جمہوریت کا استحکام اور انتخابی اصلاحات
جمہوریت کےعمل کو کامیابی سےہمکنار کرنےکےلیے ایک خودمختار، آزادانہ اور غیر جانبدارانہ الیکشن کمیشن کا قیام ناگزیر ہے۔
SYDNEY:
خامیوں سے پاک انتخابی نظام جمہوریت کی کامیابی اور تسلسل کی اولین شرط ہے۔ ہمارے وطن میں جمہوریت کی گاڑی کے بار بار پٹڑی سے اترنے اور فروغ نہ پانے کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہمارے یہاں ایک مستحکم، شفاف اور غیر جانب داری پر مبنی انتخابی نظام پروان نہیں چڑھ سکا۔ ہمارے ملک میں جب بھی عام انتخابات ہوئے، وہ دھاندلی کے الزامات کی بھینٹ چڑھ گئے۔
انتخابات میں دھاندلی کے الزام کی بنا پر ہی ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف زبردست ملک گیر تحریک چلی، جس کے نتیجے میں ان کی حکومت ہی نہیں جان بھی چلی گئی۔ تازہ ترین معاملہ گزشتہ عام انتخابات کا ہے جن کی بنا پر ملک گیر دھرنوں کا سلسلہ شروع ہوا تھا جو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ اس وقت ہمارا دھیان 1970 کے عام انتخابات کی جانب رہا ہے جو وطن عزیز میں اولین آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ عام انتخابات کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں۔
حیرانی کی بات یہ ہے کہ وہ انتخابات ایک فوجی آمر کے زیر سایہ منعقد ہوئے تھے۔ اس کے بعد سے وطن عزیز میں جتنے بھی انتخابات ہوئے ان میں سے کوئی بھی دھاندلی کے الزام سے پاک نہیں ہے۔ سب سے زیادہ لے دے 2013 کے انتخابات پر ہوئی ہے جن کے بارے میں صرف پاکستان تحریک انصاف ہی کو شدید اعتراضات نہیں ہیں بلکہ حزب اختلاف کی بیشتر سیاسی جماعتوں کو بھی شدید تحفظات ہیں۔
جمہوریت کے عمل کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے ایک خودمختار، آزادانہ اور غیر جانبدارانہ الیکشن کمیشن کا قیام ناگزیر ہے۔ اس طرح کے الیکشن کمیشن کوئی عنقا چیز نہیں کیونکہ ایسے ادارے دنیا کے بہت سے ممالک میں نہ صرف موجود ہیں بلکہ انتہائی فعال انداز میں اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں ایک مثالی الیکشن کمیشن موجود ہے جس کی تعریف پوری دنیا میں کی جا رہی ہے۔ وطن عزیز میں ایسے الیکشن کمیشن کے قیام کی ضرورت مدت دراز سے بڑی شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔
نہایت افسوس اور شرمندگی کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارا انتخابی نظام خامیوں اور نقائص سے بھرا پڑا ہے۔ مقامی اور بین الاقوامی دونوں ہی مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ ہمارے انتخابی نظام میں بے شمار اصلاحات کی ضرورت ہے۔ بین الاقوامی ادارے UNDP کی جانب سے کرائے گئے ایک ملک گیر سروے میں شامل 4,535 اشخاص میں سے 49 فیصد کا کہنا تھا کہ وہ وطن عزیز کے موجودہ انتخابی نظام سے قطعی مطمئن نہیں ہیں، جب کہ ان میں سے 55 فیصد کا اصرار تھا کہ انتخابی اصلاحات ناگزیر اور Over Due نہیں۔ 3 اکتوبر 2014 کی ایک اخباری اطلاع کے مطابق سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن اشتیاق خان نے یہ اعتراف کیا تھا کہ بعض معاملات میں ریٹرننگ افسران کے خلاف شکایات موصول ہوئی تھیں مگر انھیں ان کے خلاف کارروائی کرنے کا اختیار حاصل نہیں تھا۔
اسی بنا پر تمام سیاسی جماعتوں بشمول پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ ریٹرننگ اور ڈپٹی ریٹرننگ افسران عدلیہ سے لیے جائیں۔ حالات کا تقاضا یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتیں سر جوڑ کر بیٹھیں اور ایک آزاد اور خودمختار الیکشن کمیشن کی تشکیل کے بارے میں اصولی اور حتمی فیصلہ کریں۔اپریل 2010 میں جب پاکستان نے سول اور سیاسی حقوق کی بین الاقوامی کنونشن کی توثیق کی تھی تو اس وقت پاکستان کے پاس گزشتہ عام انتخابات کے انعقاد سے قبل انتخابی اصلاحات کا ایک اچھا موقع میسر آیا تھا مگر افسوس یہ موقع ضایع ہوگیا ورنہ تو آج صورتحال بہت مختلف ہوتی اور جمہوریت کو بڑی تقویت حاصل ہوچکی ہوتی۔
بہرحال یورپی یونین کے الیکشن سے متعلق مبصرین کے مشن نے الیکشن کے طریق کار کی بہتری کے لیے اپنی جانب سے 50 سفارشات پیش کی تھیں جن کا مقصد آیندہ پولنگ کے نظام کو قابل اعتبار، شفاف اور جامع بنانا تھا۔ ان میں سے 17 سفارشات خصوصی اہمیت کی حامل تھیں جن کا بنیادی مقصد Electoral Legislative فریم ورک کو مستحکم کرنا تھا تاکہ پاکستان کے شہری اپنے سیاسی اور سوک حقوق کو اطمینان بخش طریقے سے سر انجام دے سکیں۔
انتخابی نظام کو شفاف fool proof انداز میں کارگر بنانے کے لیے ایک خصوصی پارلیمانی کمیٹی کا قیام بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ اس کمیٹی میں تمام بڑی بڑی سیاسی پارٹیوں کی فعال اور مخلصانہ جذبے کے ساتھ شمولیت ازحد ضروری ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو اس بات کا احساس اور ادراک ہونا ضروری ہے کہ انتخابی اصلاحات کے لیے وسیع پیمانے پر تبادلہ خیال، غوروخوض، ریسرچ اور رائے عامہ کا ہموار ہونا ناگزیر ہے۔
ایک اور اہم کام انتخابی اصلاحات کے ایجنڈے کی تیاری ہے۔ بظاہر یہ کام آسان نظر آتا ہے لیکن حقیقتاً یہ کام بڑا مشکل اور انتہائی توجہ طلب ہے۔ بلاشبہ اس کے لیے ماہرین کی مشاورت کی اشد ضرورت ہوگی۔ تاہم رائے عامہ کی اہمیت سے بھی اس معاملے میں انکار نہیں کیا جاسکتا۔ بہتر ہوگا کہ اس معاملے میں جلد بازی کا مظاہرہ نہ کیا جائے اور سارا کام چھان پھٹک کے ساتھ انجام دیا جائے۔ جب یہ ایجنڈا تیار ہوجائے تو اسے حتمی شکل دینے سے قبل اس کی میڈیا پر تشہیر بھی کی جائے اور عوام سے آرا طلب کی جائیں۔سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی سے دنیا بھر کے ممالک انتخابی عمل میں بھی خوب خوب استفادہ کر رہے ہیں۔
اس میں الیکٹرونک ووٹنگ مشینیں (EVMs) اور بایومیٹرک ٹیکنالوجی سب سے زیادہ اہم اور قابل ذکر ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان بھی اس ٹیکنالوجی سے 2016 تک فائدہ اٹھانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ تاہم EVMs کو زیر استعمال لانے سے قبل بہت سے سوالات ایسے ہیں جو جواب طلب ہیں۔ ان میں اس مہنگے نظام کو متعارف کرانے پر آنے والے بھاری اخراجات سرفہرست ہیں۔ انتخابات کا انعقاد پہلے ہی بڑا مہنگا سودا ہے جب کہ سستی سے سستی EVM کے لیے کم ازکم ایک بلین ڈالر کی خطیر رقم درکار ہوگی۔ یہ عمل ہاتھی کی خریداری کے مترادف ہوگا جب کہ EVM کی خریداری کے بعد ان کی مینٹی نینس کے لیے بھی ایک بھاری رقم درکار ہوگی جو ہاتھی کی خریداری کے بعد اس کے لیے کھانے کے چارے کے بندوبست کے مترادف ہوگا، دیگر ضمنی اخراجات اس کے علاوہ ہوں گے۔
مگر جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال ہی آزادانہ، غیر جانبدارانہ، منصفانہ اور شفاف فول پروف، انتخابات کے انعقاد کا مکمل یقینی اور حتمی حل نہیں ہے۔ اس سلسلے میں دنیا کے کئی ممالک جن میں یوکے، جرمنی، آئرلینڈ اور اٹلی بھی شامل ہیں اس تجربے سے گزرنے کے بعد دوبارہ روایتی کاغذی طریقے کار کی جانب پلٹ آئے ہیں۔ تاہم ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں یہ تجربہ کامیاب ثابت ہوا ہے جہاں کے حالات ہمارے حالات سے بڑی مماثلت رکھتے ہیں۔
جرمنی میں تو ایک دستوری عدالت کی جانب سے یہ فیصلہ صادر کیا جاچکا ہے کہ ووٹنگ اور ووٹوں کی گنتی پبلک اسکروٹنی کے تابع ہونا چاہیے اور یہ کام ایکسپرٹ نالج کے ذریعے نہیں بلکہ کھلے عام کیا جانا چاہیے۔ جن ترقیاتی ممالک نے EVM کے جدید طریق کار کو ترک نہیں کیا ہے، وہ بھی اس میں زیادہ سے زیادہ بہتری اور شفافیت لانے کے لیے مسلسل کوشاں ہیں۔
انتخابی اصلاحات کے حوالے سے ایک اور اہم توجہ طلب مسئلہ کسی بھی شہری کے حق رائے دہی کی راز داری سے متعلق ہے۔ EVMکے نظام کی سب سے بڑی خامی یہی ہے کہ اس میں مکمل رازداری کا فقدان دیکھنے میں آیا ہے۔ چنانچہ ہالینڈ میں اس طریق کار کو صرف اسی وجہ سے ترک کرنا پڑا۔ ٹیکنالوجی کا استعمال دنیا بھر میں الیکشن کی کوالٹی کو بہتر بنانے میں ممد و معاون تو ہوسکتا ہے لیکن یہ اعتماد یا بھروسے کا نعم البدل کبھی نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے دیانت داری، غیر جانب داری اور شفافیت کا ہونا اولین شرط ہے کیونکہ اصل مسئلہ عوام کے بھروسے یا اعتماد کا ہے۔
دنیا کے دیگر جمہوری ممالک پر محض ایک سرسری نظر ڈالنے سے ہی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ وہاں نظام حکومت کی کامیابی اور جمہوری عمل کے تسلسل کا راز آزادانہ، غیر جانبدارانہ اور قطعی شفاف انتخابی طریق کار میں مضمر ہے۔ دراصل صاف و شفاف انتخابی نظام ہی جمہوریت کا حسن اور جمہوری عمل کے تسلسل کا ضامن ہوتا ہے۔ وطن عزیز کے معروضی حالات کا تقاضا ہے کہ گزشتہ عام انتخابات میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کی غیر جانب دارانہ اور شفاف تحقیقات کرائی جائیں اور ملوث پائے جانے والوں کو بلا لحاظ و امتیاز قانون اور انصاف کے کٹہرے میں لاکر کھڑا کیا جائے تاکہ آیندہ کسی کو دھاندلی کرنے کی جرأت نہ ہو۔ اس کے علاوہ انتخابی نظام کا ازسر نو مکمل جائزہ لیا جائے اور تمام خامیاں ممکنہ حد تک دور کی جائیں۔
خامیوں سے پاک انتخابی نظام جمہوریت کی کامیابی اور تسلسل کی اولین شرط ہے۔ ہمارے وطن میں جمہوریت کی گاڑی کے بار بار پٹڑی سے اترنے اور فروغ نہ پانے کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہمارے یہاں ایک مستحکم، شفاف اور غیر جانب داری پر مبنی انتخابی نظام پروان نہیں چڑھ سکا۔ ہمارے ملک میں جب بھی عام انتخابات ہوئے، وہ دھاندلی کے الزامات کی بھینٹ چڑھ گئے۔
انتخابات میں دھاندلی کے الزام کی بنا پر ہی ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف زبردست ملک گیر تحریک چلی، جس کے نتیجے میں ان کی حکومت ہی نہیں جان بھی چلی گئی۔ تازہ ترین معاملہ گزشتہ عام انتخابات کا ہے جن کی بنا پر ملک گیر دھرنوں کا سلسلہ شروع ہوا تھا جو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ اس وقت ہمارا دھیان 1970 کے عام انتخابات کی جانب رہا ہے جو وطن عزیز میں اولین آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ عام انتخابات کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں۔
حیرانی کی بات یہ ہے کہ وہ انتخابات ایک فوجی آمر کے زیر سایہ منعقد ہوئے تھے۔ اس کے بعد سے وطن عزیز میں جتنے بھی انتخابات ہوئے ان میں سے کوئی بھی دھاندلی کے الزام سے پاک نہیں ہے۔ سب سے زیادہ لے دے 2013 کے انتخابات پر ہوئی ہے جن کے بارے میں صرف پاکستان تحریک انصاف ہی کو شدید اعتراضات نہیں ہیں بلکہ حزب اختلاف کی بیشتر سیاسی جماعتوں کو بھی شدید تحفظات ہیں۔
جمہوریت کے عمل کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے ایک خودمختار، آزادانہ اور غیر جانبدارانہ الیکشن کمیشن کا قیام ناگزیر ہے۔ اس طرح کے الیکشن کمیشن کوئی عنقا چیز نہیں کیونکہ ایسے ادارے دنیا کے بہت سے ممالک میں نہ صرف موجود ہیں بلکہ انتہائی فعال انداز میں اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں ایک مثالی الیکشن کمیشن موجود ہے جس کی تعریف پوری دنیا میں کی جا رہی ہے۔ وطن عزیز میں ایسے الیکشن کمیشن کے قیام کی ضرورت مدت دراز سے بڑی شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔
نہایت افسوس اور شرمندگی کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارا انتخابی نظام خامیوں اور نقائص سے بھرا پڑا ہے۔ مقامی اور بین الاقوامی دونوں ہی مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ ہمارے انتخابی نظام میں بے شمار اصلاحات کی ضرورت ہے۔ بین الاقوامی ادارے UNDP کی جانب سے کرائے گئے ایک ملک گیر سروے میں شامل 4,535 اشخاص میں سے 49 فیصد کا کہنا تھا کہ وہ وطن عزیز کے موجودہ انتخابی نظام سے قطعی مطمئن نہیں ہیں، جب کہ ان میں سے 55 فیصد کا اصرار تھا کہ انتخابی اصلاحات ناگزیر اور Over Due نہیں۔ 3 اکتوبر 2014 کی ایک اخباری اطلاع کے مطابق سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن اشتیاق خان نے یہ اعتراف کیا تھا کہ بعض معاملات میں ریٹرننگ افسران کے خلاف شکایات موصول ہوئی تھیں مگر انھیں ان کے خلاف کارروائی کرنے کا اختیار حاصل نہیں تھا۔
اسی بنا پر تمام سیاسی جماعتوں بشمول پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ ریٹرننگ اور ڈپٹی ریٹرننگ افسران عدلیہ سے لیے جائیں۔ حالات کا تقاضا یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتیں سر جوڑ کر بیٹھیں اور ایک آزاد اور خودمختار الیکشن کمیشن کی تشکیل کے بارے میں اصولی اور حتمی فیصلہ کریں۔اپریل 2010 میں جب پاکستان نے سول اور سیاسی حقوق کی بین الاقوامی کنونشن کی توثیق کی تھی تو اس وقت پاکستان کے پاس گزشتہ عام انتخابات کے انعقاد سے قبل انتخابی اصلاحات کا ایک اچھا موقع میسر آیا تھا مگر افسوس یہ موقع ضایع ہوگیا ورنہ تو آج صورتحال بہت مختلف ہوتی اور جمہوریت کو بڑی تقویت حاصل ہوچکی ہوتی۔
بہرحال یورپی یونین کے الیکشن سے متعلق مبصرین کے مشن نے الیکشن کے طریق کار کی بہتری کے لیے اپنی جانب سے 50 سفارشات پیش کی تھیں جن کا مقصد آیندہ پولنگ کے نظام کو قابل اعتبار، شفاف اور جامع بنانا تھا۔ ان میں سے 17 سفارشات خصوصی اہمیت کی حامل تھیں جن کا بنیادی مقصد Electoral Legislative فریم ورک کو مستحکم کرنا تھا تاکہ پاکستان کے شہری اپنے سیاسی اور سوک حقوق کو اطمینان بخش طریقے سے سر انجام دے سکیں۔
انتخابی نظام کو شفاف fool proof انداز میں کارگر بنانے کے لیے ایک خصوصی پارلیمانی کمیٹی کا قیام بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ اس کمیٹی میں تمام بڑی بڑی سیاسی پارٹیوں کی فعال اور مخلصانہ جذبے کے ساتھ شمولیت ازحد ضروری ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو اس بات کا احساس اور ادراک ہونا ضروری ہے کہ انتخابی اصلاحات کے لیے وسیع پیمانے پر تبادلہ خیال، غوروخوض، ریسرچ اور رائے عامہ کا ہموار ہونا ناگزیر ہے۔
ایک اور اہم کام انتخابی اصلاحات کے ایجنڈے کی تیاری ہے۔ بظاہر یہ کام آسان نظر آتا ہے لیکن حقیقتاً یہ کام بڑا مشکل اور انتہائی توجہ طلب ہے۔ بلاشبہ اس کے لیے ماہرین کی مشاورت کی اشد ضرورت ہوگی۔ تاہم رائے عامہ کی اہمیت سے بھی اس معاملے میں انکار نہیں کیا جاسکتا۔ بہتر ہوگا کہ اس معاملے میں جلد بازی کا مظاہرہ نہ کیا جائے اور سارا کام چھان پھٹک کے ساتھ انجام دیا جائے۔ جب یہ ایجنڈا تیار ہوجائے تو اسے حتمی شکل دینے سے قبل اس کی میڈیا پر تشہیر بھی کی جائے اور عوام سے آرا طلب کی جائیں۔سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی سے دنیا بھر کے ممالک انتخابی عمل میں بھی خوب خوب استفادہ کر رہے ہیں۔
اس میں الیکٹرونک ووٹنگ مشینیں (EVMs) اور بایومیٹرک ٹیکنالوجی سب سے زیادہ اہم اور قابل ذکر ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان بھی اس ٹیکنالوجی سے 2016 تک فائدہ اٹھانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ تاہم EVMs کو زیر استعمال لانے سے قبل بہت سے سوالات ایسے ہیں جو جواب طلب ہیں۔ ان میں اس مہنگے نظام کو متعارف کرانے پر آنے والے بھاری اخراجات سرفہرست ہیں۔ انتخابات کا انعقاد پہلے ہی بڑا مہنگا سودا ہے جب کہ سستی سے سستی EVM کے لیے کم ازکم ایک بلین ڈالر کی خطیر رقم درکار ہوگی۔ یہ عمل ہاتھی کی خریداری کے مترادف ہوگا جب کہ EVM کی خریداری کے بعد ان کی مینٹی نینس کے لیے بھی ایک بھاری رقم درکار ہوگی جو ہاتھی کی خریداری کے بعد اس کے لیے کھانے کے چارے کے بندوبست کے مترادف ہوگا، دیگر ضمنی اخراجات اس کے علاوہ ہوں گے۔
مگر جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال ہی آزادانہ، غیر جانبدارانہ، منصفانہ اور شفاف فول پروف، انتخابات کے انعقاد کا مکمل یقینی اور حتمی حل نہیں ہے۔ اس سلسلے میں دنیا کے کئی ممالک جن میں یوکے، جرمنی، آئرلینڈ اور اٹلی بھی شامل ہیں اس تجربے سے گزرنے کے بعد دوبارہ روایتی کاغذی طریقے کار کی جانب پلٹ آئے ہیں۔ تاہم ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں یہ تجربہ کامیاب ثابت ہوا ہے جہاں کے حالات ہمارے حالات سے بڑی مماثلت رکھتے ہیں۔
جرمنی میں تو ایک دستوری عدالت کی جانب سے یہ فیصلہ صادر کیا جاچکا ہے کہ ووٹنگ اور ووٹوں کی گنتی پبلک اسکروٹنی کے تابع ہونا چاہیے اور یہ کام ایکسپرٹ نالج کے ذریعے نہیں بلکہ کھلے عام کیا جانا چاہیے۔ جن ترقیاتی ممالک نے EVM کے جدید طریق کار کو ترک نہیں کیا ہے، وہ بھی اس میں زیادہ سے زیادہ بہتری اور شفافیت لانے کے لیے مسلسل کوشاں ہیں۔
انتخابی اصلاحات کے حوالے سے ایک اور اہم توجہ طلب مسئلہ کسی بھی شہری کے حق رائے دہی کی راز داری سے متعلق ہے۔ EVMکے نظام کی سب سے بڑی خامی یہی ہے کہ اس میں مکمل رازداری کا فقدان دیکھنے میں آیا ہے۔ چنانچہ ہالینڈ میں اس طریق کار کو صرف اسی وجہ سے ترک کرنا پڑا۔ ٹیکنالوجی کا استعمال دنیا بھر میں الیکشن کی کوالٹی کو بہتر بنانے میں ممد و معاون تو ہوسکتا ہے لیکن یہ اعتماد یا بھروسے کا نعم البدل کبھی نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے دیانت داری، غیر جانب داری اور شفافیت کا ہونا اولین شرط ہے کیونکہ اصل مسئلہ عوام کے بھروسے یا اعتماد کا ہے۔
دنیا کے دیگر جمہوری ممالک پر محض ایک سرسری نظر ڈالنے سے ہی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ وہاں نظام حکومت کی کامیابی اور جمہوری عمل کے تسلسل کا راز آزادانہ، غیر جانبدارانہ اور قطعی شفاف انتخابی طریق کار میں مضمر ہے۔ دراصل صاف و شفاف انتخابی نظام ہی جمہوریت کا حسن اور جمہوری عمل کے تسلسل کا ضامن ہوتا ہے۔ وطن عزیز کے معروضی حالات کا تقاضا ہے کہ گزشتہ عام انتخابات میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کی غیر جانب دارانہ اور شفاف تحقیقات کرائی جائیں اور ملوث پائے جانے والوں کو بلا لحاظ و امتیاز قانون اور انصاف کے کٹہرے میں لاکر کھڑا کیا جائے تاکہ آیندہ کسی کو دھاندلی کرنے کی جرأت نہ ہو۔ اس کے علاوہ انتخابی نظام کا ازسر نو مکمل جائزہ لیا جائے اور تمام خامیاں ممکنہ حد تک دور کی جائیں۔