ونی اورسوارہ کیلیے جرگے نہیں ہونے چاہئیں سپریم کورٹ
بڑے لوگ خواتین کوملکیت کے بجائے انسان سمجھیں تو خرابیاں دورہوجائیں گی.
سپریم کورٹ نے جنسی زیادتی کا شکار افرادکو تحفظ فراہم کرنے اور زیادتی کرنیوالوں کو سزا دلانے کیلیے تجاویزکی درخواست کو منظورکر لیا ہے۔
درخواست گزار سلمان اکرم راجا نے چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ کو بتایا کہ اگر متاثرہ افرادکا فوری طور پر دفعہ 164کا بیان لیا جائے اور ڈی این اے کو محفوظ کر لیا جائے توکوئی بھی شخص سزا سے نہیں بچ سکے گا۔ انھوں نے کہا کہ جنسی زیادتی کے مقدمات کا ٹرائل ان کیمرہ ہونا چاہیے ۔چیف جسٹس نے کہا کہ اس کے منفی پہلو زیادہ ہیں جس معاشرے میں ہم رہ رہے ہیں اس میںکسی کو نہیں بخشا جاتا بہت عزت دار لوگوںکی پگڑیاں اچھالی جاتی ہیں اس لیے اس کا انحصار کیس پر ہونا چاہیے اور اگر ان کیمرہ ٹرائل ضروری ہو تو متعلقہ جج کو درخواست دی جاسکتی ہے۔چاروں صوبوں کی طرف سے تجاویزکی مخالفت نہیںکی گئی جس پر عدالت نے درخواست منظورکر لی۔
دریں اثنا عدالت نے جرگے اور پنچایت کیخلاف دائر درخواستوں کی سماعت 2 ہفتے کیلیے ملتوی کر دی اور وزارت انسانی حقوق کو ہدایت کی ہے کہ اس دوران خواتین کے حقوق کیلیے قائم کمیشن کی چیئر پرسن کی تقرری کی جائے۔ جسٹس جوادایس خواجہ نے کہا کہ صرف ان جرگوں پر پابندی ہونی چاہیے جو انسانی حقوق سے متصادم ہوں اور قانون اجازت نہ دے، چیف جسٹس نے کہا ونی اور سوارہ کے جرگے نہیں ہونے چاہئیں باقی ہمارے معاشرے میں قبائلی تنازعات کو جرگے کے ذریعے حل کرنے کی ایک روایت ہے جو ایک موثر فورم ہے۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا بڑے لوگ خواتین کو ملکیت کے بجائے انسان سمجھیں تو بہت ساری خرابیاں دور ہو جائیں گی۔
درخواست گزار سلمان اکرم راجا نے چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ کو بتایا کہ اگر متاثرہ افرادکا فوری طور پر دفعہ 164کا بیان لیا جائے اور ڈی این اے کو محفوظ کر لیا جائے توکوئی بھی شخص سزا سے نہیں بچ سکے گا۔ انھوں نے کہا کہ جنسی زیادتی کے مقدمات کا ٹرائل ان کیمرہ ہونا چاہیے ۔چیف جسٹس نے کہا کہ اس کے منفی پہلو زیادہ ہیں جس معاشرے میں ہم رہ رہے ہیں اس میںکسی کو نہیں بخشا جاتا بہت عزت دار لوگوںکی پگڑیاں اچھالی جاتی ہیں اس لیے اس کا انحصار کیس پر ہونا چاہیے اور اگر ان کیمرہ ٹرائل ضروری ہو تو متعلقہ جج کو درخواست دی جاسکتی ہے۔چاروں صوبوں کی طرف سے تجاویزکی مخالفت نہیںکی گئی جس پر عدالت نے درخواست منظورکر لی۔
دریں اثنا عدالت نے جرگے اور پنچایت کیخلاف دائر درخواستوں کی سماعت 2 ہفتے کیلیے ملتوی کر دی اور وزارت انسانی حقوق کو ہدایت کی ہے کہ اس دوران خواتین کے حقوق کیلیے قائم کمیشن کی چیئر پرسن کی تقرری کی جائے۔ جسٹس جوادایس خواجہ نے کہا کہ صرف ان جرگوں پر پابندی ہونی چاہیے جو انسانی حقوق سے متصادم ہوں اور قانون اجازت نہ دے، چیف جسٹس نے کہا ونی اور سوارہ کے جرگے نہیں ہونے چاہئیں باقی ہمارے معاشرے میں قبائلی تنازعات کو جرگے کے ذریعے حل کرنے کی ایک روایت ہے جو ایک موثر فورم ہے۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا بڑے لوگ خواتین کو ملکیت کے بجائے انسان سمجھیں تو بہت ساری خرابیاں دور ہو جائیں گی۔