پھانسی ضروری ہے
ملک میں چند ہزار روپے کے موبائل اور معمولی رقم کے لیے راہ زن اور ڈاکو بے دریغ جان لے لیتے ہیں۔
اگر میں آپ سے کہوں کہ پاکستان کو ٹیکس فری ریاست بنادینا چاہیے اور حکومت فوراً سارے ٹیکس ختم کردے، تو آپ میری تجویز اور مطالبے پر حیران پریشان رہ جائیں گے۔ آپ کو میری ذہنی حالت پر یقیناً شبہ ہوگا۔ آپ کہیں گے کہ جو ملک ایک عرصے سے شدید معاشی بحران کا شکار ہے، جہاں اقتصادی سرگرمیاں مفلوج دکھائی دیتی ہیں، جس دیس میں کتنے ہی کارخانے نامساعد حالات کی وجہ سے بند ہوچکے ہیں، جو ملک کھربوں روپے کا مقروض اور جس کے باشندوں کا بال بال بیرونی قرضے میں جکڑا ہوا ہے، اس ملک سے ٹیکسوں کا خاتمہ کیسے ممکن ہے؟
تو میں جواباً عرض کروں گی کہ آپ نے بالکل ٹھیک کہا، لیکن اب میرے ایک سوال کا جواب دے کر میری حیرت دور کردیجیے۔ یہ فرمائیے ہمارے پیارے وطن میں چھ سال سے زیادہ عرصے تک پھانسی کی سزا معطل کیوں رہی؟ کیا یہ وہی ملک نہیں جہاں کوئی ایک عشرے سے دہشت گردی کی خوف ناک آندھیاں چل رہی ہیں، جہاں دہشت گرد بھرے بازاروں، درس گاہوں، عبادت گاہوں اور مزارات پر حملے کرکے ہزاروں معصوم لوگوں کو بے دردی سے شہید کرچکے ہیں، یہ درندہ صفت دہشت کے ہرکارے بموں سے قیامت برپا کرتے وقت یہ بھی نہیں دیکھتے کہ ننھے ننھے بچے، عورتیں اور بوڑھے بھی ان کا نشانہ بن رہے ہیں۔
جس ملک میں چند ہزار روپے کے موبائل اور معمولی رقم کے لیے راہ زن اور ڈاکو بے دریغ جان لے لیتے ہیں، جہاں غیرت کے نام پر عورتوں کو کاری قرار دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے، جہاں مذہب کے نام پر لوگوں کو زندہ جلا دیا جاتا ہے، جہاں ٹارگٹ کلنگ، ڈکیتی راہ زنی کی وارداتوں، دشمنیوں اور معمولی سے اختلاف پر ہر روز کتنے ہی افراد کی جان لے لی جاتی ہے۔۔۔۔ خوف ودہشت کے سائے میں زندگی بسر کرتے اور اپنے پیاروں کی لاشوں پر ہر روز نوحہ کناں شہریوں کے اس پاکستان میں سزائے موت معطل رکھنے کا کیا جواز ہے؟ بس ذرا سا عالمی دباؤ آیا اور ہم نے سرجھکا کر حکم کی تعمیل کردی۔
سزائے موت کا معاملہ ہو، عسکریت پسندوں کے حوالے سے ''ڈو مور'' کا تقاضا یا چائلڈ لیبر کا ایشو، دنیا پر اپنی چوہدراہٹ جمائے بیٹھا مغرب ہمارے حالات اور حقیقتوں کے سمجھے بغیر ہم پر اپنے فیصلے لاگو کرنے کا خواہش مند ہوتا ہے۔ عالمی طاقتیں ہوں، بین الاقوامی تنظیمیں یا ادارے، انھیں اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ ان کے مطالبات پر عمل کرکے اور ان کے احکامات مان کر ہمارے ملک اور اس کے رہنے والوں پر کیا گزرے گی۔ وہ یا تو ہمارے حقیقتوں سے واقف نہیں یا جان بوجھ کر انجان بن جاتے ہیں، لیکن یہ ہمارا، ہماری سیاسی قیادت، اداروں اور حکومتوں کا کام ہے کہ جو بھی فیصلہ کریں اپنے حالات، ضروریات اور اپنی حقیقتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے کریں۔یہ آرمی پبلک اسکول کے معصوم شہداء کی قربانی، ان کی مظلومانہ شہادت اور ان کے خون کا صدقہ ہے کہ اس الم ناک واقعے کے بعد دہشت گردوں کے خلاف پوری قوم اور تمام سیاسی جماعتوں کا موقف یکساں ہو گیا اور بھرپور انداز میں سامنے آیا اور ملک کے سیاسی قائدین اپنے اختلافات بھلاکر ایک ساتھ بیٹھ گئے۔
وہیں مظلوموں کے خون سے سرخ ہوجانے والی مرے وطن کی سرزمین پر معطل ہوجانے والی سزائے موت کی بحالی بھی ان ہی نازک پھولوں اور کونپلوں کی قربانی کا صلہ ہے۔پاکستان میں سزائے موت کے بحال ہوتے ہی یورپی یونین اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیم نے حکومت پاکستان کے اس فیصلے کی مخالفت کردی۔ یہ تو پورے ملک میں اس وقت فضا ہی کچھ ایسی ہے کہ ہر کوئی معصوم انسانوں خاص طور پر بچوں کے درندہ صفت قاتلوں کو انجام سے دوچار ہوتا دیکھنا چاہتا ہے، ورنہ شاید اس حوالے سے ہم پر دباؤ بھی بہت زیادہ ہوتا اور ہماری حکومت یہ فیصلہ فوری واپس لے لیتی۔ سزائے موت کے حوالے سے بیرونی قوتوں کا دباؤ اور ان کا مطالبہ اپنی جگہ لیکن ہمارے ملک میں بھی ایسے افراد اور حلقے موجود ہیں جو سزائے موت پر معترض ہیں اور اس سزا کو انسانیت کے خلاف قرار دیتے ہوئے اس کا مکمل خاتمہ چاہتے ہیں۔
اسے ان خواتین وحضرات کی سادہ لوحی کہیں یا مغرب کی اندھی تقلید، انھیں اپنے دیس کے گلی کوچوں میں خون سے تر حقیقتیں نظر نہیں آتیں۔آخر معصوم انسانوں کی جان لے لینے والے مجرموں کو موت کی سزا کیوں نہ دی جائے؟ ریاست پر اپنے شہریوں کی بابت جہاں اور فرائض عاید ہوتے ہیں وہیں انھیں انصاف کی فراہمی بھی ریاست کی ذمے داری بلکہ اولین فریضہ ہے۔ ایسے میں سفاکانہ طریقے سے قتل کردیے جانے والے معصوم افراد کا قاتل معاشرے میں دندناتا پھرے یا چند سال جیل میں گزار کر واپس آئے اور اسی ہوا میں اطمینان سے سانس لیتا رہے۔
جس میں اس کے ہاتھوں مارے جانے والے کے خون کی خوشبو مہک رہی ہے، تو مقتول کے لواحقین کے ساتھ اس سے بڑا ظلم کیا ہوگا۔ کیا ان کا انصاف سے اعتماد اٹھ نہیں جائے گا؟ کیا وہ اسے ظلم سمجھتے ہوئے خود ظلم پر آمادہ نہیں ہوجائیں گے؟ کیا اس طرح یہ سوچ پروان نہیں چڑھے گی کہ کسی کی جان لے کر اگر پکڑے بھی گئے تو نتیجہ بہرحال موت کی صورت میں نہیں نکلے گا؟ اور پھر ہمارے جاگیردارانہ اور قبائلی روایات کے حامل معاشرے میں سزائے موت کا خاتمہ انتقام کے رواج کو فروغ نہیں دے گا؟ سب سے بڑھ کر یہ کہ درندہ صفت قاتلوں کو پھانسی پر جھولتا دیکھ کر ان کی ذہنیت کے حامل افراد کو عبرت کا جو درس مل سکتا ہے وہ کوئی نصیحت اور وعظ نہیں دے سکتا۔