تعظیم ِ رسول ﷺ کے تقاضے
آپ ﷺ نے اپنی ان تھک محنت اور جاںفشانی سے اﷲ کے دین کی تکمیل فرما ئی تھی۔
'' بے شک ہم نے آپ ﷺ کو دونوں جہانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا۔''
آپ ﷺ نے اپنی ان تھک محنت اور جاںفشانی سے اﷲ کے دین کی تکمیل فرما ئی تھی۔
سورہ المائدہ '' آج میں نے تمہارے لیے دین کو مکمل کر دیا۔''
آپ ﷺ نے اپنے عمل کا وہ آئینہ ہمیں عطا فرمایا ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی اپنے معاشرتی اور مذہبی کردار کا باآسانی موازنہ کرسکتا ہے۔ آپ ﷺ کے ذریعے اﷲ تعالی نے ایک بہترین مذہب اور ضابظۂ حیات ہمیں دیا ہے۔
ہر زمانے اور ہر دور میں بتدریج مذاہب میں تبدیلی آتی رہتی ہے۔ مذاہب میں تبدیلی سے مراد لوگوں کے یقین اور نظریات میں تبدیلی ہے۔ آج عیسائیت، وہ عیسائیت نہیں ہے۔ یہودیت، وہ یہودیت نہیں ہے جو پہلے تھی۔
ملت ِ اسلامیہ بھی اسی تبدیلی کے عمل سے دوچار ہو چکی ہے۔ جامع ترمذی کی حدیث2737 میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ بنی اسرائیل بہتّرفرقوں میں تقسیم ہوئی تھی تو میری امت تہتّر میں تقسیم ہوگی۔
سنن ابن ماجہ کی حدیث 3994 میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا کہ ضرور تم اپنے سے پہلے کے لوگوں کی پیروی کروگے، ہاتھ در ہاتھ، بالشت در بالشت، حتٰی کہ اگر وہ کسی گوہ کے بل میں داخل ہوئے ہوں گے تو تم بھی داخل ہوجاؤ گے۔ صحابہ ؓ نے پوچھا کہ یہود و نصاری کی؟ آپ نے فرمایا کہ تو اور کس کی؟
یہود و نصاریٰ اپنے اکابرین کی مدح میںغلو کرتے تھے۔ جہاں تعظیم ِ رسول ﷺ نہایت ضروری ہے، وہیں تعظیم ِ رسول ﷺ کے تقاضے بھی بڑی اہمیت اور تکمیل کا تقاضا کرتے ہیں۔ دراصل ہم روز مرہ بات چیت کے انداز میں دین سے متعلق ہستیوں کی باتیں بھی عام باتوں کی طرح کردیتے ہیں۔
اس حوالے سے ہمیں احتیاط اور احترام کو ملحوظ ِ خاطر رکھنا چاہیے۔ اس کی چند ایک مثالیں علامہ شبلی نعمانی ؒ نے اپنی سیرت ِ پاک ﷺ کی کتاب کی جلد دوئم کے صفحہ201 میں تعظیم ِ رسول کے حوالے سے درج کی ہیں۔ انہیں پڑھ کر گویا محسوس ہوتا ہے کہ آپ ﷺ اپنی تعظیم کے حوالے سے سورہ الاحزاب آیت70'' اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرو اور سیدھی بات کہا کرو۔'' کا بے حد خیال فرماتے تھے۔
حضرت عیسی ؑ کی مثال پیش ِ نظر تھی تو آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ میری اس قدر مبالغہ آمیز مدح نہ کیا کرو جس قدر نصاریٰ، ابن مریم ؑ کی کیا کرتے ہیں، میں تو خدا کا بندہ اور اس کا فرستادہ ہوں۔ قیس بن سعد ؓ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میں حیران رہ گیا۔ کچھ لوگوں کو دیکھا کہ رئیسِ شہر کے دربار میں جاتے ہیں تو اس کے سامنے سجدہ کرتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں واقعہ بیان کیا اور عرض کی کہ آپ کو سجدہ کیا جائے کہ آپ اس کے زیادہ مستحق ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم میری قبر پر گذرو گے تو سجدہ کرو گے؟ کہا نہیں، تو فرمایا کہ پھر جیتے جی بھی سجدہ نہیں کرنا چاہیے۔
آنحضرت ﷺ کے صاحب زادے حضرت ابراہیم ؓ نے جس روز انتقال کیا، اتفاق سے اس روز سورج کو گرہن لگا۔ لوگوں کے خیال میں ایک پیغمبر کی ظاہری عظمت کا ایک فرضی تخیل یہ تھا کہ اس درد اور صدمے سے کم از کم اجرام ِ سماوی میں انقلاب پیدا ہو جائے گا۔ لوگوں نے اس اتفاقی واقعے کو اسی کے واقعہ پر محمل کیا (یعنی اس کا موجب سمجھا)۔ ایک جاہ پسند انسان کے لیے، اس قسم کا اتفاق ایک بہترین موقع ہو سکتا تھا۔ لیکن نبوت ﷺ کی شان اس سے بدرجہ ارفع و اعلی ہے۔ آنحضرت ﷺ نے اسی وقت لوگوں کو مسجد میں جمع کیا اور خطبہ دیا کہ چاند اور سورج میں گرہن لگنا خدا کی آیات ِ قدرت میں ہے، کسی کی زندگی اور موت سے ان میں گرہن نہیں لگتا۔
ایک دفعہ آنحضرت ﷺ وضو فرما رہے تھے۔ وضو کا پانی جو دست ِ مبارک سے گرتا، فدائی برکت کے خیال سے اس کو چُلو میں لے کر بدن پہ مل لیتے۔ آپ ﷺ نے پوچھا کہ تم یہ کیوں کر رہے ہو؟ انہوں نے کہا کہ خدا اور خدا کے رسول ﷺ کی محبت میں! فرمایا اگر کوئی اس بات کی خوشی حاصل کرنی چاہے کہ وہ خدا اور خدا کے رسول ﷺ سے محبت رکھتا ہے تو اس کو چاہیے کہ جب باتیں کرے تو سچ بولے، جب امین بنایا جائے تو امانت کرے اور کسی کا پڑوسی ہے تو ہمسائیگی کو اچھی طرح نبھائے۔
علامہ شبلی نعمانی ؒ کی مندرجہ بالا تمام بیان کردہ یہ تمام حوالہ جات اپنی جگہ بہت اہم ہیں۔
سورہ الاحزاب آیت70:'' اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرو اور سیدھی بات کہا کرو۔ یہ آیت دراصل اس بات کا تقاضا کر رہی ہے کہ جو چیز جس سے متعلق ہے، اسی سے ہی منسوب کی جائے۔ اسی سے تعظیم ِ رسول ﷺ کے تقاضے بھی پورے ہوں گے اور رسول اکرم ﷺ کی چاہت کی تکمیل کا پرنور احساس بھی نصیب ہوگا۔
آپ ﷺ نے اپنی ان تھک محنت اور جاںفشانی سے اﷲ کے دین کی تکمیل فرما ئی تھی۔
سورہ المائدہ '' آج میں نے تمہارے لیے دین کو مکمل کر دیا۔''
آپ ﷺ نے اپنے عمل کا وہ آئینہ ہمیں عطا فرمایا ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی اپنے معاشرتی اور مذہبی کردار کا باآسانی موازنہ کرسکتا ہے۔ آپ ﷺ کے ذریعے اﷲ تعالی نے ایک بہترین مذہب اور ضابظۂ حیات ہمیں دیا ہے۔
ہر زمانے اور ہر دور میں بتدریج مذاہب میں تبدیلی آتی رہتی ہے۔ مذاہب میں تبدیلی سے مراد لوگوں کے یقین اور نظریات میں تبدیلی ہے۔ آج عیسائیت، وہ عیسائیت نہیں ہے۔ یہودیت، وہ یہودیت نہیں ہے جو پہلے تھی۔
ملت ِ اسلامیہ بھی اسی تبدیلی کے عمل سے دوچار ہو چکی ہے۔ جامع ترمذی کی حدیث2737 میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ بنی اسرائیل بہتّرفرقوں میں تقسیم ہوئی تھی تو میری امت تہتّر میں تقسیم ہوگی۔
سنن ابن ماجہ کی حدیث 3994 میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا کہ ضرور تم اپنے سے پہلے کے لوگوں کی پیروی کروگے، ہاتھ در ہاتھ، بالشت در بالشت، حتٰی کہ اگر وہ کسی گوہ کے بل میں داخل ہوئے ہوں گے تو تم بھی داخل ہوجاؤ گے۔ صحابہ ؓ نے پوچھا کہ یہود و نصاری کی؟ آپ نے فرمایا کہ تو اور کس کی؟
یہود و نصاریٰ اپنے اکابرین کی مدح میںغلو کرتے تھے۔ جہاں تعظیم ِ رسول ﷺ نہایت ضروری ہے، وہیں تعظیم ِ رسول ﷺ کے تقاضے بھی بڑی اہمیت اور تکمیل کا تقاضا کرتے ہیں۔ دراصل ہم روز مرہ بات چیت کے انداز میں دین سے متعلق ہستیوں کی باتیں بھی عام باتوں کی طرح کردیتے ہیں۔
اس حوالے سے ہمیں احتیاط اور احترام کو ملحوظ ِ خاطر رکھنا چاہیے۔ اس کی چند ایک مثالیں علامہ شبلی نعمانی ؒ نے اپنی سیرت ِ پاک ﷺ کی کتاب کی جلد دوئم کے صفحہ201 میں تعظیم ِ رسول کے حوالے سے درج کی ہیں۔ انہیں پڑھ کر گویا محسوس ہوتا ہے کہ آپ ﷺ اپنی تعظیم کے حوالے سے سورہ الاحزاب آیت70'' اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرو اور سیدھی بات کہا کرو۔'' کا بے حد خیال فرماتے تھے۔
حضرت عیسی ؑ کی مثال پیش ِ نظر تھی تو آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ میری اس قدر مبالغہ آمیز مدح نہ کیا کرو جس قدر نصاریٰ، ابن مریم ؑ کی کیا کرتے ہیں، میں تو خدا کا بندہ اور اس کا فرستادہ ہوں۔ قیس بن سعد ؓ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میں حیران رہ گیا۔ کچھ لوگوں کو دیکھا کہ رئیسِ شہر کے دربار میں جاتے ہیں تو اس کے سامنے سجدہ کرتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں واقعہ بیان کیا اور عرض کی کہ آپ کو سجدہ کیا جائے کہ آپ اس کے زیادہ مستحق ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم میری قبر پر گذرو گے تو سجدہ کرو گے؟ کہا نہیں، تو فرمایا کہ پھر جیتے جی بھی سجدہ نہیں کرنا چاہیے۔
آنحضرت ﷺ کے صاحب زادے حضرت ابراہیم ؓ نے جس روز انتقال کیا، اتفاق سے اس روز سورج کو گرہن لگا۔ لوگوں کے خیال میں ایک پیغمبر کی ظاہری عظمت کا ایک فرضی تخیل یہ تھا کہ اس درد اور صدمے سے کم از کم اجرام ِ سماوی میں انقلاب پیدا ہو جائے گا۔ لوگوں نے اس اتفاقی واقعے کو اسی کے واقعہ پر محمل کیا (یعنی اس کا موجب سمجھا)۔ ایک جاہ پسند انسان کے لیے، اس قسم کا اتفاق ایک بہترین موقع ہو سکتا تھا۔ لیکن نبوت ﷺ کی شان اس سے بدرجہ ارفع و اعلی ہے۔ آنحضرت ﷺ نے اسی وقت لوگوں کو مسجد میں جمع کیا اور خطبہ دیا کہ چاند اور سورج میں گرہن لگنا خدا کی آیات ِ قدرت میں ہے، کسی کی زندگی اور موت سے ان میں گرہن نہیں لگتا۔
ایک دفعہ آنحضرت ﷺ وضو فرما رہے تھے۔ وضو کا پانی جو دست ِ مبارک سے گرتا، فدائی برکت کے خیال سے اس کو چُلو میں لے کر بدن پہ مل لیتے۔ آپ ﷺ نے پوچھا کہ تم یہ کیوں کر رہے ہو؟ انہوں نے کہا کہ خدا اور خدا کے رسول ﷺ کی محبت میں! فرمایا اگر کوئی اس بات کی خوشی حاصل کرنی چاہے کہ وہ خدا اور خدا کے رسول ﷺ سے محبت رکھتا ہے تو اس کو چاہیے کہ جب باتیں کرے تو سچ بولے، جب امین بنایا جائے تو امانت کرے اور کسی کا پڑوسی ہے تو ہمسائیگی کو اچھی طرح نبھائے۔
علامہ شبلی نعمانی ؒ کی مندرجہ بالا تمام بیان کردہ یہ تمام حوالہ جات اپنی جگہ بہت اہم ہیں۔
سورہ الاحزاب آیت70:'' اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرو اور سیدھی بات کہا کرو۔ یہ آیت دراصل اس بات کا تقاضا کر رہی ہے کہ جو چیز جس سے متعلق ہے، اسی سے ہی منسوب کی جائے۔ اسی سے تعظیم ِ رسول ﷺ کے تقاضے بھی پورے ہوں گے اور رسول اکرم ﷺ کی چاہت کی تکمیل کا پرنور احساس بھی نصیب ہوگا۔