر کو خود ہی مشکل بنا دیا ہے۔ اگر ہم غور کریں تو ہماری زندگی انتہائی مختصر ہے مگر خواہشات نفس نے ہمیں اس قدر مجبور کر دیا ہے کہ ہم اپنی زندگی کی حقیقت کو سمجھنے کی بجائے صرف خواہشات کی پیروی میں لگ چکے ہیں۔

مجھے ایک لمحے کے لئے اس کا بارہ گھنٹے کا یہ سفر پوری زندگی کے سفر کی طرح محسوس ہوا۔ ہم اس قدر سامان، مال و متع جمع کرنے میں لگ جاتے ہیں جبکہ وہ اپنے پاس صرف ایک شاپر بیگ اور اس میں چند کپڑے ڈالے ہوئے تھا۔ شاید وہ جانتا تھا کہ جس قدر سامان زیادہ ہوگا اس قدر اٹھانے میں دشواری ہوگی۔ آج ہم اگر اس دیہاتی کے 12 گھنٹوں کے اس سفر کا جائزہ لیں اور اپنی پوری زندگی توازن کے ساتھ بسرکریں تو شاید بارہ گھنٹوں کے سفر میں اپنائی گئی ترکیب و سوچ ہمارے پچاس سالہ زندگی سے کچھ کم نہیں ہوگی۔

ہمیں بھی اپنی زندگی کے مختصر سفر کو شاید کچھ اسی طریقےسے گزارنا چاہیے ۔ ہمیں اپنی زندگی میں ہر اس چیز پر خود کو راضی کرنا ہوگا جو ہماری پہنچ میں ہے خواہ مخواہ اس چیز کی تمنا نہیں کرنی چاہیے جو ہماری دسترس سے دور ہو ، اگر ایسا کرلیا تو یقیناًہمیں خود سے کوئی گلہ نہیں رہے گا ۔ ہمیں کسی سے امیدیں وابسطہ نہیں کرنی چاہیے ورنہ جب کوئی امید پوری نہیں ہوتی تو ہم ٹوٹ جاتے ہیں، بکھر جاتے ہیں اور پھر کہتے ہیں فلاں شخص نے ہمارا دل توڑ دیا۔ حالانکہ وہ کچھ نہیں کرتا غلطی ہماری اپنی ہوتی ہے کہ ہم اس سے وہ امید وابسطہ کر لیتے ہیں جو وہ پوری کرنے کے لائق نہیں ہوتا۔ ہمیں زندگی میں ٹھوکریں، پریشانیاں ملتی رہیں گی ہمیں اِن عارضی مصائب سے نبردآزما اور اپنی زندگی کو پرسکون و خوشیوں سے بھرپور رکھنے کے لیے صبر سے کام لینا ہوگا اِسی میں ہماری دنیا و آخرت کی بھلائی پوشیدہ ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں