بات کچھ اِدھر اُدھر کی مادھو بائی کنار واقعی مبارکباد کی مستحق ہیں

رائے گڑھ کی عوام نے سماجی تعصبات کی دھجیاں اڑا کر مادھوکنار کوجمہوری طریقے سے میئر منتخب کیا ہے۔


نور پامیری January 06, 2015
رائے گڑھ کی عوام نے سماجی تعصبات کی دھجیاں اڑا کر مادھوکینار کوجمہوری طریقے سے میئر منتخب کیا ہے۔

بھارتی ریاست چھتیس گڑھ کے میونسپل کارپوریشن رائے گڑھ میں ہزاروں افراد نے ووٹ کے زریعے 35 سالہ نریش چوہان عرف مادھو بائی کنار کو اپنے علاقے کا میئر منتخب کر کے تاریخ رقم کر دی۔ ان کا مقابلہ حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے امیدوار مہاویر گروجی، اور اپوزیشن جماعت کانگریس کے امیدوار جتورام منہار سے تھا۔ مادھو نے دونوں مخالفین کو انتخابی دنگل میں چت کرتے ہوئے دوئم آنے والے بی جے پی کے امیدوار سے ساڑھے چار ہزار کے لگ بھگ زیادہ ووٹ حاصل کئے۔

"میں نے اپنی انتخابی مہم پر صرف 70 ہزار روپے خرچ کئے ہیں۔ مجھے انتخابات میں حصہ لیںے کا حوصلہ لوگوں کی محبت اور مجھ پر اعتماد دیکھ کر ہوا، اور آج میں جیت گئی ہوں".

ان خیالات کا اظہار جیتنے کے بعد بھارت کی تیسری منتخب خواجہ سرا مئیر نے میڈیا کے سامنے کیا، انہوں نے کہا کہ وہ بطور میئر اپنے فرائض کی انجام دہی بھرپور طریقے سے کریں گی۔ یاد رہے کہ مادھو انتخابات میں آزاد امیدوار کی حیثیت میں حصہ لے رہی تھی۔ ان کا تعلق دلت ذات سے ہے، جسے ہندو سماج میں کمتر تصور کیا جاتا ہے۔ مادھو سے پہلے ہندوستان کے مختلف حصوں سے دو خواجہ سراء میئر کی انتخابات جیت چکی ہیں، لیکن ان دونوں کو عدالتوں نے عہدے سے ہٹا دیا کیونکہ ان کا جرم یہ تھا کہ وہ خواتین کے لئے مختص نشستوں پر منتخب ہوئی تھیں۔

اگرچہ کانگریس کے مقامی رہنماؤں نے مادھو کی جیت کو درحقیقت بی جے پی کی ہار قرار دیتے ہوئے ان کی فتح پر سوالیہ لگانے کی کوشش کی ہے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس جیت نے ہندوستان میں موجود لاکھوں خواجہ سراؤں کو ایک نئی امید دی ہے۔ مادھو کو بظاہر عدالت سے بھی کوئی فوری خطرہ نہیں ہے کیونکہ ان کے حلقے میں میئر کی نشست کسی خاص جنس کے لئے مخصوص نہیں کی گئی تھی۔ ایسے میں امید کی جارہی ہے کہ انہیں بطور قائد اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا بھرپور موقع ملے گا۔

ہندوستان اور پاکستان سمیت دنیا مختلف ممالک میں خواجہ سراؤں کو انتہائی سخت سماجی اور معاشی حالات کا سامنا رہتا ہے۔ پاکستان میں توسرکاری سطح پر انہیں ماضی قریب تک علیحدہ جنس کے طور پر تسلیم ہی نہیں کیا جاتا تھا۔ تاہم 2012 میں ایک طویل قانونی جنگ کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان نے سرکاری کاغذات میں مرد اور عورت کے ساتھ ساتھ خواجہ سراؤں کے لئے بھی ایک خانہ مخصوص کردیا تاکہ وہ اپنی شناخت کا اظہار کرسکیں۔

معاشی تنگدستی کی وجہ سے خواجہ سراؤں کو ناچ گا کر ضروریات زندگی پوری کرنا پڑتی ہے، جبکہ بہت سارے خواجہ سرا سڑکوں اور چوراہوں پر بھیک مانگتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔ مادھو کنار بھی میئر بننے سے پہلے ریل گاڑیوں میں گانا گا کر اور ناچ کر رزق کما رہی تھی۔ بہت سارے خواجہ سرا جسم فروشی پر بھی مجبور ہیں جبکہ اکثر و بیشتر قماش افراد کے ہاتھوں انہیں جنسی استحصال کا نشانہ بھی بننا پڑتا ہے۔

سچی بات یہ ہے کہ ہمارے معاشروں میں خواجہ سراؤں کو انسانوں سے الگ مخلوق تصور کیا جاتا ہے، انہیں مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے اور ان کی تضحیک کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا جاتا ہے، سڑکوں پر انہیں دیکھ کر آوازیں کسی جاتی ہیں اور بعض منچلے ان کے ساتھ نازیبا حرکات کرتے بھی نظر آتے ہیں۔ غرض یہ کہ مختلف طریقوں سے انہیں جنسیت اور سماجی و معاشی کمزوری کی بنیاد پر معاشی، جسمانی اور نفسیاتی تشدد کا شکار بنایا جاتا ہے۔ ایک اورغور طلب معاملہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی واضح ہدایت کے باوجود خواجہ سراؤں کوسرکاری ملازمتوں سے محروم رکھا جا رہا ہے۔

میرے نزدیک سب سے خوفناک عمل یہ ہے کہ بہت سارے افراد خواجہ سراؤں کے ساتھ اس سلوک کو برا ہی نہیں سمجھتے ہیں، بلکہ ایسی حرکتیں کرنے کے بعد تنقید کو ہنسی مذاق میں ٹال دیتے ہیں۔ شاید بہت سارے لوگوں کو آج کے دور میں بھی ایسا لگتا ہے کہ خواجہ سراؤں کے ساتھ اسی طرح کا برا اور امتیازی سلوک رکھنا چاہئے۔ اپنے معاشرے کو بہتر اور رہنے کے قابل بنانے کے لئے ہمیں ہر زی نفس کی عزت اور احترام کرنے کا شعور ہونا بے حد ضروری ہے۔ کمزور کا مذاق اڑانے اور طاقتوروں سے خوفزدہ رہنے والے معاشرے اخلاقی پستی اور گراوٹ کا شکارہوتے ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ بھارت میں ایک خواجہ سرا کے انتخابات جیتنے سے شاید سب خواجہ سراؤں کی زندگی پر زیادہ فرق نہ پڑے، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ رائے گڑھ کی عوام نے سماجی تعصبات کی دھجیاں اڑا کر مادھوکنار کوجمہوری طریقے سے میئر منتخب کیا ہے۔ اس تاریخی کامیابی پر مادھو بائی کنار تو مبارکباد کی مستحق ہیں ہی لیکن رائے گڑھ کے ووٹرز کی تعریف نہ کرنا بھی زیادتی کے مترادف ہوگا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں