حیاتِ جاودانی پانے کی خواہش

نیوروسائنٹسٹ اپنے دماغ کو کمپیوٹر میں اپ لوڈ کرنے پر کمربستہ


غ۔ع January 06, 2015
نیوروسائنٹسٹ اپنے دماغ کو کمپیوٹر میں اپ لوڈ کرنے پر کمربستہ۔ فوٹو: فائل

KARACHI: کچھ عرصہ قبل ایک سائنس فکشن ناول پڑھنے کا اتفاق ہوا جس کا مرکزی کردار ایک کمپیوٹر انجنیئر ہوتا ہے۔ وہ کمپیوٹر کے ذریعے حیات جاودانی پانے کا خواہش مند ہے۔

پیہم جدوجہد کے بالآخر وہ اپنے دماغ، اپنی سوچ کو کمپیوٹر میں منتقل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ اس کی طبعی موت واقعی ہوجاتی ہے مگر وہ کمپیوٹر سوفٹ ویئر کی صورت میں زندہ رہتا ہے، اور اسکرین پر ایک شبیہہ کی صورت میں دکھائی دیتا ہے۔

یہ ناول پڑھ کر ہم بے اختیار مسکرا دیے تھے کہ ایسا تو صرف قصے کہانیوں ہی میں ہوسکتا ہے۔ مگر چند روز قبل یہ خبر پڑھ کر بے حد حیرانی ہوئی کہ ایک ڈچ نیوروسائنٹسٹ اور نیورو انجنیئر نے ناول میں پیش کردہ تصور کو حقیقت میں بدلنے پر کمر کس لی ہے۔ کمپیوٹیشنل نیورو سائنس میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھنے والے رینڈل کوئنے نے ایسا نظام تیار کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا ہے جس کی مدد سے وہ بالکل ناول کے کردار کی طرح اپنا دماغ کمپیوٹر میں منتقل کرنے کی کوشش کرے گا۔

یورپ کی تیسری بڑی ریسرچ آرگنائزیشن میں تین سال تک شعبہ نیوروانجنیئرنگ کے ڈائریکٹر رہنے والے سائنس داں کا کہنا ہے کہ اس منصوبے میں SIM ( Substrate-Independent Mind) کو کلیدی اہمیت حاصل ہوگی۔ SIM، مصنوعی ذہانت یا آرٹیفیشل انٹیلی جنس ہی کی شکل ہے مگر اس سے مراد کمپیوٹر پر ڈاؤن لوڈ کیا ہوا مکمل انسانی دماغ ہے۔ رینڈل کو امید ہے کہ وہ انسانی دماغ کی نقل، میکانکی نظام کی صورت میں تیار کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔

دماغ کے افعال کے مطالعے میں مہارت رکھنے والے سائنس داں اس بات پر کامل یقین رکھتے ہیں کہ انسانی دماغ باقاعدہ ایک مشینری یا میکانکی نظام ہے جس میں تمام حسابی عمل انجام پاتے ہیں، اور ان پھر ان کے نتائج انسانی افعال کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔ رینڈل کا کہنا ہے اگر آپ یہ جاننے میں کامیاب ہوجائیں کہ دماغ کیسے کام کرتا ہے تو پھر اس کا متبادل بھی تیار کرسکتے ہیں۔



گذشتہ دنوں سان فرانسسکو میں ایک کانفرنس سے خطاب کے دوران رینڈل نے کہا کہ دماغ کے ایک حصے کی نقل تیار کرنے کا تصور بہت اچھی طرح سمجھ لیا گیا ہے اور اس پر کام بھی جاری ہے، تو پھر پورے دماغ کی نقل کیوں نہ تیار کی جائے؟ اور پھر اسے کمپیوٹر میں کیوں نہ اپ لوڈ کردیا جائے تاکہ ہم کمپیوٹر کی طرح زیادہ سے زیادہ ڈیٹا پرو سیس کرسکیں اور اسے محفوظ کرسکیں، اور بالکل کمپوٹر ہی کے مانند اپنے خیالات اور اپنی سوچ کو فولڈرز میں محفوظ کرسکیں جن تک کہیں سے بھی رسائی حاصل کی جاسکتی ہو؟

انسانی دماغ 85 ارب انفرادی نیورونز پر مشتمل ہوتا ہے۔ ہر نیورون خلوی تاروں ( axons اور dendrites ) کے ذریعے دس ہزار کے لگ بھگ نیورونز سے جُڑا ہوتا ہے۔ ہر بار جب ایک نیورون برانگیختہ ہوتا ہے تو اس کے axon سے برقی کیمیائی اشارات یا سگنل نکل کر دوسرے نیورون کے dendrite میں داخل ہوتے ہیں۔ ان اشارات میں معلومات چھپی ہوتی ہیں جو دماغ تک پہنچتی ہیں۔ دماغ ان معلومات کو پروسیس کرتا ہے اور پھر انھیں عملی شکل دیتا ہے۔ یعنی متعلقہ انسانی اعضا کو ان کے مطابق عمل کرنے کی ہدایت جاری کرتا ہے۔

رینڈل کے مطابق اگر یہی افعال ایک مختلف آپریٹنگ سسٹم میں اس طرح انجام پاسکیں کہ ان کے نتائج وہی ہوں جو کہ انسانی دماغ میں حاصل ہوتے ہیں تو پھر دماغ substrate-independent ہوجاتا ہے یعنی اسے کسی دوسرے نظام میں منتقل کیا جاسکتا ہے۔ نیوروسائنٹسٹ کے مطابق وہ SIM کواس درجے تک لانے پر کام کررہا ہے کہ انسانی سوچ اور خیالات اس کے ذریعے کمپیوٹر میں منتقل ہوسکیں۔ یوں زندگی سے ناتا ٹوٹ جانے کے بعد انسان کمپیوٹر میں زندہ رہ سکے گا۔ رینڈل کا دعویٰ ہے کہ کمپیوٹر میں اپ لوڈ کیا ہوا دماغ اصل دماغ ہی کی طرح کام کرے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں