چکوری اور چاند

وہ راستہ جو بہت چوڑا بھی نہیں وہ راستہ لمبا بھی نہیں۔ وہ راستہ ایسا نہیں جس پر کارواں چلتے ہیں۔


عمر قاضی January 05, 2015
[email protected]

کراچی کے ساتھ سردیوں کی آنکھ مچولی جاری ہے۔ کبھی سرد ہوا کے جھونکے آتے ہیں تو شہریوں کو موسم بدل جانے کا احساس ہوتا ہے، ورنہ وہ صرف محکمہ موسمیات کی پیش گوئیاں سن کر خوش ہوتے ہیں۔ ڈھائی کروڑ آبادی کے اس شہر میں چند لاکھ لوگ اس دنیا میں رہتے ہیں جہاں موسم کا پتہ صرف لباس سے چلتا ہے۔ وہ دنیا جو ایک مختصر راستے تک محدود ہے۔ ہر راستے کے مقدر میں ایک منزل ہوا کرتی ہے مگر اس راستے کی کوئی منزل نہیں ہوتی۔

وہ راستہ جو بہت چوڑا بھی نہیں وہ راستہ لمبا بھی نہیں۔ وہ راستہ ایسا نہیں جس پر کارواں چلتے ہیں۔ وہ راستہ ایسا نہیں جس پر ٹریفک کے اہلکار کھڑے ہوتے ہیں اور آتی جاتی گاڑیوں میں صرف ان گاڑیوں کو رکنے کا اشارہ کرتے ہیں جو گاڑیاں غریب لوگوں کی ہوا کرتی ہیں۔ ان گاڑیوں کو چلانے والوں سے ڈاکومنٹ اور ڈرائیونگ لائسنس کے بارے میں پوچھ کر ٹریفک والے کچھ نوٹ لیتے ہیں اور انھیں چلے جانے کا اشارہ کرتے ہیں۔ جس راستے کا تذکرہ میں کر رہا ہوں وہ راستہ کبھی جام نہیں ہوتا۔

اس راستے پر وی آئی پیز کی وجہ سے بہت ساری گاڑیوں کو روکا نہیں جاتا۔ اس راستے پر گاڑیوں چلتی ہی نہیں۔ اس راستے پر وہ جوانیاں چلتی ہیں جو عام طور پر گاڑیوں کے بغیر چل ہی نہیں سکتیں۔ وہ جوانیاں جو رم جھم روشنیوں میں موسم کے حوالے سے نت نئے لباس پہن کر جب اپنے ناز و ادا کا اظہار کرتی ہیں تو مہنگے کیمراؤں کے فلیش بجلی کی طرح کوندتے ہیں اور کچھ دنوں کے بعد چمکتے ہوئے کاغذ پر ان کی رنگین تصاویر شایع ہوتی ہیں اور ان تصاویر کو دیکھ کر مڈل کلاس کے لڑکے اور لڑکیاں خوابوں میں کھو جاتے ہیں۔

جی ہاں! میں ماڈلنگ کی اس دنیا کی بات کر رہا ہوں جہاں خواب بیچے جاتے ہیں۔ جہاں صورتوں کو اس طرح سجایا جاتا ہے کہ آئینے اپنا وجود قائم رکھنے میں بہت تکلیف محسوس کرتے ہیں۔ وہ دنیا جہاں موسیقی کے ہلکے سر اس انداز سے بجتے کہ انسان پر ایک مدہوشی کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔

اس بار اس دنیا کے انداز پھر سے اس شہر پر حملہ آور ہوئے جو شہر ویسے بھی نفسیاتی دباؤ کے باعث چیخوف کے مشہور افسانے وارڈ نمبر 6 جیسا ہے۔ جس شہر میں لوگ بڑی مشکل سے اپنا ذہنی توازن قائم رکھنے کی کوشش کرتے اس شہر پر جب فیشن شوز حملہ کرتے ہیں تب غربت کے جہنم میں جلنے والی جوانیوں پر قیامت گزر جاتی ہے۔ اس شہر میں ابھی تک موسم سرما نہیں آیا مگر موسم سرما کی آمد سے پہلے ہی ایڈورٹائزنگ کمپنیاں اپنے تصورات پیش کرنے کی کوشش میں مصروف ہوجاتی ہیں اور سردیوں کے حوالے سے جو بھی آئٹمز انھیں مارکیٹ میں بھیجنے ہوتے ہیں انھیں طبقے کے حوالے سے تولا ناپا جاتا اور مخصوص مارکیٹ کو ذہن میں رکھ کر ویسے سلوگنز بنائے جاتے ہیں جو سننے میں پرکشش ہوں۔
یہ دنیا ایک الگ دنیا ہے، جو پورے معاشرے کو اپنی مٹھی میں لینے کے لیے تخیلاتی تصورات بناتی ہے۔ یہ دنیا اتنی بڑی نہیں مگر بڑی دنیا کو کنٹرول کرتی ہے۔ یہ دنیا جس راستے پر چلتی ہے، اس راستے کو ''ریمپ'' کہا جاتا اور اس ریمپ تک آنے کے لیے لڑکیوں کو کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اس کا ایک منظر انڈیا کی فلم ''فیشن'' میں پیش کیا گیا ہے۔ اس فلم میں مرکزی کردار ادا کرنے والی ہیروئن پریانکا چوپڑا ہے۔ جس کی معرفت اس دنیا کی بہت ظالم صورت پیش کی گئی ہے مگر اس فلم کو دیکھنے کے باوجود نہ صرف بھارت بلکہ پاکستان کی لڑکیوں کو بھی یہ احساس نہیں ہوا کہ انھیں اس دنیا سے دور بھاگنا چاہیے۔ ایسا نہیں ہے۔ یہ فلم دیکھنے کے باوجود وہ سب اس دنیا میں داخل ہونا چاہتی ہیں اور اس دنیا میں صرف اس کو خوش نصیب سمجھا جاتا ہے جس کے پیر اس راستے پر پڑیں جس راستے کو ریمپ کہا جاتا ہے۔ وہ ریمپ جو ہموار نہیں ہوتا اور اس ڈھلوان سے شہرت کی بلندی کا آغاز ہوتا ہے۔

دنیا کے ادیب کہتے اور لکھتے ہیں ہر لڑکی کے دل میں ایک خواب ہوا کرتا ہے مگر جب کوئی لڑکی ایک خواب کو پانے کے بجائے خود خواب فروخت کرنے والی بننا چاہے تو وہ ماڈل بن جاتی ہے۔ جس دور میں ماڈلنگ نے ترقی نہیں کی تھی اور اس دور میں صرف شریفانہ فلمیں بنتی تھیں تب لڑکیاں اداکارائیں بننے کے خواب دیکھا کرتی تھیں مگر اب ہر لڑکی کی آنکھوں میں ماڈل بننے کے سپنے ہیں۔ وہ ماڈل جس کی تصاویر اخبارات، میگزین اور سائن بورڈز پر سجتی ہیں اور جب ان میں کسی ماڈل کا اشتہار ٹی وی کی زینت بنتا ہے تو اسے خوش نصیب ترین قرار دیا جاتا ہے مگر اس دنیا سے وابستہ ہر لڑکی کو اپنے ٹیک آف کے لیے اس ریمپ پر کیٹ واک کرنا پڑتا ہے جو ریمپ راستہ نہیں بلکہ منزل ہے۔

اس وقت جب ملک کے بالائی علاقوں میں لوگ سردی سے کانپ رہے ہیں اور میدانی علاقے دھند میں ڈوبے ہوئے اور کراچی میں سردیوں کا انتظار کیا جا رہا ہے اس دور میں سردیوںکے حوالے سے جو گرما گرم فیشن کی تشہیر ہو رہی ہے وہ شریف انسانوں کی آنکھوں کو بھی چند لمحوں کے لیے جکڑ لیتی ہیں اور جب ہم سفید بالوں والے اپنے احساسات کو الجھتا ہوا محسوس کرتے ہیں تو ان نوجوانوں کا کیا حال ہوتا ہوگا جو اپنے بے قابو جذبات میں دنیا کو اپنی مٹھی میں لینے کے لیے دل کو سینے میں ضد کرتا پاتے ہیں۔ یہ دنیا فیشن کی دنیا ہے۔ اس دنیا کی حقیقت اصل میں کچھ بھی نہیں مگر اس دنیا والے انسانی احساسات اور خاص طور پر ان احساسات میں موجود محرومیاں اس طرح بھرتے ہیں کہ ہم جان بوجھ کر بھی اپنے آپ پر قابو نہیں رکھ پاتے۔ کبھی کبھی مجھے محسوس ہوتا ہے کہ شوبز کی وہ دنیا جس فیشن کو پروان چڑھاتی ہے وہ فیشن چاند کی مانند ہوا کرتا ہے۔ وہ چاند جو اصل میں ایک ویران سیارہ ہے مگر وہ دور سے جس طرح چمکتا ہے اور اس کی روشنی جس طرح دھرتی کے لوگوں کے دلوں میں جذبات کے سمندر کو تلاطم میں لاتی ہے اس کو دیکھ کر صرف وہ چکور پاگل نہیں ہوتے جن کے بارے میں ایک ہندی شاعر نے لکھا تھا کہ:

سانجھ پڑی دن بیتوی دیہاں چکوی روئے
چل چکوا اس دیس کو جہاں رین نہ ہوئے

یعنی: جب سورج ڈوبا اور شام کے سائے لہرانے لگے تب چکوری نے رو کر چکور سے کہا چلو اس دیس چلتے ہیں جہاں رات نہ ہوتی ہو۔

اس لیے بات صرف چکوری جیسی ماڈل لڑکیوں کی نہیں بلکہ فیشن کے اس چاند کو قریب دیکھ کر تو شیکسپیئر کے مشہور کردار اوتھیلو کا دماغ بھی اپنا توازن کھو بیٹھتا ہے اور وہ صرف شک کی بنیاد پر اپنی بیوی ڈیسڈمونا کو قتل کرنے کے بعد جب یہ بات سنتا ہے کہ اس کی بیوی بہت معصوم تھی تب وہ پورے چاند کی طرف دیکھ کر کہتا ہے کہ:

''چاند یہ حسین چاند دھرتی کے اس قدر قریب آجاتا ہے کہ انسان پاگل ہوجاتا ہے''

وہ تو ایک چاند تھا مگر آج جب ہزاروں چاند راستوں پر سائن بورڈز کے آئینے میں چمکتے ہیں تو انسان اپنا ذہنی توازن کس طرح قائم رکھ سکتا ہے؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر چکوری چاند سے محبت کرتی ہے مگر ہم تو ان چکوریوں کی بات کر رہے ہیں جو خود چاند بننے کی خواہش میں ''ریمپ'' پر مخصوص انداز سے چل کر اوپر اٹھنا چاہتی ہیں۔ مگر سب کو شہرت کا آسمان نہیں ملتا اور جنہیں ملتا ہے ان کی زندگی کس قدر دکھ سے بھری ہوئی ہوتی ہے؟ مگر اس دنیا میں دکھ اور درد کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ اس دنیا کا فوکس صرف خواب بیچنے پر ہوتا ہے۔ ایک خواب کو بیچنے کے لیے جب ہزاروں ملبوسات کو لہرایا جاتا ہے تب کس کو مولانا روم کا یہ شعر یاد آتا ہے کہ:

''میں نے بہت سارے بے جان مجسمے دیکھے جن پر قیمتی کپڑے لپٹے تھے
اور میں نے ان سے کہیں زیادہ ان انسانی جسموں کو دیکھا

جو سخت سردی میں کپڑوں سے محروم تھے''

مگر یہ فیشن کی دنیا ہے۔ اس دنیا کی ابتدا اور انتہا اس ''ریمپ'' پر ہوا کرتی ہے جو راستہ نہیں خود منزل ہے، مگر وہ منزل معصوم مسافروں کو کس قدر بھٹکا دیتی ہے؟ اس سوال کا جواب اگر میں دے بھی دوں تو کیا کوئی چکوری جیسی لڑکی ''ریمپ'' پر کیٹ واک کرتے ہوئے شہرت کے چاند کی طرف ٹیک آف کرنا نہیں چاہے گی؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں