وادی نیل میں بیس دن
کوئی جاپانی جب اردو کے نام پر کھڑی بولی بولتا ہے تو ہم سن کر خوش ہوتے ہیں، تالیاں بجاتے ہیں۔
کوئی بارہ سال پہلے کی بات ہے عالمی رابطہ ادب اسلامی کے سالانہ سیمینار میں شرکت کے لیے ہندوستان سے جو اسکالر قاہرہ گئے ان میں انیس چشتی شامل تھے۔ قاہرہ سے واپس آ کر انھوں نے ،،وادی نیل میں بیس دن،،کے عنوان سے اپنے اس سفر کا حال لکھا جو ابھی کچھ عرصہ پہلے شایع ہوا ہے۔
انیس چشتی کی تصنیفات اور علمی وادبی سرگرمیوں کی فہرست طویل ہے۔انھوں نے اردو، انگریزی اور مراٹھی زبان میں کتابیں لکھی ہیں، عربی سے ترجمے کیے ہیں اورعالمی مجالس اور اجتماعات میں مقالے پڑھے ہیں، تقریریں کی ہیں۔ ان کی علاقائی زبان مراٹھی ہے لیکن اردو کے عاشق اور مجاہد ہیں۔ قاہرہ میں ان کی ملاقات اردو کے دو مصری پروفیسروں سے ہوئی تو انھیں اپنے وطن میں اردو کی حالت زار یاد آگئی۔ ان دونوں پروفیسروں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے اردو میں پی ایچ ڈی کیا ہے یہ جب اردو میں بات کرتے ہیں تو گمان بھی نہیں ہوتا کہ یہ عرب ہیں۔
اردو میں اپنے بھی کچھ شین قاف ہیں اور وہ ہے اس کا لہجہ۔ انیس چشتی کے مطابق ان کی اردو ان کے ہاں کے اچھے اچھوں سے اچھی تھی۔ وہ لکھتے ہیں ،،کوئی جاپانی جب اردو کے نام پر کھڑی بولی بولتا ہے تو ہم سن کر خوش ہوتے ہیں، تالیاں بجاتے ہیں۔ امریکیوں کو اردو بولتے دیکھ کر لگتا ہے جیسے بچے ٹین کی چھت پر چڑھ کر پیچ لڑا رہے ہیں، پھر بھی ہم خوش ہوتے ہیں۔ یہ بہت خوش آئند بات ہے لیکن ہندوستان میں خصوصاً ان علاقوں میں جو اردو زبان کا گڑھ ہیں، اردو کی جڑیں سوکھتی جا رہی ہیں اور وہ دن دور نہیں جب یہ لنگوا فرنکا کے بجائے چند قبیلوں کی ،،بولی،، بن کر رہ جائے گی۔،، یہ اندیشہ غلط نہیں۔
اردو کے مستقبل کی فکر کچھ مبہم نہیں ہے۔ دیکھئے اقبال اشعر نے اس صورت حال کا کیا اچھے پیرایے میں ذکر کیا ہے: اردو ہے میرا نام، میں خسرو کی پہیلی/میں میر کی ہم راز ہوں غالب کی سہیلی/دکن کے ولی نے مجھے گودی میں کھلایا/سودا کے قصیدوں نے میرا حسن بڑھایا/ہے میر کی عظمت کہ مجھے چلنا سکھایا/میں داغ کے آنگن میں کھلی بن کے چنبیلی/اردو ہے میرا نام، میں خسرو کی پہیلی/ غالب نے بلندی کا سفر مجھ کو سکھایا/حالی نے مروت کا سبق یاد دلایا/اقبال نے آئینہ حق مجھ کو دکھایا/مومن نے سجائی میرے خوابوں کی حویلی/اردو ہے میرا نام، میں خسرو کی پہیلی/ہے ذوق کی عظمت کہ دیے مجھ کو سہارے /چکبست کی الفت نے میرے خواب سنوارے/فانی نے سجائے میری پلکوں پہ ستارے/اکبر نے رچائی میری بے رنگ ہتھیلی/اردو ہے میرا نام، میں خسرو کی پہیلی/کیوں مجھ کو بناتے ہو تعصب کا نشانہ/دیکھا تھا کبھی میں نے بھی خوشیوں کا زمانہ/اپنے ہی وطن میں ہوں مگر آج اکیلی /اردو ہے میرا نام، میں خسرو کی سہیلی
انیس چشتی قاہرہ پہنچے اور جب ایئرپورٹ سے باہر آئے تو یہاں عصر کا وقت ہورہا تھا۔ اگست کا مہینہ، زمین تانبے کی طرح تپ رہی تھی۔ ایئرپورٹ کے باہر استقبال کرنے والوں کا ہجوم تھا، سب اپنے، سب مانوس چہرے ،،ندوی، قاسمی، بریلوی طلبا کی فوج قطار اندر قطار۔ طلبا میں اپنے اساتذہ کی بڑی توقیر ہوتی ہے۔ یہ وہ لڑکے تھے جو ہندوستان سے یہاں پڑھنے آئے ہوئے تھے۔ انیس چشتی کا دل بھر آیا۔
وہ لکھتے ہیں ،،مصرکی سرزمین پر قدم رکھنا بذات خود ایک نیا تجربہ تھا۔ مصر کی جس دیومالائی، پراسرار اور جادو اثر تاریخ نے بچپن سے دل کو مسخر کر رکھا تھا، قاہرہ کے دوران قیام میں اس کے سارے ورق کھلنے والے تھے۔ حضرت موسیٰ ادھر یوسف کے ان غریب، سادہ و رنگیں اور پرعظمت قصوں کا پس منظر جن سے دعوتی میدان میں کام کرنیوالوں کو ایک نئی راہ اور سمت ملتی ہے اسے اب وہ کھلی آنکھوں سے دیکھنے جا رہے ہیں۔ عالمی رابطہ ادب اسلامی کے پروگراموں کے شروع ہونے سے پہلے جو دو دن انیس چشتی کے پاس تھے اس سے فائدہ اٹھاکر وہ سب سے پہلے قاہرہ میوزیم گئے۔ یہ میوزیم دنیا کے بڑے عجائبات میں سے ایک ہے۔ دنیا کے شاید کسی بھی عجائب گھر میں اس قدر حیرت انگیز، تاریخی اور قیمتی اشیا موجود ہوں جو اس میوزیم میں ہیں یہ سب چیزیں جن کا انھوں نے بچپن سے ذکر سن رکھا تھا ان کی آنکھوں کے سامنے کھلی پڑی تھیں۔
ان میں سنگی مجسمے، ہزاروں سال پرانی تحریریں، زیورات جواہر، ایک ہی پتھر سے تراشے ہوئے تابوت سب سے بڑھ کر فرعونوں کے حنوط شدہ جسم شامل تھے۔ انیس چشتی ان نوادرات کو دیکھتے ہوئے جب اس کمرے میں پہنچے جہاں فرعونوں کی حنوط شدہ لاشیں رکھی ہیں تو انھیں یوں محسوس ہوا جیسے وہ ان فرعونوں کے نرغے میں آگئے ہیں۔پورے ہال میں موت کا سناٹا تھا ہر طرف تابوت ہی تابوت رکھے تھے۔ ان کے وسط میں سب سے بلند، ایک نسبتاً کھلی جگہ پر رکھے ہوئے تابوت میں حضرت موسیٰ کے ہم عصر فرعون رمسس ثانی کی ممی شدہ لاش رکھی تھی۔ پورا جسم پٹیوں میں لپٹا ہوا تھا۔ صرف گردن،سر،سینے اور ہاتھوں کا حصہ کھلا تھا۔قاہرہ میوزیم کے بعد انیس چشتی کے لیے سب سے زیادہ دلچسپی کی چیز جیزہ کے اہرام تھے۔ یہیں پر ابو الہول کا مجسمہ بھی تھا جس کا چہرہ بادشاہ کا اور جسم شیر کا ہے۔ دوسرے دن وہ اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ جیزہ پہنچے۔
یہ قاہرہ سے تیس کلومیٹر دور وہ ریگستانی علاقے جسے شاہان مصر نے اپنی حنوط شدہ لاشوں کے مدفن کے لیے منتخب کیا تھا۔ یوں تو یہاں نو اہرام ہیں لیکن تین اہرام اتنے بڑے ہیں کہ باقی کی کوئی اہمیت ان کے آگے نہیں ہے۔ پہلا اور سب سے بڑا اہرام خوفو نے کوئی 7 ہزار سال پہلے بنوایا تھا۔ (انیس چشتی نے اہرام باہر سے ہی نہیں اندر سے بھی دیکھا۔)لکھتے ہیں:،،بچپن میں ہمارا تصور یہ تھا کہ اہرام میں داخل ہوتے ہی ایک بہت بڑا ہال ملے گا جس کے وسط میں بادشاہ کا تابوت رکھا ہوگا اور اطراف میں سونے چاندی کے ظروف اور دوسری چیزیں بکھری ہونگی۔ مومی،کافوری اور عنبریں شمعیں جل رہی ہونگی اور ان کی مدھم روشنی میں غلام یا ان کے ڈھانچے دست بستہ کھڑے ہونگے لیکن جب اہرامات کے اندر جانے کا موقع ملا تو کلیجہ منہ کو آگیا۔ اب تک غار میں اترنا سنتے آئے تھے لیکن غار میں چڑھنا پہلی بار دیکھا۔ چڑھنا بھی کھڑے ہوکر نہیں بلکہ رکوع کی حالت میں اور وہ بھی سیڑھیوں کے بغیر چکنے فرش پر جس پر بعد میں مصری حکومت نے لکڑی کے پٹرے بچھا دیے ہیں اور تھوڑے تھوڑے فاصلے پر کڈی کی پٹیاں ٹھونک دی ہیں تاکہ آپ کے قدم جم سکیں۔ گھپ اندھیرا، ہوا کا نام و نشان نہیں۔
وہ تو حکومت کی مہربانی ہے کہ کہیں کہیں ٹیوب لائٹ لگوا دی ہے۔ راستہ اتنا تنگ کہ بہ مشکل دو آدمی گزر سکیں۔ ایک بار چڑھنا شروع کریں تو بس چڑھتے ہی چلے جائیں، رکنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اترنا شروع کریں تو رکوع کے بل اترتے ہی رہیں۔ ہم سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ اگر زندگی میں آزمائش کا یہ حال ہے تو موت کے بعد کی گھاٹی کتنی سخت اور اندھیاری ہوگی۔ اسی لیے تو سرور کائناتؐ نے فرمایا کہ پیٹھ کا بوجھ ہلکا کرو گھاٹی بہت تنگ اور چڑھائی بہت سخت ہے۔،،انیس چشتی نے دریائے نیل پر کشتی کی سیر بھی کی اور کشتی میں خالص مصری تہذیب کی جلوہ گری بھی دیکھی۔ ان کے لیے یہ پہچاننا مشکل ہوگیا کہ وہ کسی اسلامی ملک میں ہیں یا یورپ کے کسی Seaside ہوٹل کے جاز روم میں۔ایک روز پورا وفد ظہر کی نماز کے لیے جامع ازہر گیا۔ وہ اس سے پہلے ہی جامع ازہر ہو آئے تھے۔جامعۃالازہر اسی مسجد کے آس پاس متعدد عمارتوں میں ہے۔
اتوار کو اگرچہ چھٹی ہوتی ہے مگر یونیورسٹی کے اکثر شعبے کھلے رہتے ہیں۔انھوں نے شیخ الازہر، شیخ محمد طنطاوی سے بھی ان کے دفتر میں ملاقات کی۔ مصر میں صدر کے بعد سب سے زیادہ اہمیت شیخ الازہر کی ہے۔جمعہ آیا تو جمعے کی نماز جامع عمرو بن العاصؓ میں ادا کی گئی۔ یہ مسجد بہت وسیع ہے، درمیانی صحن بہت بڑا اورکھلا ہے۔ اس کی تعمیر مسجد نبویؐ کے نمونے پر ہے اور اس کے ایک گوشے میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا مزار ہے۔
انیس چشتی لکھتے ہیں کہ ایک نوجوان مصری قاری محمد علی محمود نے ایسی خوش الحانی سے سورہ کہف کی تلاوت کی کہ مسجد میں ایک کہرام برپا ہوگیا۔ ایسا لگتا تھا کہ ہمارا وجود کلام الٰہی کی عظمت کے آگے پگھل کر بہہ جائیگا۔ سیمینار ختم ہونے کے بعد انیس چشتی اسکندریہ گئے اور وہاں کا عظیم کتب خانہ دیکھا جہاں تمام موضوعات پر پچاس لاکھ کتابیں اور مخطوطے ہیں اور ریسرچ کے انتظامات ہیں۔ انیس چشتی کو اب اپنے وطن واپس جانا تھا، وہ یہ نیت کر کے آئے تھے کہ وطن واپسی سے پہلے وہ حرم کعبہ اور روضہ نبویؐ پر حاضری دیں گے۔ ان کی پہلی منزل اب ارض قرآن تھی کہ سکون دل یہیں ملتا ہے۔ قاہرہ سے وہ یہ کہتے ہوئے نکلے ،،خدا حافظ اے شہر نگاراں! خدا حافظ اے نیل کے کنول! خدا حافظ اے ام کلثوم اور قاری عبدالباسط کی آوازوں کے وارث و امین، خداحافظ!،،