ٹرانسفارمرز سے آئل چُرانے والے کینیا کے لیے دردِ سر بن گئے
چوری شدہ تیل اشیائے خورونوش کی تیاری میں استعمال ہونے لگا
پاکستان میں بجلی کی لوڈشیڈنگ معمول کی بات ہے۔ دن اور رات میں کئی کئی بار شہریوں کو بجلی کی عارضی جدائی برداشت کرنی پڑتی ہے۔
بجلی کی فراہمی میں تعطل پیدا ہونے پر پاکستانیوں کے ذہنوں میں یہی بات آتی ہے کہ بجلی فراہم کرنے والی کمپنی کی جانب سے سپلائی میں تعطل آیا ہے۔ مگر کینیا میں صورت حال کچھ مختلف ہے۔ وہاں جب کسی علاقے میں بجلی کی فراہمی منقطع ہوتی ہے تو لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ آج پھر کسی نے ' کام ' دکھا دیا ہے۔ جب وہ اپنے علاقے کو بجلی فراہم کرنے والے ٹرانسفارمر کے پاس جاتے ہیں تو حسب توقع وہ کھمبے سے نیچے گرا ہوا ہوتا ہے اور آس پاس تیل بکھرا ہوتا ہے!
قصہ دراصل یہ ہے کہ کینیا میں ٹرانسفارمر چوروں کا نشانہ بن رہے ہیں، مگر چور پورا ٹرانسفارمر لے جانے کے بجائے اس کے اندر موجود تیل نکالنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں کیوں کہ ٹرانسفارمر کا آئل، کوکنگ آئل کے تیل پر استعمال ہوتا ہے! چور تیل نکال کر فرنچ فرائز اور تلی ہوئی مچھلی بیچنے والوں کو فروخت کرتے ہیں۔ پانچ لیٹر آئل 60 امریکی ڈالر کے مساوی رقم میں فروخت ہوتا ہے۔ صارفین کا کہنا ہے کہ دیکھنے اور استعمال میں یہ کوکنگ آئل جیسا ہی ہوتا ہے مگر اس سے زیادہ چلتا ہے۔
ٹرانسفارمرز سے تیل چُرانے والے عوام کو ذہنی اذیت اور مالی نقصان سے دوچار کرنے کے علاوہ قومی الیکٹرک کمپنی '' کینیا پاور'' کو بھی بھاری نقصان پہنچا رہے ہیں۔ 2012ء میں کمپنی کو ٹرانسفارمرز کی تبدیلیوں پر 40 لاکھ ڈالر خرچ کرنے پڑے تھے۔ کینیا پاور کے مطابق یہ رقم کمپنی کے سالانہ منافع کے سات فی صد کے برابر ہے۔
ٹرانسفارمرز کی تباہی اور تیل چوری کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کا سبب یہ ہے کہ اس تیل میں تلی ہوئی کاساوا ( پودا ) کی جڑیں، آلو کی چپس اور مچھلی بے حد مزیدار ہوتی ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ تیل صحت کے لیے بے حد خطرناک ہے مگر چوروں اور دکان داروں کے ساتھ ساتھ عام لوگوں نے بھی اس حقیقت کو نظرانداز کر رکھا ہے، اور وہ مضر صحت تیل میں تلی ہوئی اشیاء شوق سے کھاتے ہیں۔ اشیائے خورونوش کے علاوہ یہ تیل جوڑوں کے درد سے نجات، زخموں کے لیے بہ طور مرہم اور کاسمیٹکس کی تیاری میں بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ اسی لیے اس کی مانگ بڑھ رہی ہے، نتیجتاً ٹرانسفارمرز کی تباہی کے واقعات میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔
تیل کے علاوہ چور ٹرانسفارمر میں سے تانبے کے تار بھی نکال لیتے ہیں جنھیں بلیک مارکیٹ میں فروخت کردیا جاتا ہے۔
کینیا میں صرف 35 فی صد عوام کوبجلی کی سہولت میسر ہے۔ کینیا پاور پانچ سال کے دوران ملک کی 70 فی صد آبادی کو بجلی فراہم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے مگر ٹرانسفارمر سے تیل چُرانے والے اس منصوبے کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن گئے ہیں۔ کینیا کی حکومت تیل چوروںکے خلاف کارروائی کررہی ہے اور اسے کسی حد تک کام یابی بھی حاصل ہوئی ہے۔
اس کا اندازہ تیل چوری کی وارداتوں میں کمی سے ہوتا ہے۔ 2011ء میں 898 ٹرانسفارمر چوروں کا نشانہ بنے تھے جب کہ 2013ء میں ان واقعات کی تعداد گھٹ کر 535 ہوگئی تھی۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ 2013ء میں حکومت نے ٹرانسفارمر تباہ کرنے کو سنگین جُرم قرار دیتے ہوئے اس کے مرتکب کے لیے کم از کم دس برس کی سزا مقرر کی تھی۔
مزید اقدامات کے طور پر کینیا کی حکومت ٹرانسفارمرز سے چوری شدہ تیل کے مضر صحت ہونے کے حوالے سے عوامی آگہی مہم چلانے کی بھی تیاریاں کررہی ہے۔ اس تیل میں پولی کلورینیٹڈ بائی فینائل( PCB) نامی زہریلا مرکب موجود ہوتا ہے۔ امریکا میں اس مرکب پر 1979ء پر پابندی لگادی گئی تھی۔ ایسے ٹرانفسارمرز تیار کرنے پر بھی غور کیا جارہا ہے جن میں تیل کا استعمال نہیں ہوتا۔
اس کے علاوہ کینیا پاور نے ٹرانسفارمرز کو چوروں کی پہنچ سے دور کرنے کے لیے انھیں ناقابل رسائی جگہوں، جیسے گھروں کے اندر اور کھمبوں پر زیادہ بلندی پر نصب کرنا شروع کردیا ہے مگر لوگ بالخصوص تاجر اور چھوٹے کاروبار چلانے والے ان اقدامات سے مطمئن نہیں ہیں۔ پرنٹنگ پریس اور اسی نوع کے چھوٹے کاروبار افریقا کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مگر بجلی کی لوڈشیڈنگ انھیں بری طرح متاثر کر رہی ہے۔
مہنگے ہونے کی وجہ سے ان کے لیے جنریٹر خریدنا بھی آسان نہیں۔ کینیا میں پرنٹنگ پریس کو چلانے کے لیے درکار طاقت کا جنریٹر کم از کم 300 ڈالر میں ملتا ہے۔ جنریٹر کی قیمت اور اس میں خرچ ہونے والے ایندھن کی لاگت کی وجہ سے چھوٹے کاروبار کرنے والے سرکاری بجلی پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں۔
الیکٹرک ٹرانسفارمرز سے تیل چوری کرنے کی ' وبا ' کینیا کی حدود سے نکل کر پورے مشرقی افریقا، نائجیریا اور جنوبی افریقا تک پھیل گئی ہے جو کہ یقیناً تشویش ناک بات ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق براعظم افریقا کی 70 فی صد آبادی آج بھی بجلی جیسی نعمت سے محروم ہے اور جنھیں یہ نعمت میسر ہے انھیں بھی سال میں اوسطاً 56 دن بجلی دست یاب نہیں ہوتی۔ اس کی وجوہات میں ٹرانسفارمر کی تباہی بھی شامل ہے۔
بجلی کی فراہمی میں تعطل پیدا ہونے پر پاکستانیوں کے ذہنوں میں یہی بات آتی ہے کہ بجلی فراہم کرنے والی کمپنی کی جانب سے سپلائی میں تعطل آیا ہے۔ مگر کینیا میں صورت حال کچھ مختلف ہے۔ وہاں جب کسی علاقے میں بجلی کی فراہمی منقطع ہوتی ہے تو لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ آج پھر کسی نے ' کام ' دکھا دیا ہے۔ جب وہ اپنے علاقے کو بجلی فراہم کرنے والے ٹرانسفارمر کے پاس جاتے ہیں تو حسب توقع وہ کھمبے سے نیچے گرا ہوا ہوتا ہے اور آس پاس تیل بکھرا ہوتا ہے!
قصہ دراصل یہ ہے کہ کینیا میں ٹرانسفارمر چوروں کا نشانہ بن رہے ہیں، مگر چور پورا ٹرانسفارمر لے جانے کے بجائے اس کے اندر موجود تیل نکالنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں کیوں کہ ٹرانسفارمر کا آئل، کوکنگ آئل کے تیل پر استعمال ہوتا ہے! چور تیل نکال کر فرنچ فرائز اور تلی ہوئی مچھلی بیچنے والوں کو فروخت کرتے ہیں۔ پانچ لیٹر آئل 60 امریکی ڈالر کے مساوی رقم میں فروخت ہوتا ہے۔ صارفین کا کہنا ہے کہ دیکھنے اور استعمال میں یہ کوکنگ آئل جیسا ہی ہوتا ہے مگر اس سے زیادہ چلتا ہے۔
ٹرانسفارمرز سے تیل چُرانے والے عوام کو ذہنی اذیت اور مالی نقصان سے دوچار کرنے کے علاوہ قومی الیکٹرک کمپنی '' کینیا پاور'' کو بھی بھاری نقصان پہنچا رہے ہیں۔ 2012ء میں کمپنی کو ٹرانسفارمرز کی تبدیلیوں پر 40 لاکھ ڈالر خرچ کرنے پڑے تھے۔ کینیا پاور کے مطابق یہ رقم کمپنی کے سالانہ منافع کے سات فی صد کے برابر ہے۔
ٹرانسفارمرز کی تباہی اور تیل چوری کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کا سبب یہ ہے کہ اس تیل میں تلی ہوئی کاساوا ( پودا ) کی جڑیں، آلو کی چپس اور مچھلی بے حد مزیدار ہوتی ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ تیل صحت کے لیے بے حد خطرناک ہے مگر چوروں اور دکان داروں کے ساتھ ساتھ عام لوگوں نے بھی اس حقیقت کو نظرانداز کر رکھا ہے، اور وہ مضر صحت تیل میں تلی ہوئی اشیاء شوق سے کھاتے ہیں۔ اشیائے خورونوش کے علاوہ یہ تیل جوڑوں کے درد سے نجات، زخموں کے لیے بہ طور مرہم اور کاسمیٹکس کی تیاری میں بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ اسی لیے اس کی مانگ بڑھ رہی ہے، نتیجتاً ٹرانسفارمرز کی تباہی کے واقعات میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔
تیل کے علاوہ چور ٹرانسفارمر میں سے تانبے کے تار بھی نکال لیتے ہیں جنھیں بلیک مارکیٹ میں فروخت کردیا جاتا ہے۔
کینیا میں صرف 35 فی صد عوام کوبجلی کی سہولت میسر ہے۔ کینیا پاور پانچ سال کے دوران ملک کی 70 فی صد آبادی کو بجلی فراہم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے مگر ٹرانسفارمر سے تیل چُرانے والے اس منصوبے کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن گئے ہیں۔ کینیا کی حکومت تیل چوروںکے خلاف کارروائی کررہی ہے اور اسے کسی حد تک کام یابی بھی حاصل ہوئی ہے۔
اس کا اندازہ تیل چوری کی وارداتوں میں کمی سے ہوتا ہے۔ 2011ء میں 898 ٹرانسفارمر چوروں کا نشانہ بنے تھے جب کہ 2013ء میں ان واقعات کی تعداد گھٹ کر 535 ہوگئی تھی۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ 2013ء میں حکومت نے ٹرانسفارمر تباہ کرنے کو سنگین جُرم قرار دیتے ہوئے اس کے مرتکب کے لیے کم از کم دس برس کی سزا مقرر کی تھی۔
مزید اقدامات کے طور پر کینیا کی حکومت ٹرانسفارمرز سے چوری شدہ تیل کے مضر صحت ہونے کے حوالے سے عوامی آگہی مہم چلانے کی بھی تیاریاں کررہی ہے۔ اس تیل میں پولی کلورینیٹڈ بائی فینائل( PCB) نامی زہریلا مرکب موجود ہوتا ہے۔ امریکا میں اس مرکب پر 1979ء پر پابندی لگادی گئی تھی۔ ایسے ٹرانفسارمرز تیار کرنے پر بھی غور کیا جارہا ہے جن میں تیل کا استعمال نہیں ہوتا۔
اس کے علاوہ کینیا پاور نے ٹرانسفارمرز کو چوروں کی پہنچ سے دور کرنے کے لیے انھیں ناقابل رسائی جگہوں، جیسے گھروں کے اندر اور کھمبوں پر زیادہ بلندی پر نصب کرنا شروع کردیا ہے مگر لوگ بالخصوص تاجر اور چھوٹے کاروبار چلانے والے ان اقدامات سے مطمئن نہیں ہیں۔ پرنٹنگ پریس اور اسی نوع کے چھوٹے کاروبار افریقا کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مگر بجلی کی لوڈشیڈنگ انھیں بری طرح متاثر کر رہی ہے۔
مہنگے ہونے کی وجہ سے ان کے لیے جنریٹر خریدنا بھی آسان نہیں۔ کینیا میں پرنٹنگ پریس کو چلانے کے لیے درکار طاقت کا جنریٹر کم از کم 300 ڈالر میں ملتا ہے۔ جنریٹر کی قیمت اور اس میں خرچ ہونے والے ایندھن کی لاگت کی وجہ سے چھوٹے کاروبار کرنے والے سرکاری بجلی پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں۔
الیکٹرک ٹرانسفارمرز سے تیل چوری کرنے کی ' وبا ' کینیا کی حدود سے نکل کر پورے مشرقی افریقا، نائجیریا اور جنوبی افریقا تک پھیل گئی ہے جو کہ یقیناً تشویش ناک بات ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق براعظم افریقا کی 70 فی صد آبادی آج بھی بجلی جیسی نعمت سے محروم ہے اور جنھیں یہ نعمت میسر ہے انھیں بھی سال میں اوسطاً 56 دن بجلی دست یاب نہیں ہوتی۔ اس کی وجوہات میں ٹرانسفارمر کی تباہی بھی شامل ہے۔