KARACHI:
روز مرہ کی صبح سے ہٹ کر اس دن طلوع آفتاب میں عجیب سی کشش تھی۔ سورج کی روشنی بکھیرتی کرنوں میں ہر شے اجلی اور خوب صورت نظر آرہی تھی۔ چڑیاؤں کی چہچہاہٹ ایک نئے دن کے آغاز کا پتہ بتا رہی تھی۔ وہ تیزی سے اٹھا اور تیار ہونے لگا۔ دروازہ کھولتے ہوئے اس نے پیچھے مڑ کر ایک نظر اپنے گھر پر ڈالی اور ''خدا حافظ'' کہہ کر چل دیا۔
جانے پہچانے راستے آج اسے انجان محسوس ہورہے تھے۔ ہاں یہ وہی علاقہ وہی جگہ ہے جہاں وہ سالوں سے رہ رہا تھا، وہ اپنی کیفیت سے انجان اپنی اسکول کی جانب گامزن تھا۔ اس کے ذہن میں ٹیچر کی باتیں اور دوستوں کی شرارتیں گھوم رہی تھیں کہ یک دم اس کے چہرے کی مسکراہٹ غائب ہوگئی، اس کے قدم رک گئے اور ذہن میں شک و شبہات ابھرنے لگے۔
اس نے دیکھا کہ ایک لڑکا اسکول کی جانب غور سے دیکھتے ہوئے اندر داخل ہونے کے راستے تلاش کررہا ہے۔ نہ اس کے جسم پر اسکول کا یونیفارم ہے نہ ہاتھ میں کتابیں، بس ایک بڑی سے چادر اس کے چہرے اور جسم کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ دونوں کی نگاہیں آپس میں ٹکرائیں، اچانک اس کی چھٹی حس نے خطرے کی گھنٹی بجادی، وہ لڑکا اپنی چادر سنبھالے تیزی سے اسکول کی طرف بڑھنے لگا، لیکن اس سے پہلے کے وہ اسکول کے اندر داخل ہوتا اسے کسی نے جڑ لیا، اور زوردار دھماکے کے آواز سے خاموشی چھاگئی۔
اعتزاز حسن نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرلیا۔ اس نے اپنی زندگی کی بازی لگا کر ہزاروں معصوم بچوں کی زندگیاں بچالیں۔ اعتزاز نے جرات اور بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے حب الوطنی اور شجاعت کی عظیم مثال قائم کردی۔ اس سلسلے میں حکومت پاکستان نے اعتزاز کو ستارہ شجاعت، ہیرالڈ میگزین نے 2014 کی بہترین شخصیت اور انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کاؤنسل نےبہادری کے عالمی ایوارڈ سے نوازا۔
ہمارے عزم مسلسل کی تاب و تب دیکھو
سحر کی گود میں رنگ ِ شکست شپ دیکھو
بقونِ غیب سے پیدا ہوا ہے لشکر نو
لہو اگلنے لگے قاتلانِ شب دیکھو
اعتزاز تو اپنے حصے کی ذمہ داری نبھا گیا لیکن اس کے بعد کیا ہوا؟ الیکٹرونک، پرنٹ اور شوشل میڈیا پر اس کی تعریفوں کے پل باندھے گئے، سیاسی و مذہبی جماعتوں اور دیگر اداروں کی جانب سے اس کی قربانی کو سراہا گیا اور بس۔ کیا اعتزاز کی اتنی بڑی قربانی کے بعد دہشت گردی کے سانپ کو روکنے کی کوئی خاطر خواہ کوشش کی گئی؟ کیا کسی کو یہ خیال آیا کہ دشمن ہمارے مستقبل کے معماروں پر گھات لگائے بیٹھا ہے؟ میرے خیال میں نہیں، کسی کو بھی شاید اس بات کا خیال نہ آیا، اگر اعلی حکام ایک دفعہ بھی اس جانب توجہ دیتے تو آرمی پبلک اسکول پشاور میں کھیلی جانے والے خون کی ہولی کو روکا جاسکتا تھا۔
کیا ایک اعتزاز حسن کی قربانی کافی نہیں تھی جو قوم کو متحد ہونے اور حکمرانوں کی آنکھیں کھولنے کے لئے 150 کے قریب بچوں کو اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا پڑا؟ ہم حالت جنگ میں ہیں۔ یہ جملہ اب بچے بچے کی زبان پر موجود ہے۔ اب بہت ہوچکا ہے اگر اب بھی انتہا پسندی اور دہشتگردی کے ناسور کو نہ روکا گیا تو وہ وقت دور نہیں جب سانحہ پشاور کی طرح گلی گلی میں جنازے اٹھیں گے اور تب کوئی حکمت عملی کام نہیں آئے گئی۔ پاک فوج اور حکومت کے دہشتگردی کے خلاف تیزی سے بڑھتے قدموں نے مایوسی کے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی عوام کو ایک بار پھر امید دلا دی ہے کہ اب بہت ہوگیا، اس بار دہشت گردی کی لعنت کو جڑ سے اکھاڑے بغیر سکون کا سانس نہیں لیا جائے گا۔ پوری قوم شرپسند عناصر کے خلاف اس جنگ میں پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔
ہمیں اعتزاز حسن پر فخر ہے جس نے اپنے ایمان کی طاقت سے دشمن کے ناپاک وجود کو روک کر تاریخ کے اوراق پر عظیم مثال رقم کردی۔ آج اعتزاز حسن کی پہلی برسی کے موقع پر میں اس کے لئے چند اشعار عرض کرنا چاہتی ہوں؛
کلیاں روندیں
پھول بھی نوچے
تم نے دیے بجھائے ہیں
لیکن دیکھ لو بچے سارے
اسکول تو پھر بھی آئے ہیں!
اس اسکول میں اِن کا ساتھی
آج بھی پڑھنے آتا ہے
دل کی آنکھ سے دیکھو تو وہ
اب بھی اپنی سیٹ پہ بیٹھا
ہنستا ہے، مسکاتا ہے
اک دن اِس اسکول کی خاطر
اس نے جان گنوائی تھی
ننھے منے ہاتھوں اُس نے
شمعِ علم جلائی تھی
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔