دہشت گردی کا مقابلہ ہم متحد ہیں یا منتشر
ملک میں عرصے سے جاری دہشتگردی کا فوری خاتمہ ہو اور اِن بے رحم دہشتگردوں کو ان کے انجام تک پہنچایا جائے۔
یہ ابھی چند دنوں ہی کی بات ہے کہ پشاور کے اندوہناک اور سفاکانہ واقعے کے بعد ملک کے ساری سیاسی و عسکری قیادت ایک میز پر جمع ہو کر اُس سے نمٹنے کے طریقوں پر سنجیدگی سے غور کرنے لگی تو اِسپیڈی ٹرائل کے لیے ملٹری کورٹس بنانے کی تجویز سامنے لائی گئی اور محتاط ذرایع کے مطابق یہ تجویز موجودہ آرمی چیف ہی کی جانب سے دی گئی جسے نظر انداز کرنا موجودہ حالات میں شاید کسی بھی سیاستداں کے لیے ممکن نہ تھا۔
وقت کا تقاضا بھی یہی تھا کہ ملک میں عرصے سے جاری دہشتگردی کا فوری خاتمہ ہو اور اِن بے رحم دہشتگردوں کو ان کے انجام تک پہنچایا جائے۔ لہٰذا تمام سیاسی جماعتوں نے فوجی عدالتوں کے بارے میں اپنے خدشات اور تحفظات کے باوجود اِن کے فوری قیام کے لیے رضامندی ظاہر کر دی۔سانحہ پشاور دہشتگردی کا کوئی چھوٹا موٹا واقعہ نہ تھا کہ ہم چند دنوں کے مذمتی بیانوں کے بعد اِسے بھول جاتے یا پھر اُس سے نمٹنے کے لیے ملک میں رائج اپنے نظامِ عدل ہی پر اکتفا کرتے جسے ہر کیس میں اپنی آئینی اور قانونی ضرورتوں اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے کرتے اتنا عرصہ بیت جاتا ہے کہ خوفناک سے خوفناک مجرم بھی معصوم اور بیگناہ لگنے لگتا ہے۔
مزید برآں عدالت اگر اِن مجرموں کو سزائے موت دے بھی دے تو اقوام متحدہ اور یورپین یونین اُن کی سزاؤں پر عملدرآمد میں رخنہ اندازی کرنے لگتی ہیں۔ ہماری مصیبت یہ ہے کہ ہم اپنی معیشت کو سہارا دینے کے لیے اِن ہی بین الاقوامی تنظیموں اور ا داروں کے محتاج رہتے ہیں۔ کبھی ہمیں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے قرضے لینے ہوتے ہیں یا کبھی اپنی مصنوعات کی ایکسپورٹ کے لیے امریکا اور یورپین یونین کی خوشامدیں کرنی ہوتی ہے لہٰذا جواب میں وہ جب ہم پر روک ٹوک اور قدغن لگاتے ہیں تو ہم بے بس اور لاچار ہو جاتے ہیں ہم میں اور ایک آزاد اور خودمختار ملک میں یہی فرق نمایاں ہے۔ امریکا او ر یورپین یونین کو سعودی عرب میں دی جانیوالی سزائے موت پر کبھی کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ وہاں اُنھیں آزادی نسواں کا بھی کوئی ملال او ر افسوس نہیں ہوتا۔ ہم اگر اپنی قوم کے قاتلوں کو موت کی سزا دیتے ہیں تو ہمیں سارے انسانی حقوق یاد دلائے جاتے ہیں۔
پھانسی کی سزا کو غیر اخلاقی اور غیر انسانی سزا قرار دیا جاتا ہے جب کہ وہاں سرِعام سر قلم کیے جانے پر کسی کی پیشانی پر شکن بھی نہیں پڑتے۔ خود امریکا اور یورپ کے کئی ممالک اپنے یہاں کسی دہشتگردی کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ڈرون حملوں کے ذریعے وہ اپنے مخالفوں اور دشمنوں کا ماورائے عدالت قتل بھی جائز اور درست قرار دیتے ہیں۔ نائن الیون کے بعد اُنھوں نے جسے چاہا پکڑ لیا، جسے چاہا گوانتانامو بے میں قید کر دیا اور جسے چاہا موت کی نیند سلا دیا۔ دہشتگردی کی عالمی جنگ کے تحت وہ کسی بھی ملک کے اندر گُھس کر عسکری کارروائی کر کے اپنے دشمنوں کے علاوہ کئی بیگناہوں کو بھی مار سکتے ہیں لیکن ہم اپنے ملک میں اپنے جانی دشمنوں کو بھی مار نہیں سکتے۔ اِس کے لیے بھی ہمیں اُن کی اجازت درکار ہوتی ہے۔
کتنا عجیب و غریب اور نرالا ہے اُن کا یہ نظامِ عدل جہاں انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اگر کسی کو سزائے موت دی جائے تو سراسر ظلم اور بے رحمی ہے لیکن اگر کسی فوجی کارروائی اور ڈرون حملوں کے ذریعے اُنھیں موت کی نیند سلا دیا جائے تو برحق اور جائز۔ اِسی طرح ہمارے یہاں بھی کچھ لوگ انسانی حقوق کے چیمپئن بن کر اِن پھانسیوں کے خلاف اپنا نقطہ نظر بلا کسی تردد اور ہچکچاہٹ کے میڈیا پر بیا ن کرتے رہتے ہیں۔ اُن کا ہدف دراصل سزاؤں کا اسلامی طریقہ کار ہوتا ہے۔ اُن کی نظر میں کسی کو کوڑے مارنا اور سرِ عام سر قلم کیے جانا سراسر ظلم، بے رحمانہ اور انسانیت کی توہین کے مترادف ہے۔
وہ ایک طرف ہمارے عدالتی نظام کو بُرا بھلا بھی کہتے ہیں اور دوسری طرف مجرموں کو جلد اپنے انجام تک پہنچانے کے طریقوں پر بھی عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں حکومت دہشتگردی کے خاتمے کے لیے کیا طریقہ کار اپنائے اِس کا جواب بھی اُن کے پاس نہیں ہوتا۔ ابھی سانحہ پشاور پر بلائی گئی قومی کانفرنس کو زیادہ دن بھی نہیں ہوئے اور اُس میں کیے گئے فیصلوں کی مخالفت شرو ع ہو گئی۔ ہر طرف سے آوازیں آنے لگی ہیں کہ فوجی عدالتیں اِس مسئلے کا حل نہیں۔ ہمارے آئین میں اِس کی کوئی گنجائش نہیں۔ ضروری آئینی ترمیم بھی قابل عمل تجویز نہیں جب کہ موجودہ عدالتی نظام پر بھی کسی کو اعتماد نہیں۔ کانفرنس میں شامل بہت سی جماعتیں جنہوں نے کانفرنس میں بیٹھ کر آرمی چیف کی تجویز کو وقت کی ضرورت قرار دیا تھا اب اپنے دیگر ارکان کے ذریعے فوجی عدالتوں کے قیام کی مخالفت شروع کر رکھی ہے۔
رفتہ رفتہ اُن کی اِس سوچ اور فکر کو مختلف طبقہ ہائے فکر کی جانب سے تقویت اور مقبولیت بھی ملنے لگی ہے اور اب ایسا لگتا ہے کہ دہشتگردوں کے خلاف متحد اور یکجا ہوکر لڑنے کی منظم تحریک ابتدا ہی میں انتشار کا شکار ہو رہی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ اِس ملک و قوم کے لیے بہت ضرر رساں اور تکلیف دہ مر حلہ ہو گا۔ صرف چند دہشتگردوں کو پھانسی دیکر سکون و اطمینان کا سانس لینے والوں کو یہ جان لینا چاہیے کہ دہشتگرد ہمارے شہروں اور قصبوں میں پھیل چکے ہیں۔ سیاستدانوں کی یہ نااتفاقی اور غیر سنجیدگی اُنھیں مزید حوصلہ اور ہمت عطا کریگی اور وہ پہلے سے زیادہ منظم ہو کر ہم پر حملہ آور ہو سکتے ہیں۔ یہ ساری قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ ہم اگر اِس بار ناکام ہوئے تو پھر شاید ہی یہ موقعہ میسر ہو سکے گا کہ ہم اپنے ملک سے دہشتگردی کا مکمل خاتمہ کر سکیں۔ یہ ناکامی صرف موجودہ حکمرانوں ہی کی ناکامی نہیں ہو گی ہماری ساری سیاسی قوتوں اور تمام ذمے دار اداروں کی ناکامی ہو گی۔
حکومت نے تو پشاور واقعے کے بعد فوراً ساری جماعتوں کا اجلاس بلا کر کوئی قابلِ عمل حل تلاش کرنے کی جانب پہلا قدم اُٹھا لیا تھا۔ اب یہ ہم سب کی ذمے داری ہے کہ کانفرنس میں کیے گئے فیصلوں کو جلد سے جلد عملی جامہ پہنائیں۔ اُس میں کسی قسم کی رخنہ اندازی کر کے اور رکاوٹ ڈال کر ہم ایک بہت بڑے قومی جرم کا اِرتکاب کر رہے ہونگے۔ قوم اِس وقت کسی بھی غلطی اور کوتاہی کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ سیاسی جماعتوں کو اگر کچھ تحفظات تھے وہ اُنھیں کُھل کر کانفرنس میں سب کے سامنے رکھنے چاہیے تھے۔ اُس وقت تو وہ کسی کے دبدبے میں یا کسی خوف اور ڈر سے فوجی عدالتوں کے قیا م کی مخالفت نہ کر سکے لیکن اب رفتہ رفتہ وہ اپنی زبانوں کے قفل کھول رہے ہیں اور اُن کے بیانوں میں شدت آتی جا رہی ہے۔
سینیٹ کے اجلاس میں پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینٹروں نے تو اِس کی پر جوش انداز میں شدید مخالفت کر دی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اِس معاملے کو قومی اسمبلی میں پارلیمانی پارٹیوں کے سامنے رکھدے اور اُنہی سے کوئی مناسب حل اور رائے طلب کرے۔ اگر فوجی عدالتیں اتنی ہی نامناسب اور ناقابل قبول تھیں تو پہلے وہ کیوں چپ رہے اور اب اُس کیخلا ف یہ ہرزہ سرائی کیوں۔ جس اتحاد و یگانت کا ابھی کچھ روز پہلے خوش کن مظاہرہ کیا گیا تھا وہ اچانک سرِ راہ چند دن میں ہی کیوں انتشار کا شکار ہو گیا۔ دہشتگردی کے عفریت سے نمٹنا صرف حکومت ہی کا معاملہ نہیں ہے یہ ساری قوم کا مسئلہ ہے۔ اگر ہم اب بھی ٹال مٹول اور لیت و لعل سے کام لے کر اپنے دامن بچاتے رہیں گے تو آنیوالی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کرینگی۔ ہمیں سیاسی مفادات سے قطع نظر اجتماعی قومی مفادات کو مد نظر رکھ کر غیر معمولی فیصلے کرنا ہونگے۔
اگر فوجی عدالتیں اِس کا حل نہیں ہیں تو پھر یہ بتایا جائے کہ کونسا ایسا حل ہے جس پر ساری قوم متفق و متحد ہو۔ اِس اہم اور سنگین معاملے کو حکومت کے کاندھوں پر ڈال کر ہم اپنی ذمے داریوں سے عہدہ برا نہیں ہو سکتے۔ دہشتگردی کا مسئلہ حکومت وقت کا پیدا کردہ نہیں ہے، یہ ہماری گزشتہ کئی دہائیوں کی غلطیوں اور کوتاہیوں کا شاخسانہ ہے جس سے نمٹنا ہم سب کا قومی اور اجتماعی فرض ہے۔
وقت کا تقاضا بھی یہی تھا کہ ملک میں عرصے سے جاری دہشتگردی کا فوری خاتمہ ہو اور اِن بے رحم دہشتگردوں کو ان کے انجام تک پہنچایا جائے۔ لہٰذا تمام سیاسی جماعتوں نے فوجی عدالتوں کے بارے میں اپنے خدشات اور تحفظات کے باوجود اِن کے فوری قیام کے لیے رضامندی ظاہر کر دی۔سانحہ پشاور دہشتگردی کا کوئی چھوٹا موٹا واقعہ نہ تھا کہ ہم چند دنوں کے مذمتی بیانوں کے بعد اِسے بھول جاتے یا پھر اُس سے نمٹنے کے لیے ملک میں رائج اپنے نظامِ عدل ہی پر اکتفا کرتے جسے ہر کیس میں اپنی آئینی اور قانونی ضرورتوں اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے کرتے اتنا عرصہ بیت جاتا ہے کہ خوفناک سے خوفناک مجرم بھی معصوم اور بیگناہ لگنے لگتا ہے۔
مزید برآں عدالت اگر اِن مجرموں کو سزائے موت دے بھی دے تو اقوام متحدہ اور یورپین یونین اُن کی سزاؤں پر عملدرآمد میں رخنہ اندازی کرنے لگتی ہیں۔ ہماری مصیبت یہ ہے کہ ہم اپنی معیشت کو سہارا دینے کے لیے اِن ہی بین الاقوامی تنظیموں اور ا داروں کے محتاج رہتے ہیں۔ کبھی ہمیں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے قرضے لینے ہوتے ہیں یا کبھی اپنی مصنوعات کی ایکسپورٹ کے لیے امریکا اور یورپین یونین کی خوشامدیں کرنی ہوتی ہے لہٰذا جواب میں وہ جب ہم پر روک ٹوک اور قدغن لگاتے ہیں تو ہم بے بس اور لاچار ہو جاتے ہیں ہم میں اور ایک آزاد اور خودمختار ملک میں یہی فرق نمایاں ہے۔ امریکا او ر یورپین یونین کو سعودی عرب میں دی جانیوالی سزائے موت پر کبھی کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ وہاں اُنھیں آزادی نسواں کا بھی کوئی ملال او ر افسوس نہیں ہوتا۔ ہم اگر اپنی قوم کے قاتلوں کو موت کی سزا دیتے ہیں تو ہمیں سارے انسانی حقوق یاد دلائے جاتے ہیں۔
پھانسی کی سزا کو غیر اخلاقی اور غیر انسانی سزا قرار دیا جاتا ہے جب کہ وہاں سرِعام سر قلم کیے جانے پر کسی کی پیشانی پر شکن بھی نہیں پڑتے۔ خود امریکا اور یورپ کے کئی ممالک اپنے یہاں کسی دہشتگردی کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ڈرون حملوں کے ذریعے وہ اپنے مخالفوں اور دشمنوں کا ماورائے عدالت قتل بھی جائز اور درست قرار دیتے ہیں۔ نائن الیون کے بعد اُنھوں نے جسے چاہا پکڑ لیا، جسے چاہا گوانتانامو بے میں قید کر دیا اور جسے چاہا موت کی نیند سلا دیا۔ دہشتگردی کی عالمی جنگ کے تحت وہ کسی بھی ملک کے اندر گُھس کر عسکری کارروائی کر کے اپنے دشمنوں کے علاوہ کئی بیگناہوں کو بھی مار سکتے ہیں لیکن ہم اپنے ملک میں اپنے جانی دشمنوں کو بھی مار نہیں سکتے۔ اِس کے لیے بھی ہمیں اُن کی اجازت درکار ہوتی ہے۔
کتنا عجیب و غریب اور نرالا ہے اُن کا یہ نظامِ عدل جہاں انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اگر کسی کو سزائے موت دی جائے تو سراسر ظلم اور بے رحمی ہے لیکن اگر کسی فوجی کارروائی اور ڈرون حملوں کے ذریعے اُنھیں موت کی نیند سلا دیا جائے تو برحق اور جائز۔ اِسی طرح ہمارے یہاں بھی کچھ لوگ انسانی حقوق کے چیمپئن بن کر اِن پھانسیوں کے خلاف اپنا نقطہ نظر بلا کسی تردد اور ہچکچاہٹ کے میڈیا پر بیا ن کرتے رہتے ہیں۔ اُن کا ہدف دراصل سزاؤں کا اسلامی طریقہ کار ہوتا ہے۔ اُن کی نظر میں کسی کو کوڑے مارنا اور سرِ عام سر قلم کیے جانا سراسر ظلم، بے رحمانہ اور انسانیت کی توہین کے مترادف ہے۔
وہ ایک طرف ہمارے عدالتی نظام کو بُرا بھلا بھی کہتے ہیں اور دوسری طرف مجرموں کو جلد اپنے انجام تک پہنچانے کے طریقوں پر بھی عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں حکومت دہشتگردی کے خاتمے کے لیے کیا طریقہ کار اپنائے اِس کا جواب بھی اُن کے پاس نہیں ہوتا۔ ابھی سانحہ پشاور پر بلائی گئی قومی کانفرنس کو زیادہ دن بھی نہیں ہوئے اور اُس میں کیے گئے فیصلوں کی مخالفت شرو ع ہو گئی۔ ہر طرف سے آوازیں آنے لگی ہیں کہ فوجی عدالتیں اِس مسئلے کا حل نہیں۔ ہمارے آئین میں اِس کی کوئی گنجائش نہیں۔ ضروری آئینی ترمیم بھی قابل عمل تجویز نہیں جب کہ موجودہ عدالتی نظام پر بھی کسی کو اعتماد نہیں۔ کانفرنس میں شامل بہت سی جماعتیں جنہوں نے کانفرنس میں بیٹھ کر آرمی چیف کی تجویز کو وقت کی ضرورت قرار دیا تھا اب اپنے دیگر ارکان کے ذریعے فوجی عدالتوں کے قیام کی مخالفت شروع کر رکھی ہے۔
رفتہ رفتہ اُن کی اِس سوچ اور فکر کو مختلف طبقہ ہائے فکر کی جانب سے تقویت اور مقبولیت بھی ملنے لگی ہے اور اب ایسا لگتا ہے کہ دہشتگردوں کے خلاف متحد اور یکجا ہوکر لڑنے کی منظم تحریک ابتدا ہی میں انتشار کا شکار ہو رہی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ اِس ملک و قوم کے لیے بہت ضرر رساں اور تکلیف دہ مر حلہ ہو گا۔ صرف چند دہشتگردوں کو پھانسی دیکر سکون و اطمینان کا سانس لینے والوں کو یہ جان لینا چاہیے کہ دہشتگرد ہمارے شہروں اور قصبوں میں پھیل چکے ہیں۔ سیاستدانوں کی یہ نااتفاقی اور غیر سنجیدگی اُنھیں مزید حوصلہ اور ہمت عطا کریگی اور وہ پہلے سے زیادہ منظم ہو کر ہم پر حملہ آور ہو سکتے ہیں۔ یہ ساری قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ ہم اگر اِس بار ناکام ہوئے تو پھر شاید ہی یہ موقعہ میسر ہو سکے گا کہ ہم اپنے ملک سے دہشتگردی کا مکمل خاتمہ کر سکیں۔ یہ ناکامی صرف موجودہ حکمرانوں ہی کی ناکامی نہیں ہو گی ہماری ساری سیاسی قوتوں اور تمام ذمے دار اداروں کی ناکامی ہو گی۔
حکومت نے تو پشاور واقعے کے بعد فوراً ساری جماعتوں کا اجلاس بلا کر کوئی قابلِ عمل حل تلاش کرنے کی جانب پہلا قدم اُٹھا لیا تھا۔ اب یہ ہم سب کی ذمے داری ہے کہ کانفرنس میں کیے گئے فیصلوں کو جلد سے جلد عملی جامہ پہنائیں۔ اُس میں کسی قسم کی رخنہ اندازی کر کے اور رکاوٹ ڈال کر ہم ایک بہت بڑے قومی جرم کا اِرتکاب کر رہے ہونگے۔ قوم اِس وقت کسی بھی غلطی اور کوتاہی کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ سیاسی جماعتوں کو اگر کچھ تحفظات تھے وہ اُنھیں کُھل کر کانفرنس میں سب کے سامنے رکھنے چاہیے تھے۔ اُس وقت تو وہ کسی کے دبدبے میں یا کسی خوف اور ڈر سے فوجی عدالتوں کے قیا م کی مخالفت نہ کر سکے لیکن اب رفتہ رفتہ وہ اپنی زبانوں کے قفل کھول رہے ہیں اور اُن کے بیانوں میں شدت آتی جا رہی ہے۔
سینیٹ کے اجلاس میں پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینٹروں نے تو اِس کی پر جوش انداز میں شدید مخالفت کر دی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اِس معاملے کو قومی اسمبلی میں پارلیمانی پارٹیوں کے سامنے رکھدے اور اُنہی سے کوئی مناسب حل اور رائے طلب کرے۔ اگر فوجی عدالتیں اتنی ہی نامناسب اور ناقابل قبول تھیں تو پہلے وہ کیوں چپ رہے اور اب اُس کیخلا ف یہ ہرزہ سرائی کیوں۔ جس اتحاد و یگانت کا ابھی کچھ روز پہلے خوش کن مظاہرہ کیا گیا تھا وہ اچانک سرِ راہ چند دن میں ہی کیوں انتشار کا شکار ہو گیا۔ دہشتگردی کے عفریت سے نمٹنا صرف حکومت ہی کا معاملہ نہیں ہے یہ ساری قوم کا مسئلہ ہے۔ اگر ہم اب بھی ٹال مٹول اور لیت و لعل سے کام لے کر اپنے دامن بچاتے رہیں گے تو آنیوالی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کرینگی۔ ہمیں سیاسی مفادات سے قطع نظر اجتماعی قومی مفادات کو مد نظر رکھ کر غیر معمولی فیصلے کرنا ہونگے۔
اگر فوجی عدالتیں اِس کا حل نہیں ہیں تو پھر یہ بتایا جائے کہ کونسا ایسا حل ہے جس پر ساری قوم متفق و متحد ہو۔ اِس اہم اور سنگین معاملے کو حکومت کے کاندھوں پر ڈال کر ہم اپنی ذمے داریوں سے عہدہ برا نہیں ہو سکتے۔ دہشتگردی کا مسئلہ حکومت وقت کا پیدا کردہ نہیں ہے، یہ ہماری گزشتہ کئی دہائیوں کی غلطیوں اور کوتاہیوں کا شاخسانہ ہے جس سے نمٹنا ہم سب کا قومی اور اجتماعی فرض ہے۔