تنگ آمد بجنگ آمد

پارلیمنٹ نے اکیسویں آئینی ترمیم منظور کرلی ہے جس سے فوجی عدالتوں کا مسئلہ بھی حل ہو گیا ہے۔

Abdulqhasan@hotmail.com

گناہوں اور گناہ گاروں کی بستی پاکستان کے ایک بہت بڑے پرہیز گار مولانا فضل الرحمن نے اعلان کیا ہے کہ اللہ کا شکر ہے وہ گنہ گار ہونے سے بچ گئے اور آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ نہیں دیا۔ اس گناہ سے بچ جانے کا انھوں نے کئی اخباری بیانوں وغیرہ میں ذکر کیا ہے اور اپنی بے گناہی اور پرہیز گاری کا ثبوت دیا ہے اور اس پراللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہونے کا اعلان بھی کیا ہے۔ یہ آئینی ترمیم تو معمولی بات ہے جس ملک کے آئین میں یہ ترمیم منظور کی گئی ہے حضرت مولانا فضل الرحمن تو اس ملک کے قیام کے گناہ میں بھی شریک نہیں ہوئے یعنی مولانا کے والد مرحوم و مغفور مفتی محمود صاحب نے علانیہ کہا تھا کہ شکر ہے ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے۔

مفتی صاحب کا یہی فقرہ ان کے صاحبزادے کی زبان پر بھی طاری رہتا ہے چنانچہ ایک بار میری موجودگی میں انھوں نے جب نوابزادہ نصراللہ خان سے یہی جملہ دہرایا کہ نواب صاحب شکر ہے کہ ہم اس ملک کے قیام کے گناہ میں شریک نہیں تھے تو نواب صاحب مسکرا دیے۔ وہ یا تو کسی کی احمقانہ بات پر مسکراتے تھے یا کسی کی بات کو اہمیت نہ دینا مقصود ہوتا تھا۔ نواب صاحب تو ہمارے مولانا کے بارے میں یہ بھی کہا کرتے تھے کہ اس نوجوان کو کوئی اہم بات نہ بتایا کریں یہ آگے بتا دیتا ہے۔ بہر کیف جس ملک کے بنانے کے گناہ میں یہ باپ بیٹا شریک نہیں تھے اس ملک میں انھوں نے خوب زندگی گزاری ہے، ایک بار اسمبلی میں کسی مسئلے پر ووٹ درکار تھے تو ایک ووٹ کم پڑتا تھا۔ ان دنوں مفتی صاحب سعودی عرب میں تھے انھیں ووٹنگ کے لیے پاکستان لانے پر چوہدری ظہور الٰہی کی ڈیوٹی لگائی گئی وہ سعودی عرب گئے اور مفتی صاحب کو ساتھ لے آئے۔

یہی مفتی صاحب صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ بھی رہے اور پاکستان کی سیاست میں کیا کچھ نہیں رہے لیکن انھوں نے گناہ کی پیداوار اس ملک میں کبھی احتیاط سے کام نہیں لیا اور گناہ کا پھل عمر بھر کھاتے رہے اب ان کے صاحبزادے اور ہمارے مولانا بھی پھل خوری کا یہی سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور کوئی مفید موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ مفتی صاحب مرحوم نے جب پاکستان کے بارے میں یہ مشہور جملہ کہا تھا کہ اللہ کا شکر ہے وہ اس ملک کو بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے ہم اس وقت اس پوزیشن میں نہیں تھے کہ مفتی صاحب سے فتویٰ لے سکتے کہ ان کے بقول گناہ کی پیداوار سے یہ لطف اٹھانا جائز ہے یا نہیں بلکہ گناہ کی اس بستی میں قیام بھی رکھا جا سکتا ہے یا نہیں، اس کے جواز یا عدم جواز کے بارے میں علمائے دین اور مفتیان دین متین کیا فرماتے ہیں اور ان کا فتویٰ کیا ہے کیونکہ بڑے مفتی صاحب کے صاحبزادے نے ملک کی سیاست میں پیہم مداخلت سے کئی الجھنیں پیدا کر دی ہیں شرعی بھی اور سیاسی بھی اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ وہ ان دنوں ایک مدت سے کشمیر کمیٹی کے چیئرمین ہیں اور وفاقی وزیر کی مراعات کے سزاوار ہیں۔ کشمیر کے مسئلے پر انھوں نے کیا خدمات سر انجام دی ہیں اس کا علم اس قوم کو بہر حال نہیں ہے۔ اب آگے چلتے ہیں۔


پارلیمنٹ نے اکیسویں آئینی ترمیم منظور کرلی ہے جس سے فوجی عدالتوں کا مسئلہ بھی حل ہو گیا ہے۔ ہمارے ہاں عدالتی نظام شاید دنیا کا سست ترین نظام ہے جس میں کئی مقدموں کے فیصلوں تک برس گزر جاتے ہیں اور دیوانی مقدموں کے بارے میں تو مشہور ہے کہ مقدمہ کرنے والے بھی دیوانے ہو جاتے ہیں۔ انصاف میں اگر غیر معمولی تاخیر ہو تو وہ پھر انصاف نہیں ہوتا لیکن عدالتی نظام ایسا بن چکا ہے کہ مقدمے کو طول دینا ایک معمول بن گیا ہے اور مقدمے کے سلسلے میں جو لوگ مطلوب ہوتے ہیں وہ بھی جان بوجھ کر تاخیر کرتے ہیں کیونکہ ان کی آمدنی کا سلسلہ جتنا طویل ہو گا اتنا ہی مفید ہو گا۔ تیز رفتار فوجی عدالتیں ہماری روایتی عدالتوں پر یک گونہ عدم اعتماد ہیں مقدمہ دائر کرنے کا مطلب ہے کہ کسی دوسرے ذریعے سے انصاف نہیں مل سکتا اس لیے اب کوئی عدالت سے رجوع کرتا ہے کہ اس کے ساتھ انصاف کیا جائے اور کسی زیادتی کا ازالہ کیا جائے۔ سپریم کورٹ کے ایک قابل احترام جج نے بھی فوجی عدالتوں کا اس لحاظ سے خیرمقدم کیا ہے کہ ان کے ذریعے انصاف جلد مل سکتا ہے۔

بتایا گیا ہے کہ ان فوجی عدالتوں میں صرف دہشت گردی کے مقدمے دائر ہوں گے لیکن عوام کی خواہش یا مطالبہ یہ ہے کہ پورا عدالتی نظام کیوں نہ ایسا بنا دیا جائے جس میں کسی فوجی عدالت کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ سوال صرف یہ ہے کہ عدالت کے جج کا اطمینان کرا دیا جائے کہ کسی مقدمے کی حقیقت کیا ہے اس کے بعد فیصلہ جج پر چھوڑ دیا جائے مگر ہمارے ہاں پہلے جج کو گمراہ کیا جاتا ہے تاکہ اس سے اپنے حق میں فیصلہ لیا جا سکے۔ ہماری عدالتوں میں تاخیر اور بعض دوسری خرابیوں کی وجہ سے عدالتوں کا احترام بھی کم ہو گیا ہے اور عوام کا ان پر سے اعتماد بھی اٹھ گیا ہے یہی وجہ ہے کہ عوام میں فوجی عدالتوں کا خیر مقدم کیا گیا ہے ہمارا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی کا ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ تعلیمی ادارے بھی کچھ وقت کے لیے بند کر دیے گئے ہیں اس سے زیادہ کیا ہو سکتا ہے کہ لاکھوں طلبہ تعلیم سے محروم ہیں۔ اپنی نئی نسل کے ساتھ اس سے بڑھ کر اور کیا زیادتی ہو سکتی ہے۔

دہشت گردی کے عذاب سے خیر کا ایک پہلو سامنے آیا ہے یعنی فوجی عدالتیں وہی بات کہ ع عدو شر برانگیزد کہ خیر ما در آں باشد۔ فوجی عدالتیں ایک محدود وقت کے لیے ہیں۔ دو برس کے لیے لیکن دہشت گردی کا سلسلہ اس سے زیادہ طویل ہو سکتا ہے کیونکہ جب تک بھارت جیسا پڑوسی موجود ہے یہ عذاب ختم نہیں ہوگا۔ جس ملک کے دینی علماء کرام ملک کو کسی گناہ کی پیداوار سمجھتے ہوں اس ملک کی سلامتی ہمیشہ خطرے میں رہے گی۔ ہم تو اب تنگ آمد بجنگ آمد کے مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں اللہ ہمیں اندرونی اور بیرونی دہشت گردوں سے محفوظ رکھے۔
Load Next Story