رحمتُ للعالمین ﷺ امن عالم کے سب سے بڑے علم بردار
آپ کی بنیادی تعلیم ہی یہ تھی کہ انسان کا احترام اسکے انسان ہونیکی حیثیت سےکیا جائے چاہے اسکا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو
KARACHI:
اسلام سے پہلے سرزمین عرب کی وہ حالت تھی کہ یہاں کوئی مضبوط و مستحکم مرکزی حکومت نہیں تھی، بلکہ یہ خطہ ظالم اور جاہل قبیلوں کے ہاتھوں برباد ہورہا تھا۔
بے شمار اخلاقی اور سماجی برائیاں اس معاشرے کو چاٹ کر ختم کررہی تھیں۔ سماجی اور معاشرتی نظام مکمل طور پر درہم برہم ہوچکا تھا اور انسان اپنے اصل اور بنیادی مقام سے بے خبر، غفلت میں پڑا ہوا تھا۔ بچیوں کو معاشرے کے لیے باعث شرم سمجھا جاتا تھا، اس لیے انہیں پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کردیا جاتا تھا۔ ظلم و ستم کے اس عالم میں جب امید کی کوئی کرن باقی نہیں رہی تو پھر خالق کائنات کو اس دکھی انسانیت پر ترس آیا، جس کے نتیجے میں غار حرا سے روشنی کی ایک ایسی کرن پھوٹی جو جلد ہی ایک منور آفتاب کی شکل اختیار کرگئی۔ پھر توحید اور ایمان کی اس روشنی سے سارا عالم منور ہوگیا۔
یہ شمع رسالت بنو ہاشم کے گھرانے میں روشن ہوئی تھی اور حامل شمع ؐ نے ایسا توحیدی انقلاب برپا کیا کہ آج بھی تمام عالم اس سے فیض یاب ہورہا ہے۔ نبی اکرم ﷺ کی پاکیزہ ذات سے اور آپؐ کی عظیم سیرت پاک سے بنی نوع انسان کو ایک علمی ضابطۂ حیات اور قرآن کریم فرقان حمید کی شکل میں ایک تحریری آئین میسر آگیا جس پر عمل پیرا ہوکر انسانیت کو باوقار مقام ملا۔ راہ بر انسانیت ﷺ کی حیات مبارکہ ہمارے سامنے ایک کھلی ہوئی کتاب ہے۔ آپؐ کا ہر عمل حکم ربی کی تفسیر ہے۔
سید المرسلینﷺ غریبوں کے ہم درد اور یتیموں کے والی تھے، قول کے پکے اور وعدے کے سچے تھے۔ صداقت و امانت آپؐ کا ابدی جوہر تھا۔ رسول کریم ؐ تمام انبیائے کرام کی خوبیوں کا مجموعہ تھے۔ آپؐ کی شخصیت صبر و شکر کا حسین امتزاج ہے۔ آپؐ نے عالمی یک جہتی، یگانگت اور بھائی چارے کا عظیم درس دیا۔
نبی کریمﷺ کی تعلیم قرآن کریم سے کی گئی اور آپؐ کا خلق قرآن کریم ہے۔ آپ ﷺ کی آمد نے عرب میں سرتاپا انقلاب برپا کردیا۔ آپؐ نے پوری دنیا کے سامنے مکمل شریعت کو پیش کرکے دنیا کے ہر گوشے کو ترانۂ توحید سے معمور کردیا۔ آپؐ نے گم راہوں کو سیدھا اور سچا راستہ بتایا، بندوں کا رشتہ خدا سے جوڑا، اوہام پرستی کو مٹایا، دنیا کو محبت اور مساوات کی تعلیم دی۔ بلاشبہہ یہ سب آپؐ ہی کی ذات بابرکت کی دین تھی۔
حضور نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے ارشاد فرمایا:''مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے'' ۔
اسلام عالم گیر امن کا خواہاں ہے۔ اس حوالے سے قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:''جس نے کسی جان کا قتل کیا یا زمین میں فساد برپا کیا گویا اس نے ساری انسانیت کو قتل کردیا اور جس نے ایک جان کو بچایا، اس نے ساری انسانیت کو بچالیا۔''
پیغمبر اسلام ﷺ نہ صرف امن کے علم بردار تھے بلکہ آپؐ کی تعلیمات کا مقصد ملت اور معاشرے میں اتحاد، اخوت، باہمی اشتراک اور تعاون کا قیام تھا۔ آپؐ کی بنیادی تعلیم ہی یہ تھی کہ انسان کا احترام اس کے انسان ہونے کی حیثیت سے کیا جائے، چاہے اس کا تعلق کسی مذہب و ملت سے ہو۔ آپ ﷺ کی بعثت سے قبل لوگ ایک دوسرے کے دشمن تھے، انسانوں نے ایک دوسرے کی جان و مال اور آبرو کو پامال کر رکھا تھا۔ رسالت مآب ﷺ نے تمام انسانی برادری کو پرامن بقائے باہمی کی دعوت دی، دوسرے مذاہب کے ساتھ بھی آپؐ نے پرامن روابط استوار کیے۔
اسلام ایک پُرامن مذہب ہے، اس میں فتنہ وفساد، سختی، طنز و حقارت، دہشت گردی، ناانصافی کو ختم کرنے کے لیے سب سے پہلی اور بنیادی ہدایت یہ ہے کہ ہر طرح کے ظلم و ستم کا مکمل خاتمہ کیا جائے اور ہر ایک کے ساتھ عدل و انصاف برتا جائے۔ شفقت و محبت، پیار و نرمی اور ایک دوسرے سے حسن سلوک کا معاملہ روا رکھا جائے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے:''اے رسولؐ! یہ اﷲ کی بڑی رحمت ہے کہ آپؐ ان لوگوں کے لیے بڑے نرم دل واقع ہوئے ہیں ورنہ اگر کہیں آپؐ سخت مزاج ہوتے تو یہ سب آپؐ کے گرد سے چھٹ جاتے۔'' (آل عمران)
اس آیت مبارکہ میں واضح طور پر یہ حقیقت باور کرائی گئی ہے کہ اسلام کے وسیع پیمانے پر پھیلنے کا سبب پیغمبر اسلام ﷺ کی نرم دلی اور رواداری تھی۔ عرب کے خوں ریز اور خوں آشام خطے میں جہاں طویل مدت سے تلواریں لہو برسا رہی تھیں، آپؐ کی تشریف آوری کی ساتھ ہی صدیوں کے دشمن آپس میں بھائی بھائی بن گئے۔ عرب میں رونما ہونے والے اس عظیم انقلاب کا راز آپﷺکی تعلیمات ہی تھیں، جن پر عمل کرکے اہل ایمان کے دل باہمی محبت کے جذبات سے لبریز ہوگئے۔ آپؐ نے مل جل کر رہنے کے لیے پیار و محبت، شفقت اور ایک دوسرے کے ساتھ غم خواری کو فروغ دینے کی تلقین فرمائی۔ آپؐ نے مذہب کی بنیاد پر انسانی حقوق میں کبھی تفریق اور امتیاز روا نہیں رکھا۔ آپؐ کا دین بلالحاظ مذہب و عقائد تمام انسانوں کو بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کی ضمانت دیتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے آپؐ کو نسل انسانی کی ہدایت کا سرچشمہ بنایا جسے اپناکر انسان نے عزت و عظمت سے زندگی بسر کرنا سیکھ لیا۔ حبیب کبریا ﷺ کی عظیم ہستی اپنی ذات و صفات کے اعتبار سے اﷲ تبارک تعالیٰ کی بہترین تخلیق ہے، آپؐ کو اﷲ تعالیٰ نے اپنی خاص رحمت سے نوازا، آپؐ کو سب سے اعلیٰ اعزاز یہ دیا کہ آپؐ کے ذکر کو اپنا ذکر قرار دیا اور آپؐ کے نام کو اپنے نام کے ساتھ شامل کرلیا۔
سورۂ احزاب میں ارشاد ہے:''اﷲ اور اس کے فرشتے محمدؐ پر درود و سلام بھیجتے ہیں، اس لیے اے ایمان والو! تم بھی محمدؐ پر درود بھیجا کرو۔''
اﷲ تعالیٰ نے نہ صرف آپؐ کو عزت و احترام سے سرفراز کیا بلکہ تکریم نبوی ﷺ کے خصوصی احکام بھی جاری کردیے اور ان کی ہر معاملے میں توقیر و تعظیم کا حکم دیا۔
ارشاد فرمایا:''مومنو! پیغمبر کے بلانے کو ایسا خیال نہ کرنا جیسا تم آپس میں ایک دوسرے کو بلاتے ہو۔ بے شک! اﷲ کو وہ لوگ معلوم ہیں جو تم سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں۔'' (النور)
آپؐ کی رائے کو سب سے مقدم سمجھا گیا اور اس کا احترام کرنے کا حکم بھی دیا گیا، کیوں کہ آپؐ کی رائے قرآن کے مطابق تھی اور زندگی کو سنوارنے کے لیے آپؐ کے احکام پر عمل پیرا ہونا لازمی تھا۔ گم راہی سے وہی لوگ نکل سکتے تھے جو آپؐ کی نصیحت پر عمل کرتے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے''اے محمدﷺ ہم نے تم کو سچائی کے ساتھ خوش خبری سنانے والا، ڈرانے والا بنا کر بھیجا۔'' (البقرہ)
حضور سرور عالم ﷺ کی آمد پوری نسل انسانی پر رب کریم کا احسان ہے اور آپؐ کی تعلیمات پوری دنیا کے لیے باعث رحمت ہیں۔
اسلام سے پہلے سرزمین عرب کی وہ حالت تھی کہ یہاں کوئی مضبوط و مستحکم مرکزی حکومت نہیں تھی، بلکہ یہ خطہ ظالم اور جاہل قبیلوں کے ہاتھوں برباد ہورہا تھا۔
بے شمار اخلاقی اور سماجی برائیاں اس معاشرے کو چاٹ کر ختم کررہی تھیں۔ سماجی اور معاشرتی نظام مکمل طور پر درہم برہم ہوچکا تھا اور انسان اپنے اصل اور بنیادی مقام سے بے خبر، غفلت میں پڑا ہوا تھا۔ بچیوں کو معاشرے کے لیے باعث شرم سمجھا جاتا تھا، اس لیے انہیں پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کردیا جاتا تھا۔ ظلم و ستم کے اس عالم میں جب امید کی کوئی کرن باقی نہیں رہی تو پھر خالق کائنات کو اس دکھی انسانیت پر ترس آیا، جس کے نتیجے میں غار حرا سے روشنی کی ایک ایسی کرن پھوٹی جو جلد ہی ایک منور آفتاب کی شکل اختیار کرگئی۔ پھر توحید اور ایمان کی اس روشنی سے سارا عالم منور ہوگیا۔
یہ شمع رسالت بنو ہاشم کے گھرانے میں روشن ہوئی تھی اور حامل شمع ؐ نے ایسا توحیدی انقلاب برپا کیا کہ آج بھی تمام عالم اس سے فیض یاب ہورہا ہے۔ نبی اکرم ﷺ کی پاکیزہ ذات سے اور آپؐ کی عظیم سیرت پاک سے بنی نوع انسان کو ایک علمی ضابطۂ حیات اور قرآن کریم فرقان حمید کی شکل میں ایک تحریری آئین میسر آگیا جس پر عمل پیرا ہوکر انسانیت کو باوقار مقام ملا۔ راہ بر انسانیت ﷺ کی حیات مبارکہ ہمارے سامنے ایک کھلی ہوئی کتاب ہے۔ آپؐ کا ہر عمل حکم ربی کی تفسیر ہے۔
سید المرسلینﷺ غریبوں کے ہم درد اور یتیموں کے والی تھے، قول کے پکے اور وعدے کے سچے تھے۔ صداقت و امانت آپؐ کا ابدی جوہر تھا۔ رسول کریم ؐ تمام انبیائے کرام کی خوبیوں کا مجموعہ تھے۔ آپؐ کی شخصیت صبر و شکر کا حسین امتزاج ہے۔ آپؐ نے عالمی یک جہتی، یگانگت اور بھائی چارے کا عظیم درس دیا۔
نبی کریمﷺ کی تعلیم قرآن کریم سے کی گئی اور آپؐ کا خلق قرآن کریم ہے۔ آپ ﷺ کی آمد نے عرب میں سرتاپا انقلاب برپا کردیا۔ آپؐ نے پوری دنیا کے سامنے مکمل شریعت کو پیش کرکے دنیا کے ہر گوشے کو ترانۂ توحید سے معمور کردیا۔ آپؐ نے گم راہوں کو سیدھا اور سچا راستہ بتایا، بندوں کا رشتہ خدا سے جوڑا، اوہام پرستی کو مٹایا، دنیا کو محبت اور مساوات کی تعلیم دی۔ بلاشبہہ یہ سب آپؐ ہی کی ذات بابرکت کی دین تھی۔
حضور نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے ارشاد فرمایا:''مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے'' ۔
اسلام عالم گیر امن کا خواہاں ہے۔ اس حوالے سے قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:''جس نے کسی جان کا قتل کیا یا زمین میں فساد برپا کیا گویا اس نے ساری انسانیت کو قتل کردیا اور جس نے ایک جان کو بچایا، اس نے ساری انسانیت کو بچالیا۔''
پیغمبر اسلام ﷺ نہ صرف امن کے علم بردار تھے بلکہ آپؐ کی تعلیمات کا مقصد ملت اور معاشرے میں اتحاد، اخوت، باہمی اشتراک اور تعاون کا قیام تھا۔ آپؐ کی بنیادی تعلیم ہی یہ تھی کہ انسان کا احترام اس کے انسان ہونے کی حیثیت سے کیا جائے، چاہے اس کا تعلق کسی مذہب و ملت سے ہو۔ آپ ﷺ کی بعثت سے قبل لوگ ایک دوسرے کے دشمن تھے، انسانوں نے ایک دوسرے کی جان و مال اور آبرو کو پامال کر رکھا تھا۔ رسالت مآب ﷺ نے تمام انسانی برادری کو پرامن بقائے باہمی کی دعوت دی، دوسرے مذاہب کے ساتھ بھی آپؐ نے پرامن روابط استوار کیے۔
اسلام ایک پُرامن مذہب ہے، اس میں فتنہ وفساد، سختی، طنز و حقارت، دہشت گردی، ناانصافی کو ختم کرنے کے لیے سب سے پہلی اور بنیادی ہدایت یہ ہے کہ ہر طرح کے ظلم و ستم کا مکمل خاتمہ کیا جائے اور ہر ایک کے ساتھ عدل و انصاف برتا جائے۔ شفقت و محبت، پیار و نرمی اور ایک دوسرے سے حسن سلوک کا معاملہ روا رکھا جائے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے:''اے رسولؐ! یہ اﷲ کی بڑی رحمت ہے کہ آپؐ ان لوگوں کے لیے بڑے نرم دل واقع ہوئے ہیں ورنہ اگر کہیں آپؐ سخت مزاج ہوتے تو یہ سب آپؐ کے گرد سے چھٹ جاتے۔'' (آل عمران)
اس آیت مبارکہ میں واضح طور پر یہ حقیقت باور کرائی گئی ہے کہ اسلام کے وسیع پیمانے پر پھیلنے کا سبب پیغمبر اسلام ﷺ کی نرم دلی اور رواداری تھی۔ عرب کے خوں ریز اور خوں آشام خطے میں جہاں طویل مدت سے تلواریں لہو برسا رہی تھیں، آپؐ کی تشریف آوری کی ساتھ ہی صدیوں کے دشمن آپس میں بھائی بھائی بن گئے۔ عرب میں رونما ہونے والے اس عظیم انقلاب کا راز آپﷺکی تعلیمات ہی تھیں، جن پر عمل کرکے اہل ایمان کے دل باہمی محبت کے جذبات سے لبریز ہوگئے۔ آپؐ نے مل جل کر رہنے کے لیے پیار و محبت، شفقت اور ایک دوسرے کے ساتھ غم خواری کو فروغ دینے کی تلقین فرمائی۔ آپؐ نے مذہب کی بنیاد پر انسانی حقوق میں کبھی تفریق اور امتیاز روا نہیں رکھا۔ آپؐ کا دین بلالحاظ مذہب و عقائد تمام انسانوں کو بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کی ضمانت دیتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے آپؐ کو نسل انسانی کی ہدایت کا سرچشمہ بنایا جسے اپناکر انسان نے عزت و عظمت سے زندگی بسر کرنا سیکھ لیا۔ حبیب کبریا ﷺ کی عظیم ہستی اپنی ذات و صفات کے اعتبار سے اﷲ تبارک تعالیٰ کی بہترین تخلیق ہے، آپؐ کو اﷲ تعالیٰ نے اپنی خاص رحمت سے نوازا، آپؐ کو سب سے اعلیٰ اعزاز یہ دیا کہ آپؐ کے ذکر کو اپنا ذکر قرار دیا اور آپؐ کے نام کو اپنے نام کے ساتھ شامل کرلیا۔
سورۂ احزاب میں ارشاد ہے:''اﷲ اور اس کے فرشتے محمدؐ پر درود و سلام بھیجتے ہیں، اس لیے اے ایمان والو! تم بھی محمدؐ پر درود بھیجا کرو۔''
اﷲ تعالیٰ نے نہ صرف آپؐ کو عزت و احترام سے سرفراز کیا بلکہ تکریم نبوی ﷺ کے خصوصی احکام بھی جاری کردیے اور ان کی ہر معاملے میں توقیر و تعظیم کا حکم دیا۔
ارشاد فرمایا:''مومنو! پیغمبر کے بلانے کو ایسا خیال نہ کرنا جیسا تم آپس میں ایک دوسرے کو بلاتے ہو۔ بے شک! اﷲ کو وہ لوگ معلوم ہیں جو تم سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں۔'' (النور)
آپؐ کی رائے کو سب سے مقدم سمجھا گیا اور اس کا احترام کرنے کا حکم بھی دیا گیا، کیوں کہ آپؐ کی رائے قرآن کے مطابق تھی اور زندگی کو سنوارنے کے لیے آپؐ کے احکام پر عمل پیرا ہونا لازمی تھا۔ گم راہی سے وہی لوگ نکل سکتے تھے جو آپؐ کی نصیحت پر عمل کرتے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے''اے محمدﷺ ہم نے تم کو سچائی کے ساتھ خوش خبری سنانے والا، ڈرانے والا بنا کر بھیجا۔'' (البقرہ)
حضور سرور عالم ﷺ کی آمد پوری نسل انسانی پر رب کریم کا احسان ہے اور آپؐ کی تعلیمات پوری دنیا کے لیے باعث رحمت ہیں۔