فنکار محبتیں بانٹتے ہیں

کسی بھی ملک کے فنکار جہاں جاتے ہیں، وہ محبت کے سفیر بن کر جاتے ہیں۔


یونس ہمدم January 04, 2015
[email protected]

کسی بھی ملک کے فنکار جہاں جاتے ہیں، وہ محبت کے سفیر بن کر جاتے ہیں اور یہ فنکار لوگوں کے دلوں پر دستک دیتے ہیں اور محبتیں بانٹتے ہیں، وہ لوگ باعث تحسین ہیں جو گاہے گاہے پاکستان کے فنکاروں کو امریکی ریاستوں میں بسنے والے لاکھوں پاکستانیوں کے لیے خوشیوں کا پیغام لے کر آتے ہیں، وطن کے فنکاروں کو پردیس میں رہنے والے دیس کے باسیوں سے ملواتے ہیں۔ جو بھی فنکار امریکا آتے ہیں، وہ محبت کے سچے سفیر بن کر آتے ہیں، آپس میں محبتیں بانٹتے ہیں اور ساتھ ساتھ وطن کی فضاؤں کی مہک وطن کی مٹی کی خوشبو لے کر آتے ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہوتی ہے کہ وہ پردیس میں اپنے دیس کے فن و ثقافت کو بھی فروغ دینے کا باعث بنتے ہیں۔

وطن کے فنکاروں کو دیس سے پردیس لانے والے کئی لوگوں سے میری ملاقات رہتی ہے، اس وقت میں ایسی دو شخصیات کا تذکرہ کروں گا جن میں سے ایک ہیں محمد ادریس اور دوسرے ہیں ایم عظیم۔ ان دونوں دوستوں کی کاوشیں قابل تعریف ہیں۔ محمد ادریس گزشتہ چالیس پینتالیس سال سے ملک کے فنکاروں سے جڑے ہوئے ہیں اور امریکا کی مختلف ریاستوں میں ملک کے معروف فنکاروں کے ثقافتی گروپ لے کر آتے ہیں۔ میری پہلی ملاقات ادریس صاحب سے ان دنوں ہوئی تھی جب میں لاہور سے کراچی آیا ہوا تھا اور ایک ممتاز تقسیم کار کے آفس میں ہم سب مل کر دوپہر کا کھانا کھا رہے تھے۔

دو تین ماہ پیشتر ہی میری لکھی ہوئی ایک فلم ''شرمیلی'' کراچی میں ریلیز ہوچکی تھی جس کی کاسٹ میں ندیم، ممتاز، غلام محی الدین، طلعت صدیقی، ساجن، جمشید انصاری اور قوی شامل تھے، اسی دفتر سے ادریس صاحب ہی کے تعاون سے فلم ''شرمیلی'' امریکا و یورپ میں بھی نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔ اور میرے دوست استاد امیر احمد خان کے ایک شاگرد جو آسٹریلیا میں رہائش پذیر تھے انھوں نے امیر احمد خان کو خط میں لکھا تھا کہ انھوں نے میری لکھی ہوئی فلم ''شرمیلی'' ایک سینما میں دیکھی بڑی اچھی لگی ۔

یہ ان دنوں کی بات ہے میں اپنی فیملی سے ملنے چند دنوں کے لیے لاہور سے کراچی آیا ہوا تھا، میرے تصور میں نہیں تھا کہ کبھی میں خود امریکا کا باسی کہلاؤں گا پھر وقت پرندوں کی طرح اڑتا رہا پھر ایک دن وقت مجھے بھی اڑا کر امریکا لے آیا۔ اور آج میں امریکا کا شہری ہوں، کچھ عرصہ پہلے پاکستان ڈے پریڈ میں میری تیس سال کے بعد محمد ادریس سے ملاقات ہوئی تھی، مل کر بہت ہی زیادہ خوشی ہوئی پھر جب ادریس صاحب کو یہ پتا چلا کہ میں اب یہاں کا شہری بھی ہوں تو وہ اور بھی خوش ہوئے۔

پاکستان ڈے پریڈ کے موقع پر میری برسوں بعد رونا لیلیٰ، ثمینہ پیرزادہ، مصطفیٰ قریشی اور مزاحیہ آرٹسٹ عمر شریف سے بھی محمد ادریس ہی کے طفیل ملاقات ہوئی تھی۔ میں جب اسٹیج پر بیٹھے اپنے فنکار دوستوں سے مل رہا تھا تو چند لمحوں کے لیے میری آنکھیں بھیگ سی گئی تھیں۔ رونا لیلیٰ اس وقت اسٹیج پر اپنا ایک مشہور گیت گا رہی تھی جس کے بول تھے:

دنوا دنوا میں گنوں
کب آئیں گے سانوریا رے

اور پاکستانی امریکن گلوکارہ رونا لیلیٰ کے گیت پر جھوم رہے تھے، رقص کر رہے تھے اور میں رونا لیلیٰ کو بغور دیکھ رہا تھا۔ وہ کتنی زیادہ لحیم شحیم ہوگئی تھی، میری پہلی ملاقات رونا لیلیٰ سے اس وقت ہوئی تھی جب وہ تیرہ چودہ سال کی ایک انتہائی دبلی پتلی سی لڑکی تھی اور اسے موسیقار ناشاد نے پہلی بار فلم ''پھر صبح ہو گی'' میں اس کی زندگی کا پہلا گیت گوایا تھا۔ وہ گیت تسلیم فاضلی کا لکھا ہوا تھا۔ تسلیم فاضلی کا بھی وہ پہلا فلمی نغمہ تھا جس کے بول تھے:

دیّا رے دیّا کانٹا چبھا پاؤں میں
کانٹا نکال سیّاں پیپل کی چھاؤں میں

اور پھر فلم ''تم سا نہیں دیکھا تھا'' میں رونا لیلیٰ نے اسی مہینے میرا لکھا ہوا گیت گایا تھا جس کی موسیقی استاد امیر احمد خان نے مرتب کی تھی، جس کے بول تھے:

اجی یہ ہم سے روٹھنا کیسا، یہ ہم سے بے رخی کیسی
جو تم ہی روٹھ جاؤ گے تو پھر دل کو خوشی کیسی

میں اسٹیج پر نغمہ سرا رونا لیلیٰ کو دیکھ رہا تھا اور باطن کی آنکھیں اس کومل اور کمسن رونا لیلیٰ کو دیکھ رہی تھیں۔ رونا لیلیٰ گیت ختم کرکے آئی اور پھر میری اس سے ملاقات ہوئی۔ رونا لیلیٰ سے باتوں کے درمیان پتا چلا کہ رونا لیلیٰ اب نانی بھی بن چکی ہے۔ اسی اسٹیج پر اداکارہ ثمینہ پیرزادہ سے بھی بہت عرصے کے بعد ملاقات رہی، ثمینہ پیرزادہ میرے ایک پیارے دوست عثمان پیرزادہ کی شریک حیات ہونے کے ناتے سے میرے لیے بھابھی کا درجہ رکھتی تھیں۔

کراچی میں کشمیر کمپلیکس کے قریب ان کی رہائش گاہ پر میری ثمینہ اور دیگر کئی ساتھی فنکاروں سے کئی ملاقاتیں رہی تھیں اور عثمان پیرزادہ سے تو ان کی اشتہاری ایجنسی میں بھی اکثر ملاقاتیں رہتی تھیں، عثمان نے لاہور اور کراچی ٹیلی ویژن کے ڈراموں میں اپنی صلاحیتیں دکھانے کے علاوہ فلموں میں بھی کام کرنا شروع کردیا تھا اور عثمان پیرزادہ سے لاہور میں میری اکثر ملاقاتیں رہتی تھیں بلکہ وہ ان دنوں میری لکھی ہوئی فلم ''میں چپ رہوں گی'' میں بھی کام کررہا تھا۔ اداکارہ و ہدایت کار سنگیتا کی یہ فلم اس کے اپنے فلمساز ادارے پی این آر پروڈکشن کے بینر تلے بنائی جا رہی تھی۔ عثمان پیرزادہ، سنگیتا اور قوی فلم کے مرکزی کردار تھے۔

لاہور میں فلم ''میں چپ رہوں گی'' میری وہ فلم تھی جس کی کہانی اور مکالمے میرے لکھے ہوئے تھے جب کہ فلم کا منظرنامہ سید نور نے لکھا تھا اور نغمہ نگار تسلیم فاضلی تھے۔ سنگیتا صاحبہ نے مجھ سے کہا بھی کہ یونس ہمدم تم چاہو تو ایک دو گیت بھی لکھ دو مگر میں نے کہا تھا کہ نہیں فلم کے تمام گیت فاضلی ہی لکھیں گے، میں اپنی تمام تر توجہ صرف اسکرپٹ پر رکھنا چاہتا ہوں اور پھر شوٹنگ کے دوران فلم کے سیٹ پر ہر وقت میری موجودگی بھی ضروری ہوتی تھی، مذکورہ فلم میں سب سے اہم کردار سنگیتا اور پھر قوی کا تھا، جو ایک ایسی بیوی کے گرد گھومتا تھا جو اپنے شوہر کی بیوی ہوتے ہوئے بھی زندگی کی اصلی خوشی اور راحت سے محروم رہتی ہے اور پھر بھی ایک مشرقی لڑکی کی طرح چپ رہتی ہے۔

سنگیتا، قوی اور عثمان پیرزادہ کی تثلیث نے اداکاری کا ایک ناقابل فراموش انداز قائم رکھا تھا اور تینوں فنکاروں نے بڑی معیاری اداکاری کی تھی، فلم اپنے موضوع اور فنکارانہ صلاحیتوں کی وجہ سے عوام کی توجہ کا مرکز تو ضرور بنی تھی مگر فلم اپنے سبجیکٹ کے اعتبار سے ایک آرٹ مووی کا درجہ اختیار کرگئی تھی جس کی وجہ سے یہ فلم باکس آفس پر زیادہ ہٹ ثابت نہ ہوسکی۔ میں یادوں کے دریا میں بہتا چلا جا رہا تھا اور میرے سامنے پاکستان کے نامور ولن مصطفی قریشی اور لیجنڈ مزاحیہ اداکار عمر شریف بھی بیٹھے ہوئے تھے۔

پاکستان ڈے پریڈ کا رنگارنگ پروگرام اپنے عروج پر تھا۔ رونا لیلیٰ اپنے یادگار گیت سنا کر واپس آگئی اور پھر ہلکی ہلکی پھوار نے باقاعدہ بارش کا روپ اختیار کرلیا۔ بیشمار لوگ بارش میں بھیگ رہے تھے مگر اپنے وطن کے فنکاروں کی محبتیں سمیٹ رہے تھے۔ مصطفیٰ قریشی نے اسٹیج پر آکر ایک قومی نغمہ سناکر ساری محفل کو گرما دیا تھا۔ وطن کی محبت سے سرشار ان کے اشعار کو سب نے بہت سراہا پھر انھوں نے اپنے چند مخصوص مکالمے بھی سنائے جنھیں سن کر وطن کے لوگوں کے چہروں پر پھول ہی پھول کھلتے چلے گئے۔ پھر عمر شریف نے اپنے مخصوص مزاحیہ انداز میں جس طرح سامعین کو اپنی طرف متوجہ کیا وہ تو دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ ہر بات، ہر فقرے پر لوگ قہقہے لگا رہے تھے۔ آسمان سے بھی بارش ہو رہی تھی اور ذہن پر بھی قہقہے ہی برس رہے تھے۔ عمر شریف کا اپنا ایک بے ساختہ انداز ہے۔

عمر شریف کی میری دوستی اس زمانے کی ہے جب وہ آدم جی کے اسٹیج پر ڈرامے کیا کرتا تھا پھر وہ ڈراموں سے شہرت پاکر فلموں میں آگیا اور اپنا ایسا مقام بنالیا کہ لہری، منور ظریف، ننھا، رنگیلا کے بعد اگر کسی مزاحیہ آرٹسٹ نے لوگوں کے دلوں میں گھر کیا ہے تو وہ عمر شریف ہی ہے۔

عمر شریف جس طرح پاکستان میں مقبول ہے اسی طرح ہندوستان کے لوگوں میں بھی بڑا پاپولر ہے، اس کے کئی اسٹیج ڈرامے جن میں خاص طور پر ''بکرا قسطوں پر'' اور ''بڈھا گھر پہ ہے'' کے کیسٹ ہندوستان میں اس طرح خریدے جاتے تھے جس طرح ''دیوالی'' اور ''دسہرے'' کے تہوار پر ہندوستان میں مٹھائی خریدی جاتی ہے۔ ہندوستان میں کیے گئے عمر شریف کے شوز آج بھی ہندوستان کے لوگوں کے ذہنوں پر نقش ہیں۔ عمر شریف سے بھی میری بہت سی یادیں جڑی ہوئی ہیں۔ کچھ لاہور سے تعلق رکھتی ہیں اور کچھ کراچی سے۔ آئندہ کسی کالم میں وہ تمام یادیں قارئین سے ضرور شیئر کروں گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔