نیشنل ایکشن پالیسی کے اچھے اور بُرے پہلو

دہشت گردی جو سب سے سنجیدہ مسئلہ تھا نظر انداز کر دیا گیا اور اس معاملے کو فوج نے اپنے ہاتھ میں لے لیا


Babar Ayaz January 08, 2015

KARACHI: حکومت نے اجتماعی انداز میں طویل غور و خوض کے بعد، دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے جو پالیسی تیار کی ہے اس کے صرف دو ہی نئے پہلو ہیں، باقی سب کچھ وہی ہے جس کا اعلان جولائی2013ء میں کیا گیا تھا۔ جولائی میں جو حکمت ِ عملی پیش کی گئی تھی وہ اس لیے غیر موثر ثابت ہوئی کہ اس پر عمل درآمد ہی نہ ہو سکا۔ حکومت خود کو عمران خان اور ان کے فرشتوں کے اُس خطرے سے بچانے میں الجھی رہی جس نے تقریباً اُس کا کام تمام کر دیا تھا۔

دہشت گردی جو سب سے سنجیدہ مسئلہ تھا نظر انداز کر دیا گیا اور اس معاملے کو فوج نے اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ترجیح کے اعتبار سے اب حکومت نے اس پالیسی میں یہ دو اہم اضافے کیے ہیں: پہلی بار یہ کہا جا رہا ہے کہ ملک میں کسی بھی عسکری گروپ کو، خواہ وہ ریاست کے خلاف لڑ رہا ہے یا دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف جہاد میں مصروف ہے، کام کرنے کی اجازت نہیں ہو گی اور دوسرا نیا پہلو دہشت گردوں کے خلاف مقدمات چلانے کے لیے فوجی عدالتیں قائم کرنے کی غرض سے آئین میں ترمیم کا اختلافی فیصلہ ہے۔ہر چیز کا تنقیدی جائزہ لینے کے عادی مجھ جیسے شخص کے لیے جو مسلسل یہ لکھتا رہا ہو کہ کوئی بھی مہذب ملک اپنی خارجہ پالیسی کو آگے بڑھانے کے لیے جہادی گروپوں کو قائم اور ان کی پرورش کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا اور جوملک میں امن دیکھنا چاہتاہو، اس کے لیے حکومت کے یہ بیانات کہ تمام عسکریت پسند گروپوں کا بستر بوریا لپیٹ دیا جائے گا، ایک ایسی کیفیت ہے کہ کہیں خوشی سے مر ہی نہ جائیں۔

جیسا کہ میں نے اپنے گزشتہ آرٹیکل میں کہا تھا کہ افغانستان میں روپوش تحریک ِ پاکستان(TTP) کی قیادت کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرنے کے لیے جنرل راحیل شریف کا دورہ کابل اس امر کا اشارہ ہو سکتا ہے کہ بالآخر پاکستان نے تسلیم کر لیا ہے کہ افغان طالبان کی بغاوت کی حمایت کرنے کی پالیسی پاکستان کے لیے منفی نتائج کی حامل اور خطرناک ہے۔

تاہم اس نئی پالیسی کی نیک نیتی کا اصل امتحان لشکر طیبہ، جیش محمد اور اس قسم کی لاتعداد دوسری ایسی جہادی تنظیموں کو جن کا رخ بھارت کی طرف ہے ختم کرنا ہو گا۔حکومت نے یہ عزم بھی ظاہر کیا ہے کہ وہ کالعدم تنظیموں کو نئے نام سے کام کرنے کی اجازت نہیں دے گی اور ان تنظیموں کے لیڈروں کو پڑوسی ملکوں کے خلاف مشکلات پیدا کرنے سے روکا جائے گا۔کیا حافظ سعید اور مسعود اظہر جیسے لاڈلوں کو بھی روکا جا ئے گا؟ اور کیا لاکھوں کی تعداد میں ان کے جہادیوں کے ذہن سے جن میں کوٹ کوٹ کر انتہا پسندی بھری گئی ہے، یہ سب کچھ نکال دیا جائے گا؟ اس پر یقین کرنا بہت مشکل ہے۔ لیکن اگر واقعی ایسا ہو جاتا ہے اور فوج ان لیڈروں کو روکنے پر رضامند ہو گئی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کا اسٹرٹیجک کلچر تبدیل ہو رہا ہے۔ یہ پاکستان کے بے حال لوگوں کے لیے خوش گوار خبر ہے جو امن اور ترقی چاہتے ہیں۔

اب فوجی عدالتوں کے بارے میںمتنازع سفارشات کی طرف آتے ہیں۔حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے دہشت گردی پر قابو پانے میں ناکامی کا سارا بوجھ عدلیہ پر ڈالا جا رہا ہے۔ فوجی عدالتوں کے حق میں سب سے بڑی دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ بیشتر کیسوں میں دہشت گرد بری ہو جاتے ہیں اور اگر انھیں سزا ہو جاتی ہے تو عدالتوں میں اپیل کا طویل طریقہ کار، سیکیورٹی ایجنسیوں کی طرف سے پکڑے جانے والے دہشت گردوں کے حق میں ہوتا ہے۔ عدلیہ اور غیرجانب دار قانونی ماہرین اس کا الزام ناقص استغاثہ اور مقدمات کو نامناسب طریقے سے پیش کرنے پر عائد کرتے ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ کے ایک ریٹائرڈ جج کا کہنا ہے کہ '' ناکافی شواہد،forensic سہولتوں کا فقدان، ملزم کے حامیوں کے خوف کی وجہ سے گواہوں کا منحرف ہو جانا اور قانونی سقوم،انسداد دہشت گردی عدالتوں کے لیے ملزم کو سزا دینا اور بھی مشکل بنا دیتے ہیں۔'' سندھ ہائی کورٹ کے مسٹر جسٹس مقبول باقر نے ''فوجداری نظام عدل کی بہتری، دہشت گردی کا سد باب'' پر اپنے ایک مقالے میں یہ بتایا کہ2008-11ء میں انسداد دہشت گردی کی عدالتوں نے دہشت گردی کے42 مقدمات میں25 ملزموں کو بری کر دیا اور17 کو سزا سنائی گئی۔

اگرچہ سپریم کورٹ نے1999ء میںلیاقت حسین بخلاف وفاق پاکستان کیس میںفوجی عدالتیں قائم کرنے کی اجازت دینے سے انکار کرتے ہوئے واضح رہنما اصول دیے تھے مگر ان پر کبھی عمل نہیں کیا گیا۔ پچھلے پندرہ سالوں کے دوران اگر مختلف حکومتوں اور اعلیٰ عدلیہ نے ان رہنما اصولوں پر عمل کیا ہوتا تو فوجی عدالتوں کے قیام کا یہ متنازع سوال ہرگز دوبارہ نہ اٹھتا۔آج بھی ان رہنما اصولوں کا حوالہ دینا مناسب ہے تا کہ اس فیصلے کو صحیح پس منظر میں دیکھا جا سکے جس پر تمام سیاسی جماعتوں نے دہشت گردوں کی طرف سے پشاور کے دلخراش سانحہ کے بعد بھرپور رد عمل کے طور پر اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ میں آ کر رضامندی ظاہر کی ہے۔

سپریم کورٹ نے مندرجہ ذیل رہنما اصول طے کیے تھے ،جن سے اس مقصد کے حصول میں مدد مل سکتی ہے جس کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے فوجی عدالتوں کے قیام کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

(i) دہشت گردی سے متعلق مقدمات ان خصوصی عدالتوں کے حوالے کیے جائیں جو پہلے سے قائم ہیں یا انسداد دہشت گردی کے ایکٹ (آگے اس ایکٹ کا حوالہATC کے طور پر دیا جائے گا) یا محرم علی اور دیگر بخلاف وفاق پاکستان کیس(PLD 1998 SC 1445) میں اس عدالت کے فیصلے کی رُو سے کسی قانون کے تحت قائم کی جائیں گی؛

(ii) خصوصی عدالت کو ایک وقت میں ایک ہی مقدمہ دیا جائے اور اس مقدمے کے فیصلے کے اعلان تک اسے کوئی دوسرا مقدمہ سماعت کے لیے نہ دیا جائے۔

(iii) متعلقہ خصوصی عدالت روزانہ کی بنیاد پر اس مقدمے کی سماعت کرے اور سات دن کے اندر ،جیسا کہ ATA میں پہلے ہی طے کیا جا چکا ہے یا پھر کسی دوسرے قانون میں دی گئی گنجائش کے مطابق فیصلہ کرے۔

(iv) خصوصی عدالت کے سامنے چالان پوری تیاری کے ساتھ اور اس امر کو یقینی بنانے کے بعد پیش کیا جائے کہ متعلقہ خصوصی عدالت کو جب اور جیسے بھی ضرورت ہو گی تمام گواہوں کو پیش کیا جائے گا۔

(v) خصوصی عدالت کے حکم/ فیصلے کے خلاف اپیلٹ فورم میں اپیل کا فیصلہ ، اپیل دائر کیے جانے کے دن سے، سات یوم کے اندر کیا جائے گا۔

(vi) تفتیش کرنے والی یا مقدمے کی پیروی کرنے والی ایجنسیوں کی طرف سے اگر تاخیر کی جائے گی تو قابل اطلاق قانون کے مطابق ان کے خلاف فوری تادیبی کارروائی کی جائے گی۔

(vii) متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سماعت پر نظر رکھنے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ مقدمات/ اپیلوں کوانہی رہنما اصولوں کے مطابق نمٹایا جارہا ہے ہائی کورٹ کے ایک یا ایک سے زیادہ جج مقرر کریں گے۔

(viii) چیف جسٹس آف پاکستان،مذکورہ بالا رہنما اصولوں پر عمل درآمد کا جائزہ لینے کے لیئے سپریم کورٹ کا ایک یا اس سے زیادہ جج مقرر کر سکتے ہیں۔یہ ایک یا ایک سے زیادہ جج صاحبان اس امر کو بھی یقینی بنائیں گے کہ اگر مہلت یا مہلت کی اپیل کے ساتھ کوئی پیٹیشن دائر کی جاتی ہے تو سپریم کورٹ میں کسی تاخیر کے بغیر اس کو نمٹایا جائے۔

(ix) ATA کے سیکشن4 اور5 کی رُو سے مسلح افواج کی مدد طلب کرنے کے علاوہ ،جرم اور سزا کی میعاد کے بارے میں عدالت کے فیصلہ کرنے کے عمل کو چھوڑ کر، سزا پر عمل درآمد تک پریذائیڈنگ افسر،ایڈووکیٹس اور مقدمے میں پیش ہونے والے گواہوں کے تحفظ سمیت ہر مرحلے پر آئین کے آرٹیکل245 کے تحت مسلح افواج سے مددکی درخواست کی جا سکتی ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس وقت انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کے پاس عملے کی کمی اور کام کا بوجھ ہے۔

بیرسٹر فیصل صدیقی کا کہنا ہے کہ '' کراچی میںانسداد دہشت گردی کی کی10 عدالتیں ہیںجن کے پاس1850 مقدمات ہیں۔اتنے سارے مقدمات کو سات دن میں نمٹانا انسان کے بس سے باہر ہے۔'' انھوں نے وضاحت کی کہ مقدمات کی اتنی زیادہ تعداد کی ایک وجہ یہ ہے کہ انسداد دہشت گردی کی عدالتوں پر ایسے سنگین جرائم کے مقدمات کا بھی بوجھ ہے ، جو دہشت گردی کے زمرے میں نہیں آتے۔

کالم نگار '' پاکستان، خرابی اور اُس کے اثرات'' کا مصنف ہے۔ رسائی کے لیے

[email protected]

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں