جمعیت علما اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے 21ویں آئینی ترمیم اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل پراعتماد میں نہیں لیا گیا تاہم ہم فوجی عدالتوں کے قیام کے گناہ کے لیے تیار ہوگئے تھے لیکن حکومت نے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔
پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ حکومتی ٹیم ترامیم پر مذاکرات کے لئے حاضر ہوئی لیکن مذاکرات کے دوران ہی قومی اسمبلی میں بل پیش کردیا گا جو کہ حکومتی غیرسنجیدگی کا منہ بولتا ثبوت ہے جب کہ ہم نے تجویز دی تھی کہ فوجی عدالتوں سے متعلق سپریم کورٹ کا بھی کردار ہونا چاہئے لیکن ہماری جانب سے دی گئی کوئی بھی تجویز بل میں شامل نہیں کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ سانحہ پشاور کو مذہبی اکائیوں کے خلاف کیوں استعمال کیا جارہا ہے، آج پھر دہشتگردی اور مذہب کو جوڑنے کی کوشش کی جارہی ہے اور اس موڑ پر کھڑے ہوگئے ہیں کہ ملک کو سیکیولر بنانے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن بتا دینا چاہتے ہیں کہ یہ ملک بنگلادیش نہیں اور نہ ہی حسینہ واجد کی حکومت ہے کہ پاکستان کو سیکیولر ملک بنا دیا جائے۔
سربراہ جے یو آئی (ف) نے کہا کہ آئین میں ترمیم کے اس لب و لہجے سے قوم تقسیم ہوجائے گی، تمام مکاتب فکر، مذہبی و سیاسی جماعتیں اور تمام طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد دہشت گردی کے خلاف ایک ہی صف میں کھڑے ہیں، دہشت گردی مذہبی و غیر مذہبی میں تقسیم نہیں ہوتی, دہشت گردی کو جرم قرار دیا جائے اور سب یکجا ہوکر اس کے خلاف کھڑے ہوجائیں۔ انہوں نے کہا کہ 21 ویں ترمیم پر مشاورت کے لئے تمام مکاتب کے لوگوں کو بلائیں گے اور قومی اسمبلی سے پاس ہونے والے بل پر مشاورت کے بعد جامع ردعمل دیں گے۔