’’ادب‘‘ پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں

اب نہ تو بزرگوں اور سینئرز کا ادب پہلے کی طرح سے کیا جاتا ہے اور نہ کتابوں میں موجود ادب ہماری ترجیحات میں شامل ہے۔


Amjad Islam Amjad January 03, 2015
[email protected]

KARACHI: اردو زبان میں ''ادب'' ایک کثیر المعانی لفظ ہے لیکن اس کے دو معانی ایسے ہیں جو بکثرت استعمال کیے جاتے ہیں۔ انگریزی میں ان کے لیے Literature اور Respect کے متبادلات زیادہ عام ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں عملی طور پر یہ الفاظ تو موجود ہیں مگر ان کے مطالب بہت حد تک بدل گئے ہیں۔

اب نہ تو بزرگوں اور سینئرز کا ادب پہلے کی طرح سے کیا جاتا ہے اور نہ کتابوں میں موجود ادب ہماری ترجیحات میں شامل ہے۔نئے سال کے ساتھ ہی ڈائریوں، کیلنڈروں اور مبارکباد کے پیغامات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی نے ان پیغامات میں طرح طرح کی اختراعات کو جنم دیا ہے کہ اب یہ پیغامات آپ کو تحریری، سمعی، تصویری اور مختصر دورانیے کی دلچسپ ویڈیوز کی شکل میں ملتے ہیں ۔ ایسے میں نیشنل بک فاؤنڈیشن کی طرف سے ملنے والے غزل کیلنڈر 2015ء کی اشاعت نے ماضی، حال اور مستقبل تینوں کو پھر ایک ساتھ زندہ کر دیا ہے۔ ہماری نئی نسل کا ایک غالب حصہ اردو زبان اور اس کے اسکرپٹ سے ہی نامانوس ہوتا جا رہا ہے۔

لیکن پھر وقت کی آنکھ نے دیکھا کہ اسی مذاق سخن نے اقبال کو اور ایک مایوس اور بے سمت بھیڑ کو ایک قوم بنایا اور دنیا کے نقشے پر ایک نئے ملک کے قیام کو ممکن کر دکھایا اور معاشیات کی چکی میں پستی ہوئی خلق خدا نے جان لیا کہ (پہلے مصرعے میں ممکن ہے کچھ فرق ہو مگر مجھے یہ اسی طرح سے یاد آ رہا ہے)

ابھی تکمیل کو پہنچا نہیں ذہنوں کا گداز
ابھی دنیا کو ضرورت ہے غزل خوانوں کی

چند برس قبل راولپنڈی سے الحمرا پبلشرز نامی ایک ادارے نے شعری ٹیبل کیلنڈرز کا سلسلہ شروع کیا تھا ۔ برادرم ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے نیشنل بک فاؤنڈیشن کے چیئرمین کا چارج سنبھالتے ہی اس خوب صورت روایت کو ایک نئے انداز میں آگے بڑھایا ہے جس کو ہمارے افسانہ نگار دوست مظہر الاسلام نے اپنے دور میں بہت سی نئی اور عمدہ جہات سے آشنا کیا تھا۔اس غزل کیلنڈر کے ہر صفحے پر، ہر دن کی تفصیل کے ساتھ اردو کے کسی عظیم، بڑے، عمدہ، قابل توجہ یا ابھرتے ہوئے شاعر کی ایک غزل اس کی تصویر اور دور حیات سے متعلق معلومات سمیت شائع کی گئی ہے۔ ان شاعروں کا تعلق اردو غزل کے ہر دور سے ہے۔ صفحے کی صوری خوب صورتی اور تزئین کے لیے ہر غزل کے ساتھ ایک Painting بھی شامل کی گئی ہے۔

یعنی اس کا ہر صفحہ محقق، مرتب، مصور اور ڈیزائنر کی مشترکہ کاوش سے تشکیل پا کر ہم تک پہنچا ہے۔ یہ بظاہر سادہ نظر آنے والا کام حقیقت میں خاصا پیچیدہ ہے اور لاکھ احتیاط کے باوجود کچھ اختلافات کے پہلو اور مقامِ جنبش ابرو نکل ہی آتے ہیں اور کہیں نہ کہیں سہو ہو جاتا ہے۔ عمومی طور پر اس میں کمپوزنگ کی غلطیاں بہت کم ہیں مگر کچھ آج کے موجود اور زندہ شاعروں کی تاریخ پیدائش کی عدم موجودگی بہت کھٹکتی ہے کہ آج کے زمانے میں اس کا حصول چنداں مشکل نہیں اسی طرح کہیں کہیں درج کردہ تاریخیں بھی توجہ طلب ہیں۔ البتہ ایک غلطی ناقابل معافی ہے او وہ یہ کہ کسی زندہ ادیب کو نہ صرف مردہ قرار دے دیا جائے بلکہ اس کی تاریخ وفات بھی درج کر دی جائے۔

اگرچہ مزاح کے اندر میں بعض اوقات کسی شاعر کے تخلیقی زوال یا بانچھ پن پر اس طرح کے جملے کسے گئے ہیں کہ ''موصوف 1914ء میں پیدا ہوئے 1964ء میں وفات پائی اور 1984ء میں دفن کیے گئے۔ یہ بات شاید لطیفے کی حد تک تو ٹھیک ہو مگر ایک انگریزی محاورے کے مطابق یہ To carry a joke too far ہی کہلائے گا۔ڈاکٹر انعام الحق جاوید اور ان کے ساتھیوں نے یہ بہت اچھا کیا کہ شعرا کی ترتیب انضباتی انداز میں کی ہے کیوں کہ نہ تو اس کو مراتب کے حساب سے ترتیب دینا ممکن تھا اور نہ ہی تاریخ پیدائش کے حوالے سے کچھ لوگ اس بات پر بھی اصرار کرتے ہیں کہ ہر شاعر کو اس کی سالگرہ کے دن والا صفحہ الاٹ کیا جائے مگر یہ بھی عملی طور پر ممکن نہیں کیونکہ بہت سے شعرا کا یوم پیدائش ایک ہی ہے۔ اس صورت حال میں شعرا کے ناموں کے ابتدائی حروف کی نسبت سے ہی ان کی ترتیب مناسب تھی۔ کیلنڈر یا نئے سال کے حوالے سے جب بھی بات ہوتی ہے پتہ نہیں کیوں مجھے آغا امیر قزلباش مرحوم کا یہ دلچسپ شعر بہت یاد آتا ہے کہ؎

یکم جنوری ہے، نیا سال ہے
دسمبر میں پوچھیں گے کیا حال ہے!

ٹی ایس ایلیٹ نے اپریل کو Cruallest Month قرار دیا اور عرش صدیقی مرحوم نے ''اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے'' کہہ کر مہینوں کے ناموں کو نئے استعاراتی معانی دیے جب کہ دیگر مہینوں کے حوالے بھی کئی شاعروں کے یہاں استعمال ہوتے ہیں۔ میرے خیال میں تحقیق کی جائے تو یہ موضوع خاصا دلچسپ ہوسکتا ہے کہ اجتماعی حوالے سے تو (مثال کے طور پر ہماری تاریخ میں عیدین، محرم، نوروز، 23 مارچ، 14 اگست، 6 ستمبر، 16 دسمبر، 25 دسمبر وغیرہ وغیرہ پر تو بہت کچھ لکھا گیا ہے اور اسے الگ سے جمع اور مرتب بھی کیا گیا ہے مگر ذاتی واردات کی نسبت سے اس نوع کی شاعری پر شائد کوئی کام نہیں ہوا۔

نیشنل بک فاؤنڈیشن کی نئی انتظامیہ نے غالب اور اقبال کے کلام کے پاکٹ ایڈیشن بھی شائع کیے ہیں۔ گزشتہ کچھ برسوں سے اس سائز کے مجموعوں کا رواج خاصا عام ہو رہا ہے۔ موجودہ دور میں اس کا آغاز ہمارے دوست واجد جواد نے بیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کے شائع کردہ ''دیوان غالب'' کی اشاعت نو سے کیا جسے انھوں نے جرمنی سے شائع کیا تھا، واجد جواد نے اسے اپنے خرچ پر چھپوا کر احباب میں بطور تحفہ تقسیم کیا اور حال ہی میں اس روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے کلام فیض کا جیبی ایڈیشن بھی بہت اہتمام سے شائع کیا ہے۔ کراچی کے ایک قدیم اشاعتی ادارے فضلی سنز نے بھی کئی مشاہیر اور جدید شعرا کا کلام اسی انداز میں چھاپا ہے۔ اب جب کہ کتاب (E) بک کے دور میں داخل ہو گئی ہے۔ اس طرح کے ایڈیشن بلا شبہ اس کی روایتی شکل کو طاقت اور مقبولیت دے سکتے ہیں۔

اس طرح کی کتابیں اور یہ غزل کیلنڈر ہمارا اور ہمارے بچوں کا رشتہ اپنی قومی زبان اور تاریخی، تہذیبی اور شعری روایت سے دوبارہ استوار کر سکتی ہیں، ہم سب اپنے بچوں اور احباب کو مختلف طرح کے تحفے دیتے رہتے ہیں کیوں نہ ان چیزوں کو بھی تحفوں کی متوقع فہرست میں شامل کر لیا جائے کہ یہ بھی کسی صدقہ جاریہ سے کم نہیں۔ اپنے اس خیال کی تائید کے لیے میں اس بات کو غزل کیلنڈر 2015ء کی پہلی غزل کے پہلے شعر پر ختم کرتا ہوں۔

سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلق خدا، غائبانہ کیا
(آتش)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں