گزشتہ روز لاہور میں سلمان تاثیر کے لیے ان کے کچھ خاندان کے افراد اور احباب اُن کی برسی کے موقع پر شمیں روشن کررہے تھے تو ان پر کچھ نامعلوم افراد نے حملہ کردیا۔ سلمان تاثیر کے قتل کی جو بھی وجوہات تھیں لیکن ایک بات بہرحال واضح ہے کہ یہ ایک نازک مسئلہ ہے اور بلاشبہ اس مسئلے کا حل پاکستانی آئین اور قانون کے اندر موجود ہے۔
مگر شاید ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم کبھی قانون پر عمل ہی نہیں کرتے ۔ انتہا پسندی اس ملک کے لیے خطرناک چیلنج بن چکی ہے یہ ایک ایسا ہتھیار ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی کسی کو بھی ورغلا کر خودکش حملہ آور بنا سکتا ہے یا کسی کو بھی کافر یا گستاخ قرار دے کر سڑک پر ہی فارغ کرسکتا ہے ۔
یہاں اہم بات یہ ہے کہ جب کوئی بھی قانون بنتا ہے تو اسکی ایک خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ یہ معاشرے کے ہر طبقے کے لیے یکساں ہوتا ہے ایسا نہیں ہوتا کہ اِس قانون کا معاشرے کے کچھ افراد پر اطلاق ہوتا ہو اور باقی تمام مبرا ہوں۔ اور جب ایسا ہونا شروع ہوجائے تو پھر معاشرہ تقسیم در تقسیم ہوتا چلا جاتا ہےجو ملکی وحدت کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے ۔
جیسا کہ ہمارے ملک میں حال ہی میں فوجی عدالتیں بنائیں گئیں ہیں جس پر کچھ سیاستدانوں کی طرف سے ایسے بیانات آئے کہ ان عدالتوں میں سیاسی مقدمات نہیں چلائے جائیں۔ گویا اگر کوئی دہشتگرد کسی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتا ہے توچاہے وہ قتل کرے دھماکہ کرے اسکا مقدمہ کہیں اور چلے گا ۔۔۔جناب یہ تقسیم کیوں ۔۔۔دہشتگردی او ر انتہا پسندی چاہے کوئی حاجی برکت اللہ کرے چاہے رام لعل کرے یا پھر جان مائیکل کرے سب کے ساتھ یکساں سلوک ہونا چاہیئے ۔اور سب سے بڑھ کر عدالتوں کو مضبوط اور بہتر کرنے کی ضرورت ہے جب ہر جرم کی سزا ہمارے قانون میں موجودتو پھر سڑکوں پر عدالتیں کیوں ؟
یہ سلسلہ بھی اب بند ہونا چاہیئے کہ معاشرے کے ایک طبقے کے لیے قانون اور ہو اور کسی اور طبقے کے لیے الگ قانون ہو ۔معاشرے برابری کی سطح پہ چلتے ہیں تبھی قومیں ترقی کرتیں ہیں ۔انصاف وہ بنیاد ہوتی ہے جس پر قومیں کھڑی ہوتی ہیں ۔دنیا کے کسی بھی ملک کی مثال لے لیں وہ بہت سے طبقات ،قوموں اور فرقوں کا مجموعہ ہوتا ہے اوران سب کو ایک چیز باندھ کر رکھتی ہے اور وہ ہوتی ہے برابری ۔۔۔جب برابری ختم ہوجائے تب فساد جنم لیتا ہے ۔انتہاپسندی صرف کسی ایک فرقے مذہب یا طبقے کے ساتھ منسوب نہیں ہے انتہاپسند کوئی بھی ہو سکتا ہے ۔
آج ہمارے ملک کے بڑے اگر یہ فیصلہ کرچکے ہیں کہ انتہا پسندی کو جڑ سے ختم کرنا ہے اور اس سلسلے میں قانون سازی بھی ہوچکی ہے تو ایک بات کا خیال رکھنا لازمی ہے کہ چاہے یہ انتہاپسند مذہبی طبقے کی طرف سے ہو یا پھر آزاد خیال لوگوں کی طرف سے ، دونوں پر قانون کا اطلاق یکساں ہونا چاہئے ۔ہمارے ہاں روایت بن چکی ہے کہ اگر کوئی انسان جرم کرتا ہے تو اسکو بطور ایک انفرادی انسان نہیں سمجھا جاتا بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ اسکی ذات کیا ہے ؟ اور پھر اس ذات کے ہر انسان کو مجرم سمجھا جانے لگتا ہے ۔۔۔یہ دیکھا جاتا ہے اسکا مذہب اور فرقہ کیا ہے ؟ اور پھر اس مذہب اور اس فرقے کے ہر شخص مشکوک نظروں سے دیکھا جانا شرو ع ہوجاتا ہے ۔جبکہ اگر کوئی قتل، جرم یا کوئی برا کام کرتا ہے تو اس میں اسکی ذات مذہب یا فرقے کا قصور نہیں ہوتا اس میں قصور اس انسان کی اپنی نفسیات اور اپنی سوچ کا ہوتا ہے ۔
لہذا اب ضرورت فرقوں، طبقوں سے بالاتر ہونے کی ہے ۔اگر کوئی مجرم قاتل گستاخ یا دہشتگرد ہے تو اسے لازمی سزا ملنی چاہیئے مگر شرط یہ ہے کہ قانون اور آئین کے اندر رہتے ہوئے۔ کیونکہ معاشرے کفر کے ساتھ تو چل سکتے ہیں عدل کے بنا نہیں چلتے ۔ ویسے بھی ہم تو اس نبی پاک ﷺ کے امتی ہیں جنہوں نے فرمایا تھا کہ کسی گورے کو کسی کالے پہ اور کسی کالے کو کسی گورے پہ کوئی فضیلت نہیں ہے ۔آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ چوری چاہے میری بیٹی فاطمہ کریے یا کوئی اور فاطمہ کریے قانون سب کے لیے یکساں ہوگا ۔دنیا کا ہر بڑا محق مفسر مقرر دانشور وکیل اس با ت پہ متفق ہے کہ قانون کا اطلاق سب پہ یکساں ہونا چاہیئے تو پھر ہم اس سے اتنے گریزاں کیوں ہیں اگر انتہا پسندی کو واقعی ختم کرنا ہے تو پھر عدل کے دونوں پلڑے ہر طبقے کے لیے برابر کرنا ضروری ہے ورنہ معاشرتی ٹوٹ پھوٹ مقدر بن جاتی ہے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔