دہشت گردوں سے کوئی رعایت نہیں

دفاعی ماہرین اور اپوزیشن سے مشورے کے بعد 20نکاتی ایکشن پلان کی تیاری عمل میں لائی گئی ہے


Editorial January 07, 2015
بلاشبہ وزیراعظم نے قومی امنگوں کی حقیقی ترجمانی کرتے ہوئے جن عزائم اور غیر متزلزل یقین کے ساتھ دہشت گردی کے عفریت سے نمٹنے کا خوش آیند عہد کیا ہے، فوٹو:فائل

لاہور: وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ دہشتگردوں کے ساتھ کسی قسم کی رعایت نہیں ہوگی ۔دو برس میں گند صاف کر دینگے، 21 ویں آئینی ترمیم اور آرمی ایکٹ میں ترمیم کا بل امن وامان اور ہم آہنگی کے قیام اور دہشتگردی اور مسلح ملیشیاز کو مٹانے میں اہم کردار ادا کریگا، یہی وقت ہے کہ پوری قوت کے ساتھ نئے قانون کو نافذ کیا جائے۔ آئین اور آرمی ایکٹ میں ترمیم کا بل سینیٹ میں پیش اور بعدازاں منظور ہونے پر ایوان بالا سے خطاب میں انھوں نے کہا کہ تمام جماعتوں کے سربراہوں اور پارلیمنٹری لیڈرز کا شکر گزار ہوں ۔

بلاشبہ وزیراعظم نے قومی امنگوں کی حقیقی ترجمانی کرتے ہوئے جن عزائم اور غیر متزلزل یقین کے ساتھ دہشت گردی کے عفریت سے نمٹنے کا خوش آیند عہد کیا ہے وہ پوری قوم کی قومی امنگوں کی حقیقی ترجمانی ہے۔ اس لیے پختہ عزم کے ساتھ یہ یقین بھی ہونا چاہیے کہ آنے والے دن پوری قوم کے لیے نہایت خوش کن ثابت ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ وزیراعظم کو درپیش ملکی بحران ،بے پناہ مسائل و برس ہا برس کے ریاستی و حکومتی تجاہل عارفانہ اور سیاسی مصلحتوں کا ادراک بھی ہے جس کا انھوں نے حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ نئے اقدامات 60، 65 سال کی بدامنی ختم کرنے میں مدد دیں گے ۔

یوں بھی مہذب معاشرے میں دہشتگردی اور دہشتگردوں کی کوئی گنجائش نہیں، لہٰذا ملک کی سیاسی و عسکری قیادت ، دفاعی ماہرین اور اپوزیشن سے مشورے کے بعد 20نکاتی ایکشن پلان کی تیاری عمل میں لائی گئی ہے، تاہم یہ حقیقت یاد رکھی جائے کہ بڑے مواقع کسی کو ہیرو یا بزدل نہیں بناتے، بحران درحقیقت قیادت کی اصل صلاحیتوں کی نقاب کشائی کرتے ہیں اور جدوجہد کے بعد جا کر کہیں پتا چلتا ہے کہ ہم کیا سے کیا ہوگئے۔ داخلی صورتحال نے وطن کے رکھوالوں اور ارباب اختیار کو دہشت گردی سے پیدا شدہ معاشی حالات ، سیاسی بحران کے اس نازک موڑ پر دوست اور دشمن کی پہچان کا ایک سنہری موقع بھی عطا کیا ہے، پارلیمنٹ سے آئین و آرمی ایکٹ میں ترمیم متفقہ طور پر منظور تو ہوئی ہے تاہم تحریک انصاف ، جے یو آئی (ف) اور جماعت اسلامی نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا، ن لیگ کے 13 ارکان بھی قومی اسمبلی کے ایوان سے غیر حاضر رہے، تاہم سیاسی قائدین کو حالات و حوادث کی سنگینی کا احساس کرنا چاہیے کہ کتنے ہزار لوگ دہشتگردی کی نذر ہو چکے ہیں ، وزیراعظم نے متحدہ قومی موومنٹ کے وفد کو یقین دلایا کہ ان کے کراچی آپریشن پر تحفظات دور کیے جائیں گے۔

ایسی صورت میں غیر جانبداری یا گریز پائی تعجب خیز ہے۔ایک دانشور کا دلچسپ قول ہے کہ '' دوزخ میں تاریک ترین جگہ ان لوگوں کے لیے مخصوص ہوگی جو (قوم ) کو درپیش بحران کے وقت لاتعلقی اور اپنی غیر جانبداری کو برقرار رکھتے ہیں ۔'' یہی بات وزیراعظم نے معنوی انداز میں کہی ہے کہ پاک فوج ہمار ے ساتھ ہے جب کہ مشکل ترین حالات میں فوجی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ جمہوریت اور قومی قیادت کر رہی ہے ، کوئی ڈکٹیٹر نہیں کر رہا۔ جب ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ غیرمعمولی حالات میں غیر معمولی فیصلے کرنے ہوں گے تو غیر معمولی فیصلے پارلیمنٹ کے ذریعے کر رہے ہیں۔ وزیراعظم نے رنجیدہ رضا ربانی کے جذبات کی قدر کرتے کہا کہ یہ ہماری خواہش نہیں بلکہ مجبوری میں فیصلے کرنا پڑے ۔

اسی طرح خورشید شاہ نے وقت کی نزاکت کے حوالے سے ایک صائب رائے دی کہ بوجھل دل کے ساتھ فوجی عدالتوں کے قیام کی منظوری دے رہے ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے حالات کے جبر اور زمینی حقائق کو بھی پیش نظر رکھا جائے، کوئی طاقت 18کروڑ عوام کی جمہوری امنگوں کو بلڈوز نہیں کرسکتی،ملک جمہوری عمل کے ایک انتہائی مشکل دور سے گزر رہا ہے ۔ بے چہرہ دشمن تاک میں ہیں ۔اب اتفاق رائے اسی امر پر ہو کہ دہشتگردی کا ہر حال میں صفایا ہونا ہے اور یہ یقین بھی دلایا گیا کہ منظور کردہ قانون کسی کے خلاف امتیازی طور پر استعمال نہیں ہوگا۔ اس کے بعد خدشات اور تحفظات کی گنجائش نہیں رہنی چاہیے۔ مسائل کے بے شمار اژدہے شکار کے منتظر ہیں، احتیاط کی ضرورت ہے ۔

لیویز کے مطابق ایرانی سرحدی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے منگل کو رات گئے پاکستانی علاقے مند پر دو راکٹ فائر کیے گئے جس سے کسی قسم کا نقصان نہیں ہوا۔ ادھر پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ داعش کا اثر و رسوخ روز بروز بڑھتا جارہا ہے اور داعش پاکستان کے لیے حقیقی اور مسلسل بڑھتا ہوا خطرہ ہے جب کہ سیکیورٹی کے حوالے سے صوبہ بلوچستان کی صورتحال زیادہ مخدوش ہے،یہاں جاری کی جانیوالی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال 2014 میں پاکستان میں دہشت گردوں نے 1200 کے قریب حملے کیے۔

جس میں 1723 افراد جاں بحق جب کہ 3143 زخمی ہوئے جب کہ 2013 کے مقابلے میں 2014 میں دہشت گردی کے واقعات میں 30 فیصد کمی واقع ہوئی۔ سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس جواد ایس خواجہ کے چشم کشا ریمارکس انتباہ کا درجہ رکھتے ہیں، انھوں نے قرار دیا کہ آئین کی روح پر عمل نہ ہونا ہم سب کی ناکامی ہے۔ مزید کچھ کہنے کی گنجائش نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں