بات کچھ اِدھر اُدھر کی آنسو کی قدر

آنسو! ایک ایسا لفظ ہے جس کو لکھو تو خود بھی بھیگ جاتا ہے اور سنو تو دل میں درد سا محسوس ہونے لگتا ہے۔

آنسوؤں کی جتنی قدر کی جائے کم ہے۔ یہ آنسوؤں اس وقت تک نہیں نکلتے جب تک کوئی اپنا نہ ہوجائے اور جب کوئی اپنا ہوجاتا ہے تو اس کی آنکھوں میں آنسوؤں آئیں یہ اچھا نہیں ہوتا۔ فوٹو: فائل

آنسو! ایک ایسا لفظ ہے جس کو لکھو تو خود بھی بھیگ جاتا ہے۔ سنو تو دل میں درد سا محسوس ہونے لگتا ہے۔ آنسوؤں کا تعلق جس قدر آنکھ سے ہے اس سے کہیں زیادہ دل اس کا محور ہے۔ پلکوں سے نکلنے والے پانی کی قدر و قیمت کا اندازہ لگانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔

آنسوؤں کئی طرح کے ہوتے ہیں۔کچھ آنسو خوشی سے نکل آتے ہیں۔ کچھ آنسو ندامت کے ہوتے ہیں۔ جب انسان کوئی غلطی اور کوتاہی کرتا ہے اور پھر اللہ کے حضور وہ اپنی غلطی کی معافی مانگتا ہے تو اس وقت کے نکلنے والے آنسوؤں کی قدر و منزلت بہت ہے۔ انسان زندگی بھر روتا رہے مگر اس موقع پر بہائے جانے والے اشکوں کے دو قطرے جہنم کے ایندھن کو ٹھنڈا کردیتے ہیں۔
صرف احساس، ندامت، اک سجدہ اور چشم تر
اے خدا کتنا آساں ہے منانا تجھ کو

ندامت دراصل یہ بتاتی ہے کہ اب غلطی اور کوتاہی کرنے والے کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے۔ جس کے بعد وہ غلطیوں سے توبہ کر کے دوبارہ کوئی کوتاہی نہیں کرتا۔

ایک آنسوؤں وہ ہیں جو ہمیشہ انسان کی زندگی کے ساتھ جوڑے ہوئے ہیں۔ غم اور بے بسی کے آنسو۔ انسان کی فطرت میں محبت رکھ دی گئی ہے۔ محبت، انس اور پیار ایسی چیزیں جن کا کسی وقت، جگہ اور چیز سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ جب چاہیں بس ہوجاتی ہیں۔ جس سے چاہیں، جہاں چاہیں۔ محبت کبھی کسی چیز کی محتاج نہیں ہوئی۔ کبھی یہ نہیں سوچتی کہ وہ جس سے محبت کررہی ہے وہ شخص اس کے قابل ہے یا پھر نہیں وہ جگہ مناسب ہے یا نہیں، بڑے اجازت دیتے ہیں یا نہیں......۔

اگر غور کیا جائے تو محبت اور آنسوؤں کا چولی دامن کا رشتہ ہے۔ جہاں محبت ہوتی ہوئی اشکوں کی برساتی ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔ عموماً آنسوؤں کا نکلنا کسی صدمے یا غم کی صورت میں جذبات پر بے قابو پانے سے ہوتا ہے۔
تیری طرح تیرا غم بھی ہمیں مات دے گیا
آنکھیں تو ڈھانپ لیں ، مگر آنسو نہ چھپ سکے

محبت کا ہونا جرم نہیں مگر محبت کے بعد جو کچھ ہوتا ہے وہ صد قابل جرم اورقابل مذمت ہے۔ کسی نے سوال کیا کہ محبت کرنے والوں کی قسمت میں آنسوؤں کیوں لکھ دیے گئے ہیں؟سوال کا جواب تو بہت سادہ سا ہے مگر یہاں پر کچھ چیزوں کو واضح کرنا بھی ضروری ہے۔ ہمارے معاشرے میں محبت کی ہمیشہ سزا لڑکی کو ہی دی جاتی ہے۔ جب کہ پابندیاں ہوتی ہیں تو وہ بھی لڑکی پر، شک کیا جاتا ہے تو وہ لڑکی پر۔ اگر وہ تعلیمی ادارے یا کسی آفس میں ہے اور وہاں سے واپسی پر اسے کسی ضروری کام سے دیر ہوجاتی ہے تو والدین یا سرپرست اعلیٰ بجائے اس کے کہ اس کی مصروفیات کو محسوس کرتے ہوئے اس کی حوصلہ افزائی کریں، اسے باتیں کی جاتیں، وہ بتائے تو بھی اس سے بات چیت منقطع ہوجاتی ہے۔ منگیتر اپنی جگہ ناراض ہوجاتا کہ اسے اس وقت وہاں نہیں ہونا چاہیے، شوہر ہے تو اس کا الگ منہ بنا ہوتا ہے۔


ایسی صورتحال میں وہ بیچاری لڑکی کسی کو فریاد سنانے اور اپنے دکھڑا بیان کرنے کے چند بے بسی اور کچھ غم کے آنسو بہا دیتی ہے۔ انہیں آنسوؤں کو بے بسی اور غم کے آنسو کہا جاتا ہے۔ جن کی کوئی قدر نہیں کی جارہی ہوتی، حالانکہ
ایک اشک کی قیمت ہو اگر ایک ہی پیسہ
تو سنو ! تم لاکھوں کے مقروض ہوگئے ہو

اکثر اوقات میں ان آنسوؤں کی وجہ وہ محبت ہوتی ہے جسے لڑکے کر کے چھوڑ دیتے ہیں اور لڑکی قسمت میں رہ جاتے ہیں، صرف بدنامی کے داغ اور اپنی قسمت کا ماتم۔ کہا جاتا کہ محبت اگر سچی اور کامیاب ہو تو دنیا میں اس سے بڑھ کر کوئی رشتہ نہیں ہوتا اور اگر خدانخواستہ میں اس میں کوئی جھول نکل آئے تو دو نہ سہی کم سے کم ایک انسان کی زندگی کی بربادی تو پکی ہے، پھر حسرتیں ہوتیں ہیں اور
کبھی آنسو،کبھی سجدے،کبھی ہاتھوں کا اٹھ جانا
محبتیں ناکام ہو جائیں تو رب بہت یاد آتا ہے

یا پھر
تمہاری یاد کے آنسو بن بن آس آتے ہیں
سرابِ زندگی میں لبِ جان بن پیاس آتے ہیں

ضرورت اس امر کی ہے کہ آنکھوں سے نکلنے والے ان آنسوؤں کی جتنی قدر کی جائے کم ہے۔ یہ آنسوؤں اس وقت تک نہیں نکلتے جب تک کوئی اپنا نہ ہوجائے اور جب کوئی اپنا ہوجاتا ہے تو اس کی آنکھوں میں آنسوؤں آئیں یہ اچھا نہیں ہوتا۔

جانے لوگ کیوں کسی کی آنکھوں میں آنسوؤں دے کر وہ سکھ محسوس کرلیتے ہیں؟ وہ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ آج ان آنسوؤں کی وجہ وہ ہے، مگر کل یہ آنسوؤں لوٹ کر اس کی دہلیز پار کرآئے تو پھر انجام کچھ اچھا نہیں ہوگا۔ آنسوں کسی کے بھی ہوں، اُس کی قدر کرنی چاہیے۔ ماں کے آنسوؤں ہوں یا پھر کسی دوست کے، اپنے چاہنے والے کی آنکھ اشک بار ہو یا پھر کسی کے چاہنے والے کی۔ آخر ایسا کیوں ہوتا کہ جو شخص کسی کے بغیر ایک پل بیتا نہیں سکتا وہ شخص اس کے آنسوؤں کا سبب بن جاتا ہے۔
دل کو تمہاری یاد کے آنسو عزیز تھے
دنیا کا کوئی غم بھی سمونے نہیں دیا

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story