پاکستان ایک نظر میں قدر جو بعد میں ہوئی

قاضی صاحب کی زندگی میں متضاد رویہ نہیں ملتا ہے۔ وہ ایک ہی رویے کے حامل تھے جو حلیم اور بردباری پر مشتمل تھا۔


قاضی صاحب سے بہت سے لوگوں نے اختلاف کیا لیکن وہ بھی عجیب شخص تھا کبھی غصہ نہ ہوئے۔ میری آپ سے بھی گزارش ہے کہ اپنے دلوں میں گنجائش پیدا کریں۔ لوگوں کے نظریات سے اختلاف ضرور کریں مگر انسان سے نہیں۔ فوٹو: فائل

دنیا میں مختلف ذہن کے لوگ بستے ہیں۔ ان کا ذہنی ڈھانچہ کچھ اس انداز سے ترتیب پاتا ہے۔ ان میں ایک وہ قسم ہے جو اشیاء یعنی مادی چیزوں پر تنقید کرتے رہتے ہیں۔ کپڑے، برتن۔۔۔ جیسی چھوٹی بڑی ہر چیز ان کے زد میں آتی ہیں۔ دوسری قسم کے لوگ شخصیات پر تنقید کرتے ہیں۔۔۔فلاں شخص تو ایسا ہے اور افلاں شخص تو ویسا ہے۔ جبکہ تیسری قسم ان لوگوں کی ہے جو تنقید نظریات پر کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک مادی چیزیں اور شخصیت کچھ نہیں ہوتی، اصل چیز لوگوں یا قوموں کے نظریات اوفکار ہوتے ہیں جو انہیں ممیز کرتے ہیں۔ ان میں پہلی قسم کے لوگ ذہنی طور پر پست، دوسرے قسم کے لوگ اس سے تھوڑے اوپر اور تیسری قسم اعلا ذہن کے مالک ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں یہ تیسری اور آخری قسم بالکل ناپید ہوتی چلی جارہی ہے۔

پاکستان میں متعدد لوگ ایسے ہیں اور تھے جن سے آپ کا مختلف موضوعات پر اختلاف ہوسکتا ہے لیکن ان کی جدوجہد ان کی مساعی اور ان کے کردار بے داغ اور شاندار رہے ہیں۔ ان ہی شخصیات میں قاضی حسین احمد بھی ہیں۔ قاضی حسین احمد صاحب 6جنوری 2013 کو خالق حقیقی سے جاملے۔ قاضی صاحب سے بہت سے لوگوں نے اختلاف کیا۔ ان کے زندہ ہوتے ان سے کئی معاملات پر سختی کے ساتھ بحث بھی کی لیکن وہ بھی عجیب شخص تھا کبھی اور سیاست دانوں کی طرح غصہ نہ ہوئے۔ کسی سے کوئی ٹکرار نہیں کی۔

میں نے ان کے متعدد ٹی وی ٹاک شو دیکھے۔ اکثر اوقات مجھے لگتا تھا کہ قاضی صاحب غصے میں آکر کچھ کہہ دیں گے اور ہم جیسے لکھنے والوں کو ایک دلچسپ موضوع بھی ہاتھ آجائے گا۔ لیکن اس معاملے میں قاضی صاحب نے ہمیں ہمیشہ مایوس کیا۔

آپ کو ایک بہت مزے کی بات بتاتا ہوں۔ پاکستان کی سیاست کا ایک المیہ یہ ہے کہ یہاں پر سیاست میں آنے والا کتنا ہی پاک پاز، نیک سیرت، اجلے کردار کا مالک ہی کیوں نہ ہو۔۔۔وہ سیاست میں آنے کے بعد پاک و صاف نہیں رہتا۔ اس کی پچھلی اور آنے والی نسلوں کا کھوج لگا کر اس پر دشنام طرازی کے ایسے تیر چلائے جاتے ہیں کہ وہ بیچارا اس کارزار میں اترنا ہی غلاظت سمجھتا ہے۔ خیر وہ مزے کی بات تو رہ ہی گئی۔۔۔ قاضی صاحب کے متعلق ہم بھی اتنا ہی جانتے تھے جتنا میڈیا بتاتا تھا۔ ان کے انتقال کے بعد جب میڈیا نے ان کی زندگی کے مختلف گوشے وا کیے تو تب مجھ سمیت پوری قوم کو اندازہ ہوا کہ ہم کتنی بڑی شخصیت سے محروم ہوگئے ہیں۔

زندگی متضاد رویوں کا نام ہے۔ دنیا میں تقریباً ہر دوسرا بڑا نام اسی متضاد رویے کا نام ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو آپ لاکھ گالیاں دیں لیکن اس کی چند چیزیں ایسی ہے جو پاکستان کی عوام کے لیے نعمت غیر مترقبہ شمار ہوتی ہیں۔ لیکن قاضی صاحب کی زندگی میں متضاد رویہ نہیں ملتا ہے۔ وہ ایک ہی رویے کے حامل تھے جو حلیم اور بردباری پر مشتمل تھا۔ قاضی صاحب کے بارے میں عمران خان کہتے ہیں:''ہمارے ملک میں سیاست دانوں کی قیمتیں لگائی جاتی ہیں کہ کون کتنے پر راضی ہوگا لیکن میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ قاضی حسین احمد ایسے ساست دان تھے جن کی کوئی قیمت نہیں تھی نہ ہی کوئی قاضی صاحب کو خرید سکا۔''

قاضی صاحب ہر وقت جدوجہد کرنے کا استعارہ تھے۔ جماعت اسلامی کی امارت سے فراغت کے بعد بھی وہ نہایت دل جمعی کے ساتھ شہر شہر پروگرامات کے لیے جایا کرتے تھے۔ حالانکہ جماعت کی امارت سے ان کی علیحدگی کی بنیادی وجہ ان کی صحت ہی تھی۔ وہ جہاں دینی جماعتوں کے اتحاد کے لیے کوشاں تھے وہیں وہ فرقہ ورانہ سرگرمیوں کے بھی خلاف تھے۔ انہیں مقاصد کے لیے ملی یکجہتی کونسل بنائی گئی تاکہ ملک میں موجود فرقہ ورانہ فسادات کو ختم کیا جاسکے۔ اس سے خاطر خواہ فائدہ تو ہوا لیکن ملک دشمن عناصر اب بھی نہیں چاہتے کہ یہاں شیعہ، سنی ایک گھاٹ پر پانی پئیں۔

میری آپ سے بھی گزارش ہے کہ اپنے دلوں میں گنجائش پیدا کریں۔ لوگوں کے نظریات سے اختلاف کریں ۔ مادی چیزیں اور شخصیت بدلتی رہتی ہیں۔ جب دلوں میں گنجائش پیدا ہوگی تو دیکھیے کہ آپ کو معاشرے میں ہر فرد چاہے وہ کسی مذہب، مسلک یا زبان کا ہو آپ کو اپنا بھائی نظر آئے گا۔ قاضی صاحب کے کام کو اگر آگے نہیں بڑھایا گیا تو خس کم جہاں پاک۔۔۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔