فوجی عدالتوں کا مطلب عدالتی نظام پر عدم اعتماد نہیںچوہدری نثار علی

فوجی عدالتیں صرف دہشت گردوں کیلئے ہوں گی جبکہ فوج نے ان کے قیام کیلئے کوئی دباؤ نہیں ڈالا، وفاقی وزیر داخلہ

فوجی عدالتیں انصاف کی فراہم کا بھی فورم نہیں ہیں، ملک کا جوڈیشل نظام عوام کو انصاف فراہم کرتا رہے گا، چوہدری نثار۔ فوٹو: پی آئی ڈی

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کا کہنا ہےکہ فوجی عدالتیں سیاستدانوں، عام شہریوں اور صحافیوں کے خلاف استعمال نہیں ہوں گے جبکہ ان عدالتوں کے لیے فوج نے سیاستدانوں پر کوئی دباؤ نہیں ڈالا اور فوجی عدالتوں کا مطلب ملکی عدالتی نظام پر عدم اعتماد بھی نہیں ہے۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیرداخلہ چوہدری نثار نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کو صحیح طریقے سے رپورٹ نہیں کیا گیا ہے، فوجی عدالتیں صرف اس کا حصہ ہیں اور فوجی عدالتیں کسی سیاستدان، مدرسے، بزنس مین، صحافیوں اور عام شہریوں کے خلاف استعمال نہیں ہوں گی اور نہ ہی ان کا مقصد ملکی عدالتی نظام پر اعتماد ہے، فوجی عدالتیں انصاف کی فراہم کا بھی فورم نہیں ہیں، ملک کا جوڈیشل نظام عوام کو انصاف فراہم کرتا رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ فوجی عدالتوں کا مطلب یہ نہیں ہےکہ وہاں جو بھی جائے اسے پھانسی پر چڑھایا جائے گا وہاں ملزمان کو اپنے صفائی کا پورا موقع دیا جائے گا جبکہ بہت سے لوگ فوجی عدالتوں سے بھی عدم ثبوت کی بنا پر رہا ہوئے ہیں۔

چوہدری نثار نے کہا کہ فوجی عدالتیں کوئی کینگرو کورٹ نہیں ہیں یہ بنیادی قانون کے تحت کام کرتی ہیں انہیں عام شہریوں کے لیے آرمی ایکٹ کا حصہ نہیں بنایا جارہا ہے یہ عدالتیں صرف ان دہشت گردوں کے خلاف ہیں جو ہمارے مساجد، بازاروں، خواتین اور بچوں پر حملے کرتے ہیں اور ان کے لیے ملک میں قانون نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ انہوں نےکہا کہ دہشت گردوں نے ہمارے فوجیوں اور شہریوں کی گردنیں کاٹ کر فٹبال کھیلی اور ان کی یہ بربریت تاریخ کا بدترین باب ہے جو قوم کے سامنے ہے، ان دہشت گردوں کے سامنے کسی چیز کی کوئی ممانعت نہیں ہے اور اگر یہ پکڑے جائیں تو وکلا، ججوں اور ان کے بچوں کو دھمکیاں دیتے ہیں۔

وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ اس وقت ہم حالت جنگ کی صورتحال سے دوچار ہیں اور جب ملک ایسی صورتحال میں ہو تو وہاں اس قسم کے اقدامات کرنا پڑتے ہیں کیونکہ نائن الیون کے بعد امریکا میں بھی سپریم کورٹ کی منظوری سے ملٹری ٹریبونل بنائے گئے تھے اس لیے ملک میں فوجی عدالتیں بنانا کوئی انہونی بات نہیں۔ چوہدری نثار نےکہا کہ اے پی سی میں جن نکات پر اتفاق ہوا ہے وہ انتہائی اہم ہیں اور نیشنل ایکشن پلان پر بھی تیزی سے عمل ہوگا جبکہ اٹھارویں ترمیم کے تحت امن وامان کے حوالے سے بہت ساری ذمہ داریاں صوبوں کے حوالے کردی گئی ہیں اس لیے صوبوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ انہوں نےکہا کہ اندرونی و بیرونی سکیورٹی پر وفاق کی ذمہ داری صرف انٹیلی جنس شیئرنگ کی ہے جس میں پچھلے ڈیڑھ سال سے بہت بہتری آئی ہے، انٹیلی ایجنسیوں نے کراچی ایئرپورٹ، واہگہ بارڈر اور آرمی پبلک اسکول پر حملے کی بھی کئی ماہ پہلے اطلاع دی تھی اور یہ اطلاعات کئی بار صوبوں تک پہنچائی گئی ہیں اس لیے ان حملوں کو انٹیلی جنس کی ناکامی نہ کہا جائے۔


چوہدری نثار نے کہا کہ صوبوں میں جو واقعات ہوتے ہیں ان کو بھی وفاق پر ڈال دیا جاتا ہے اور جن کی ذمہ داری ہے ان کو اس کا بالکل احساس نہیں ہوتا، صوبوں کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہوگا اور اگر وہ ذمہ داری نہیں نبھاسکتے تو ہمیں واپس کردیں ہم انہیں پورا کریں گے، اور اگر مستقبل میں کسی نے اپنی ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیارکرنے کے لیے فوج، وفاق یا وزارت داخلہ پر الزام لگایا تو اس کا جواب دیا جائے گا۔ انہوں نےکہا کہ قومی ایکشن پلان میں آئین کے مطابق بنیادی کردار صوبوں کا ہے اور انہیں مضبوط کرنے کے لیے ایک اپیکس کمیٹی تشکیل دی ہے جو وزیراعلیٰ کی نگرانی میں ہوگی مگر کئی صوبے ان کمیٹیوں سے میٹنگ نہیں کررہے۔

وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ ہمیں دو سال میں اپنے اہداف حاصل کرناہے اس لیے تمام تر توجہ اس پر لگانا چاہئے اور اے پی سی میں اسی لیے آئندہ دو سال تک غیر اعلانیہ نیشنل سکیورٹی ایمرجنسی لگانے کی تجویز دی کیونکہ ملک میں امن ہوگا تو ملک ترقی کرے گا اور اگر سکیورٹی کی صورتحال یہی رہی تو ہم کسی ہدف کو پورا نہیں کرسکتے۔ چوہدری نثار نے کہا کہ دہشت گردوں کے خلاف گلی محلوں میں بھی ایکشن ہوگا کیونکہ یہ لوگ ہمارے اندر رچ بس گئے ہیں اس لیے ہوٹلوں کی مانیٹرنگ کا بھی کہا لیکن میری باتوں کا بتنگڑ بنایا گیا جبکہ چند ماہ پہلے ایک ہوٹل والے کی اطلاع پر ہی دہشت گردوں کے خلاف کامیاب کارروائی کی گئی تھی، اس لیے یہ جنگ جیتنے کے لیے ہم سب کو متحرک ہونا پڑے گا ورنہ ہم فوج کی جدوجہد کو پورا نہیں کرسکیں گے۔

چوہدری نثار نے کل جماعتی کانفرنس کے نکات دہراتے ہوئے شہریوں سے اپیل کی کہ وہ اپنے گلی محلوں، اسکولوں اور مساجد میں مشکوک افراد کو دیکھ کر 1717 ہیلپ لائن پر اطلاع دیں۔ انہوں نےکہا کہ مدارس کے بارے میں بہت غلط فہمیاں پھیلائی گئی ہیں جبکہ مدارس کا کسی قسم کی دہشت گردی سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں اور مدارس کی بڑی اکثریت انتہائی مثبت کردار ادا کررہی ہےاور جو مدرسے دہشت گردوں کی پناہ گاہ بنے ہوئے ہیں یا ان کی معاونت کررہے ہیں ان کے خلاف ثبوت کی بنیاد پر مدارس کی تنظیموں کو اعتماد میں لے کر کارروائی کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ فوجی عدالتوں کے قیام کے حوالے سے فوج نے سیاستدانوں پر کوئی دباؤ نہیں ڈالا اس لیے یہ تاثر زائل ہونا چاہئے کیونکہ فوج نے کہا تھا کہ جو سیاسی قیادت فیصلہ کرے گی اس پر عمل ہوگا اس لیے تمام فیصلے مل جل کر کیے گئے ہیں۔

وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ تمام جماعتیں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے فوجی عدالتیں بنانے پر متفق ہیں، آرمی ایکٹ کے تحت صرف ریاست کے خلاف لڑنے والوں کےخلاف کارروائی ہوگی۔ چوہدری نثار نے کہا کہ پاکستان میں بسنے والے افغان مہاجرین ہمارے بھائی ہیں اور وہ مجموعی طور پر پرامن ہیں مگر ان کے لبادے میں چند لوگ اس کا غلط استعمال کررہے ہیں اور انہیں دہشت گردی کے لیے استعمال کیا جارہا ہے، ہمیں پر امن افغان مہاجرین سے کوئی مسئلہ نہیں ہے مگر جو لوگ اس لبادے میں چھپے ہیں ان کے خلاف کارروائی ہوگی۔ انہوں نےکہاکہ اسلام آباد میں روز مرہ کی طرز پر آپریشن کیے جس میں ایسے لوگوں کو بھی پکڑا جن کا نہ صرف عسکری گروہوں بلکہ غیر ملکیوں ایجنسیوں سے بھی تعلق تھا اور اب صوبائی حکومتوں کی ذمہ داریوں میں بھی یہ بات ڈال دی گئی ہے کہ وہ بھی روزانہ اس طرز کے آپریشن کریں۔

چوہدری نثار نے کہا کہ ہمیں سخت فیصلے کرنا ہیں، اب ہر ایک کو اپنی ذمہ داری پوری کرنا ہوگی کیونکہ یہ مسئلہ صرف تقریروں اور ہنگامہ خیز بیانات کا نہیں ہے، دہشت گردی کا خاتمہ کوئی آسان کام نہیں ہے جسے ایک دن یا ایک ہفتے میں ختم کردیا جائے۔
Load Next Story