خیالی پلاؤ نظم ’’تم خفا کیوں ہو‘‘

تمہیں جو بے سبب مجھ سے خفا ہونے کی عادت ہے، یہ آغازِ جدائی ہے کہ اندازِ محبت ہے۔


Farrukh Izhar January 07, 2015
تمہیں جو بے سبب مجھ سے خفا ہونے کی عادت ہے، یہ آغازِ جدائی ہے کہ اندازِ محبت ہے۔ فوٹو فائل

مری جاں تم خفا کیوں ہو
تمہیں مجھ سے گلہ کیا ہے
اچانک بے رخی اتنی
بتاؤ تو ہُوا کیا ہے؟

کسی نے تم سے کیا آخر
کہا ہے میرے بارے میں
کسی سے تم نے کیا آخر
سنا ہے میرے بارے میں

رہو بے شک خفا مجھ سے
مگر یہ بات سمجھا دو
مناؤں کب تلک تم کو
مجھے اتنا تو بتلا دو
اگر اب ہو سکے تم سے
تو یہ احسان فرما دو
میری منزل محبت ہے
مجھے منزل پہ پہنچا دو

تمہاری آنکھ میں آنسو
مجھے اچھے نہیں لگتے
تمہارے نرم ہونٹوں پر
گِلے اچھے نہیں لگتے

تمہارے مسکرانے پر
میرا دل مسکراتا ہے
تمہارے روٹھ جانے سے
میرا دل ٹوٹ جاتا ہے

تمہیں جو بے سبب مجھ سے
خفا ہونے کی عادت ہے
یہ آغازِ جدائی ہے
کہ اندازِ محبت ہے

وفا کے رنگ میں دیکھو
جفا اچھی نہیں ہوتی
کسی سے عشق میں اتنی
انا اچھی نہیں ہوتی

چلو اب مان بھی جاؤ
بہت اب ہو چکی رنجش
کسی دن اور کر لینا
یہ پوری اپنی تم خواہش

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے نظم لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں