کسی نامعلوم مقام سے ماں کے نام بیٹے کا ایک خط

پیاری ماں میری طرف سے سلام تو فرض ہے لیکن میں یہ ہر گز نہیں لکھ سکتا کہ میں خیریت سے ہوں ا


Saad Ulllah Jaan Baraq January 08, 2015
[email protected]

پیاری ماں میری طرف سے سلام تو فرض ہے لیکن میں یہ ہر گز نہیں لکھ سکتا کہ میں خیریت سے ہوں اور آپ کی خیریت خداوند کریم سے نیک مطلوب چاہتا ہوں، حالانکہ پیشے کے لحاظ سے میرا شمار ''طالبوں'' میں ہوتا ہے لیکن اس طلب میں کم از کم کوئی خیریت شامل نہیں ہے، ماں میرے ساتھ بڑا دھوکا ہو گیا ہے یہ بالکل ویسا ہی دھوکا ہے جیسے میرے باپ کے ساتھ ایک مرتبہ ہوا تھا کہ پیسے تو ان سے یورپ پہنچانے کے لیے، لیے گئے تھے اور لانچ والوں نے ان کو ایک اجاڑ جزیرے میں پھینک دیا تھا، وہ پھر بھی خوش قسمت تھے کہ کسی نہ کسی طرح واپس آگئے اور پھر پیسے لینے والے کا گریبان پکڑ لیا تھا، یہ الگ بات کہ اس کے بدلے میں ان کو تھانے کا منہ دیکھنا پڑا، لیکن میری تو واپسی کا بھی کوئی امکان نہیں ہے کیوں کہ یہاں سے واپسی ممکن ہی نہیں ہے مجھ سے وعدہ تو یہ کیا گیا تھا کہ جیسے ہی تمہارے جسم کے چیتھڑے اڑیں گے تمہاری آنکھ جنت میں کھلے گی لیکن یہاں تو ایک مہیب اور ہیبت ناک دشت و بیاباں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے، ماحول اتنا گرم ہے۔

جیسے کسی تندور میں بیٹھا ہوا ہوں، چاروں طرف یہ بھیانک آگ جل رہی ہے دم گھٹ رہا ہے اور جسم کا ریشہ ریشہ جل رہا ہے راکھ ہو رہا ہے، مصیبت تو یہ ہے کہ وہاں تو میں نے بڑی آسانی سے خودکش جیکٹ کا بٹن دبا دیا تھا لیکن یہاں ایسی کوئی بھی سہولت موجود نہیں ہے، آخر اس بے پناہ تپش اور گرمی میں پیاس تو لگ ہی جاتی ہے لیکن یہاں دور دور تک کیکٹس کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے، کیکٹس کا رس میں نے ایک دو مرتبہ چوسا لیکن آگ باہر سے اندر بھی لگ گئی، حیران ہوں دل کو رؤں کہ پیٹوں جگر کو میں، نوحہ گر کا تو یہاں کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیوں کہ کسی کو اپنا دل و جگر پیٹنے سے اتنی بھی فرصت نہیں کہ ایک دوسرے کی طرف دیکھ بھی سکے۔

ایک پرانے پاپی سے سنا ہے کہ یہ ہمارا عارضی پڑاؤ ہے یہاں تو لانچ نے ہمیں صرف لا پھینکا ہے آگے اس سے بھی زیادہ درد ناک عذاب دیے جائیں گے، یا خدا یہ میں کہاں پھنس گیا، کاش کاش کاش مجھے ذرا سا بھی اندازہ ہو جاتا تو بھاگ لیتا لیکن ان کم بختوں نے باتوں کے طلسم میں ایسا اسیر کیا تھا کہ جنت اور حور و قصور کے علاوہ اور کچھ سجھائی ہی نہیں دیتا تھا، پتہ نہیں یہ کم بخت لوگ ایسی نورانی صورتیں بنا کر اتنے بڑے بڑے جھوٹ اتنے دھڑلے سے کیسے بول لیتے ہیں اور کم بختوں کی زبانوں میں اتنی تاثیر کہاں سے آجاتی ہے کہ بندہ سوچتا ہے وہ کہے اور سنا کرے کوئی، ماں مجھے کچھ شک سا ہونے لگا ہے بلکہ جتنی جتنی میری توقعات الٹ ثابت ہو رہی ہیں اتنا ہی مجھے یقین آرہا ہے کہ میرے ساتھ تو گھپلا ہو چکا ہے کہیں تمہارے ساتھ بھی تو ... نہیں نہیں یہ سوچ سوچ کر تو میرا کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ اگر تمہارے ساتھ ایسا ہی ہوا ہو گا جیسا میرے ساتھ ہوا ہے یعنی وہ کچھ آپ کو نہیں ملا ہو تو میں تو یونہی نہ ادھر کا ہوا اور نہ ادھر کا، نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم۔

مجھے اپنے وجود کا تو کوئی غم نہیں کیوں کہ مرا وجود کوئی وجود تھا ہی نہیں پیدائشی بیمار تھا ویسے بھی مرنے والا تھا آج مرے کل دوسرا دن والا معاملہ تھا، سوچا تھا چلو اپنے وجود کا یہ کھوٹا سکہ اگر کسی بھی طرح چلتا ہے تو چلنے دو، لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ کھوٹا سکہ تو کھوٹا ہی ہوتا ہے نہ یہاں چلا اور نہ وہاں چلا، مجھے یقین اس لیے ہے کہ جب یہاں وہ نہیں ملا جس کا وعدہ تھا تو وہاں تمہیں بھی وہ کچھ نہیں ملا ہو گا جس کے لیے میں نے جان دی تھی، لیکن مجھے زیادہ دکھ یہ بھی نہیں کہ میری زندگی رائیگاں چلی گئی اب رنج رائیگاں اور گنج شائیگاں کا رونا کیا، جو ہوا سو ہوا، یہ دنیا ہے ہی سراسر ایک دھوکا ایک فریب اور وہم و خیال، جہاں قدم قدم پر ایک سے بڑھ کر ایک نو سرباز پڑا ہوا ہے۔

ایسا لگتا ہے جیسے ایک میلہ ہو اور اس میں دنیا بھر کے دکانداروں نے ریڑھے اور ٹھیلے سجا رکھے ہوں، کوئی کیا بیچ رہا ہے کوئی کیا، کہیں سیاست کا ٹھیلہ لگا ہوا ہے تو کہیں دین کا ریڑہ، کہیں پر نیکیاں بیچی جا رہی ہیں تو کہیں پر برائیاں فروخت ہو رہی ہیں، سارے بازار میں ملاوٹ ہی ملاوٹ جعل سازی ہی جعل سازی ہے، طرح طرح کے بہروپئے مختلف روپ اور سوانگ بھر کر دو ٹکے کمانے کے لیے طرح طرح کے تماشے کر رہے ہیں، پیشہ ور مداری جگہ جگہ ڈگڈگیاں بجا کر سانپ نیولے لڑا رہے ہیں، اپنی اپنی پٹاریوں پر بین بجا رہے ہیں اور اپنی اپنی دوائیاں تعویزات اور جنتر منتر بیچ رہے ہیں کسی پر بھی یقین نہیں کیا جا سکتا کہ وہ وہی ہے جو نظر آتا ہے یا کچھ اور ہے۔ اب مجھے تمام باتوں کا ادراک ہو گیا ہے لیکن اس سے فائدہ کیا۔

یہ سب دھوکا ہے مایا جال ہے سوداگری ہے مداری پن ہے جو دکھتا ہے وہ ہے نہیں اور جو ہے وہ دکھتا نہیں، جنت تو ایک باغ ہے اور باغ یونہی نہیں ملتا ہے اس کے لیے محنت کرنا پڑتی ہے زمین ہموار کرنا پڑتی ہے پھر پیڑ لگائے جاتے ہیں ان پیڑوں کو سینچا جاتا ہے پالا پوسا جاتا ہے تب کہیں جا کر کافی انتظار کے بعد پھل ملتا ہے، یہی ایک صورت ہے جنت کا باغ پانے کی، اس کے علاوہ اگر کسی کو دنیا میں باغ کی توقع ہے تو وہ باغ اگر اس کا اپنا نہیں ہو گا یا تو باغ کے مالک اور مالی کو مار کر حاصل کیا جا سکتا ہے یا دیوار پھاند کر اس کا پھل چرایا جا سکتا ہے لیکن ایسا کیسے ہوتا ہے جو باغ کے اصل مالی اور باغبان ہوتے ہیں وہ اگر باغ لگاتے ہیں تو ان کی حفاظت کرنا بھی جانتے ہیں۔

اگر کوئی اس پر قبضہ جمانے یا پھل چرانے کے لیے غلط راستے سے آتا ہے تو وہ خود ہی اپنی جاں گنوائے گا اورکچھ بھی نہیں پائے گا، لیکن ہماری آنکھوں پر تو پٹی بندھی تھی عقل پر پتھر پڑ گئے تھے اور یہ سوچنے کی کوشش ہی نہیں کی کہ آخر یوں اچانک بغیر کسی محنت کے باغ کیسے ملے گا اور اگر ایسا کوئی تیار ثمردار باغ ہے تو کیا اس کا مالک کوئی نہیں ہو گا یا اندھا بہرا یا لولا لنگڑا ہو گا جسے مار کر ہم باغ ہتھیا لیں گے اور ایسا کوئی باغ تو ہو ہی نہیں سکتا جس کے تمام مالکوں اور وارثوں کو مار کر کوئی اس پر قبضہ کر لے بالفرض اگر ایسا ہوا بھی تو اس باغ کا تو ہر درخت خون سے سیراب ہو گا اور خون سے سیراب ہونے والے باغ کے ہر پھل سے بھی خون ہی ٹپکے گا، کیا ایسا خون میں لتھڑا ہوا پھل کوئی کھا سکے گا۔

چناں چہ ہم جیسے نادانوں کے ساتھ یہی تو ہونا تھا زبردستی کسی اور کے باغ پر قبضہ جمانے والوں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے کہ جب ان کو ہوش ہوتا ہے نہ باغ ہوتا ہے نہ باغ کا سراب ہوتا ہے چاروں طرف ایسا ہی دشت و بیاباں اور تندور نما ریگستان ہوتا ہے، سب سے بڑے دکھ کی بات تو یہ ہے کہ جن لوگوں کو ہم اپنے خیال میں مار کر باغ پر قابض ہونا چاہتے تھے وہ باغوں میں بہاروں میں پہنچ گئے اور ہم اس دہشت بے امان میں جل بھن کر اندر سے مزید جل رہے ہیں کہ یہ تو صرف انتظار گاہ ہے ہماری اگلی منزل اس سے بھی زیادہ بھیانک زیادہ عذاب ناک اور زیادہ جاں لیوا ہے، میں نے خود تو ابھی نہیں دیکھا ہے شاید اس لیے کہ ابھی نیا نیا ہوں لیکن کچھ پرانے پاپی بتاتے ہیں کہ ہمارا جو اصل عقوبت خانہ ہے جس میں ہمیں لے جایا جائے گا اس میں ویسے تو ہر طرح کے عذاب ہیں لیکن سب سے بڑا عذاب یہ ہے کہ جن بے گناہوں کو ہم مار کر جنت مکین ہونا چاہتے ہیں وہ بھی پڑوس میں ہی دکھائی دیتے ہیں اور اس ''باغ'' میں رہتے ہیں جس کے لیے ہم آگ اور خون کا دریا پار کر آئے تھے وہ شاید ہمیں دیکھتے ہیں لیکن ہم ان کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتے، شرم، ندامت اور پشمانی کا بھاری بوجھ ہمیں گردن اٹھانے ہی نہیں دیتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں