چند غورطلب پہلو

گزشتہ دنوں ایک انگریزی اخبار نے اپنے اداریے میں 2دسمبرکو ایک ’’افسردہ دن‘‘ قراردیا ہے


Muqtida Mansoor January 08, 2015
[email protected]

BRISBANE: گزشتہ دنوں ایک انگریزی اخبار نے اپنے اداریے میں 2دسمبرکو ایک ''افسردہ دن'' قراردیا ہے ۔ کیونکہ اس روز سیاسی قیادتیں آئینی اور جمہوری بنیاد کو تحفظ دینے میں ناکام رہیں اور فوجی عدالتوں کے قیام پر متفق ہوگئیں ۔ مذکورہ اخبار نے اپنے ادارئیے میں جو کچھ لکھا، وہ سول سوسائٹی کے احساسات کی ترجمانی تھی۔ جب عوام کی نمایندہ سیاسی جماعتیں ، کسی معاملہ پر متفق ہوجائیں، تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ عوام کی اکثریت اس معاملے پر کیے جانے والے فیصلے پر متفق ہے، مگر چونکہ ہمیں اور ہم جیسے بہت سے متوشش شہری اپنی اختلافی رائے کے اظہار کا آئینی اور جمہوری حق رکھتے ہیں، اس لیے اختلافی نقطہ نظر ریکارڈ کرانا ضروری ہے ۔

یہ درست ہے کہ دہشت گردی کے عفریت سے نمٹنے کے لیے ہمیں ایک مربوط، دیرپا اور ٹھوس حکمت عملی کی ضرورت ہے جو قومی اتفاق رائے کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ مگر کیا ضروری ہے کہ اس مقصد کے لیے آئین کی بالادستی کے تصور کو مسخ کردیا جائے؟ عدلیہ کی انتظامیہ کی علیحدگی کے خواب کو چکناچورکردیا جائے؟ اور آئین کی Right to fair trial سے متعلق شق10-Aکی صریحاً خلاف ورزی کی جائے؟جس میں تحریرہے کہ"For the determination of his civil rights and obligations or in any criminal charge against him a person shall be entitled to a fair trial and due process"۔

اس میں شک نہیں کہ امن و امان کی صورتحال انتہائی دگرگوں ہے۔ ملک میں ایک نہیں ان گنت مسائل کا انبار لگا ہوا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ ملک حالت جنگ میں ہے اور زدپذیری کی آخری حدود کو چھو رہا ہے۔ اس میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں کہ 34برس کا گندصاف کرنا ہے۔ لیکن یہ بھی قابل غور سوال ہے کہ یہ گند 34 برس تک کن مفادات کے تحت جمع رکھا گیا؟ اس کے علاوہ جو اقدامات تجویز کیے جا رہے ہیں ان کے بارے میں بھی کئی سوالات ابھر کر سامنے آرہے ہیں۔

اول، کیا عام عدالتیں یہ فریضہ دینے کی استطاعت اور اہلیت نہیں رکھتیں؟ دوئم، کیا صرف فوجی عدالتیں ہی اس پیچیدہ ترین مسئلہ کا قرار واقعی حل ہیں؟ کیا اس فیصلے سے انصاف کے تمامتر تقاضے پورے ہوسکیں گے؟سوئم، کیا مطمع نظر صرف قبائلی علاقوں سے اٹھنے والی شدت پسندی ہے یا پورے ملک میں موجود متشدد فرقہ واریت کا خاتمہ بھی حکمرانوں کا ہدف ہے؟ چہارم، کیا وزیر اعظم ہاؤس کی چھت تلے جمع ہونے والی سیاسی جماعتیں اور ان کے رہنما واقعی مذہبی شدت پسندی کے خاتمے میں سنجیدہ ہیں؟ کیونکہ ایک ماہ قبل تک بعض سیاسی و مذہبی جماعتوں کی جانب سے شدت پسند عناصر کے حق میں جو بیانات دیے جا چکے ہیں، وہ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے ریکارڈ پر موجود ہیں۔ یہ بیانات ان کے حالیہ بیانیے سے قطعی مختلف ہیں۔ جس کی وجہ سے شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں۔ خود مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے ابتدائی چند ماہ شدت پسند عناصر کے ساتھ مذاکرات کی خواہش میں ضایع کردیے ۔

پاکستان میں1980 سے ایک خاص پروپیگنڈا مہم کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے کہ افغانستان میں ہونے والی لڑائی جہاد ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان میں مذہبی شدت پسندی اور متشددفرقہ واریت کی راہ ہموار ہوئی۔ اس صورتحال نے رائے عامہ کو بری طرح تقسیم کیا۔ حالانکہ خان عبدالولی خان مرحوم اور میر غوث بخش بزنجو مرحوم جیسے دوراندیش اور دیدہ ور سیاسی رہنماء روز اول ہی سے حکومت کو اس جنگ میں ملوث نہ ہونے کا مشورہ دیتے رہے تھے۔

ان دونوں بزرگ رہنماؤں کا خیال تھا کہ جو آگ افغانستان میں لگائی جارہی ہے،اس کے شعلے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے کر پورے سماجیFabricکو جلاکر بھسم کردیں گے اور حکمرانی دشوار ہوجائے گی ۔ مگر افغانستان میں تزویراتی گہرائی حاصل کرنے کے خواہش مند منصوبہ سازاور اسلامائزیشن کے نشے میں مدہوش مذہبی و سیاسی جماعتیں اس لڑائی کو کفر واسلام کی جنگ ثابت کرنے پر مصر رہے۔ جس کی وجہ سے ان رہنماؤں کے مشوروں کو مسلسل نظر انداز کیا جاتا رہا۔

دوسری طرف دائیں بازو کی سیاسی ومذہبی جماعتیں فکری تشنج میں مبتلا افراد کو اسلام کا داعی اورقبائلیت پر مبنی کلچرکو اسلامی کلچر قرار دیتی رہیں۔ جب کہ بائیں بازو کے بعض حلقے بھی اس ابہام(Illusion) میں مبتلا رہے کہ شدت پسند عناصردراصل وہIndigenous محروم طبقات ہیں، جو عالمی سامراج کوچیلنج کررہے ہیں۔ یوں سول سوسائٹی کا ان عناصر کے خلاف موقف عوامی پذیرائی حاصل کرنے میں کسی حد تک ناکام رہا۔ لیکن جب اسکولوں کو بم سے اڑایاجانے لگا، پولیوکے قطرے پلانے والی ٹیموں پر حملے ہونے لگے اور سب سے بڑھ کرعوامی مقامات اور فوجی تنصیبات پر تسلسل کے ساتھ خود کش حملے ہونے لگے، تو رائے عامہ تبدیل ہونا شروع ہوئی مگر اس وقت تک اندرون ملک خوف وہراس اور عالمی سطح پر تشخص مجروح ہونے کے باعث بہت زیادہ نقصان ہو چکا تھا۔

یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ 2002 سے مسلسل بم پھٹتے رہے۔ خود کش حملے ہوتے رہے ۔بچوںاوربچیوں کے اسکول تباہ کیے جاتے رہے۔ پولیوکے قطرے پلانے والے رضاکاروں کی زندگیوں کے چراغ گل کیے جاتے رہے۔ پھرسب سے بڑھ کر فوجی تنصیبات پر حملے کرنے اور فوجیوں کے گلے کاٹنے کا نیا مظہر سامنے آیا۔ جب کہ تسلسل کے ساتھ فرقہ وارانہ بنیادوں پرٹارگٹ کلنگ بھی جاری رہی۔ مگرکسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ بلکہ بعض سیاسی ومذہبی جماعتیں ان وحشیانہ کارروائیوں کے مختلف جواز پیش کرتی رہیں۔

ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ دوماہ قبل تک شدت پسند عناصر کے ساتھ مذاکرات کی وکالت کرتے رہے۔ایک مذہبی جماعت کے سابق امیر دہشت گردوں کو شہید قراردے کر متاثرہ خاندانوں کے زخموں پر نمک پاشی کرتے رہے۔ خود مسلم لیگ(ن) کی حکومت کا رویہ غیر معقول رہا۔ اس کے بیشتر وزراء ببانگ دہل کالعدم تنظیموں کے ساتھ بات چیت کا اظہار کرتے رہے۔ اب جب کہ فوج خود فیصلہ کن انداز میں دہشت گردی کا صفایا کرنے کے عزم کے ساتھ میدان میں اتری ہے، توحکمران جماعت سمیت سبھی جماعتیں اپنا سابقہ موقف بھول کر سر میں سر ملانے لگی ہیں۔

مگر جو فیصلے کیے جارہے ہیں، وہ ماورائے آئین وجمہوریت ہیں۔ فوجی عدالتوں کے قیام پر اصرار کرنے کے بجائے اگر تین بنیادی اقدامات کرلیے جائیں تو اس عفریت پر زیادہ بہتر انداز میں قابو پایا جاسکتا ہے۔ اول، لوکل گورنمنٹ سسٹم کو ریاستی انتظام کے تیسرے ستون(Third tier) کے طورپر فوری نافذ کیا جائے۔ جس میں ضلع اور اس سے نچلی سطح تک کے انتظامی یونٹوں کومکمل سیاسی، انتظامی اور مالیاتی بااختیاریت حاصل ہو۔ دوئم، موجودہ سول عدالتی نظام میں وسعت لائی جائے اوراس کی فوریDevolutionکر کے تحصیل اور یونین کونسل کی سطح تک عدالتیں قائم کی جائیں۔

ججوں کی پیشہ ورانہ استعداد میں اضافہ کے لیے ہر سطح پران کے لیے Refresher coursesکا اہتمام کیا جائے۔ سوئم ، پولیس کے محکمے کو مستعد اور فعال بنانے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے اس کی تشکیل نو اور اسے Depoliticise کیا جانا ضروری ہوچکا ہے۔پولیس کو جدیدخطوط پر تیار کرنے کی خاطراس کی تربیت کے لیے نئے ماڈل تیار کیے جائیں ۔ ہر افسر اور سپاہی کو تین برس بعد لازمی طورپر refresher Courseکرایا جائے۔کمیونٹی پولسنگ کے سسٹم کو نافذ کیا جائے اور ہر ضلع میں انسپکٹر سے سپاہی تک تمام اہلکار مقامی ہونا چاہئیں۔ اگر ان تجاویز پر نیک نیتی کے ساتھ عمل کرلیا جائے تو موجودہ سسٹم زیادہ بہتر انداز میں ڈیلیور کرنے کے قابل ہوجائے گا ۔کیونکہ اسی سسٹم کے ذریعہ انگریز نے پورے ہندوستان پر حکمرانی کی اور آج بھارت میں یہی نظام چند بنیادی اصلاحات کے ساتھ چل رہا ہے۔

اس وقت حکمرانوں اور تمام طاقتور اداروں پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ قانون کی عملداری اور ریاست کی رٹ کو یقینی بنانے کو اپنی اولین ترجیح بنائیں۔ کیونکہ جب تک ریاست کی رٹ بحال نہیں ہوتی، تمام اقدامات بے سود رہیں گے۔ ملک میں آئین اور قانو ن کا ڈھانچہ موجود ہے مگر اس پر عملدرآمد کا نظام کمزور ہے۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ کسی مصلحت اور دباؤ میں آئے بغیرآئین کی شقوں اور قانون پرعمل کے میکنزم کو مضبوط بنایا جائے اور جہاں ضرورت محسوس ہوآئینی شقوں اور قانون میں ترمیم و اضافہ کے ذریعہ بہتری لانے کی کوشش کی جائے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں