یہ وقت کیا ہے
سر آئزک نیوٹن کہتے ہیں ’’وقت ایک سمندر ہے جس میں زندگی کا جہاز تیر رہا ہے‘‘ یہ وقت کیا ہے
لاہور:
سر آئزک نیوٹن کہتے ہیں ''وقت ایک سمندر ہے جس میں زندگی کا جہاز تیر رہا ہے'' یہ وقت کیا ہے؟ جو اتنی تیزی سے ہماری زندگی کا ایک سال بہا کر لے گیا ہمیں خبر بھی نہ ہو ئی ابھی تو کیلنڈر دیوار پر لٹکایا تھا۔ چند دنوں کی بات ہے کہ ڈائری کے پہلے صفحے پر اپنے نام کے ساتھ سارے سال کی پلاننگ لکھی تھی یہ کرنا ہے وہ حاصل کرنا ہے مگر ہما رے سا رے پلان سا رے ارادے دھرے رہ گئے زندگی میں ہر شام سورج غروب ہوتا ہے ہمیں احساس نہیں ہوتا یہ احساس یکم جنوری کی صبح اخبارات میں گزرے سال کے غروب ہو تے سورج کی تصویر دیکھ کر ہی کیو ں ہوتا ہے۔ ایک سال کے کل آٹھ ہزار سات سو سا ٹھ گھنٹے( 8760) کہاں گئے کچھ پتہ ہی نہیں چلا ابھی سنبھلنے بھی نہ پائے تھے نیا سال شروع ہو گیا۔ کیا کیا جائے زمانے کی رفتار ہی بہت تیز ہے۔ بقول شاعرِ ''زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے،، یہاں بھی طلب اور رسد کا نظام رائج ہے وقت بہت کم اور کام اتنے زیادہ کہ زندگی میں فرصت کے لمحات میسر ہی نہیں آتے۔
اگر پورے ملک کی مجموعی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو ہم دہشت گردی، فرقہ واریت، لا قانونیت اور دھرنوں کے گو رکھ دھندوں میں پورا سال پھنسے رہے۔ رہی سہی کسر سیاسی لیڈروں کی طنزیہ و تضحیک آمیز بیا نات نے پو ری کی جس کے نتیجے میں ماڈل ٹاون کشت خون کا بازار بنا رہا۔ ابھی اس سانحے کو بھول بھی نہ پائے تھے کہ نابینا افراد کے جلوس پر پو لیس کا وحشیانہ تشدد پوری دنیا نے دیکھا۔ اچانک لگنے وا لی آگ کے واقعات نے پوری قوم کو ہیجان میں مبتلا رکھا، جس میں قیمتی جانوں کا زیاں ہوا۔ قوم بے بسی کا مجسمہ بنی اپنے پیاروں کو آگ میں جلتا دیکھتی رہی۔ یہ وا قعات ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہیں۔
سال کے آخر ماہ پشاور آرمی اسکول میں بچو ں پر دہشت گردوں کے حملے کو سال کے بد ترین دن کے طور پر یاد کیا جائے گا۔ گزشتہ سالوں کے حالات و اقعات مستقبل کے لیے چیلنج بن کر آتے ہیں ہم ایک قر ض میں ڈو بی ہوئی قوم ہیں۔ ہمارے حکمرانوں نے ہم پر اتنا قرض لاد دیا ہے کہ آنے والی کئی نسلیں اس کے سود تلے گر وی ہو چکی ہیں۔ نوجوان نسل بیروزگا ری، فکری بحران اور احتجا جی مزا ج کا شکار ہے۔ سی این جی اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ نے عام پاکستانی کو اقتصادی مشکلات کا شکار بنائے رکھا۔ جس کی وجہ سے ملک میں جرائم کی شرح میں اضافہ ہوا، سرکاری محکموں سے عوامی سطح تک بدعنوانی، چوری، رشوت ستانی، سفارش اور کرپشن میں ریکارڈ اضافہ ہوا، دو مختلف تعلیمی نظام انگریزی و اردو نے حاکم و محکوم کا فاصلہ برقرار رکھا۔اس سال بھی اس میں کوئی انقلابی کا م نہ ہو سکا۔
البتہ پنجاب حکو مت میں اس پر تھوڑا بہت کام ضرور ہوا۔ ملک کے حالات خواہ کتنے ہی کیو ں نہ خراب ہوں۔ بحیثت مسلمان ہمیں امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے، ہر سیاہ رات کے بعد صبح کا اجالا ضرور طلوع ہوتا ہے، ملک جس کرائسس سے گزر رہا ہے اس سے نکل کر نئے سال میں کچھ اچھے حالات ہمارے منتظر ہوں گے کیونکہ وطن عزیز کے کچھ بہی خواہ ایسے بھی ہیں، جنھوں نے ملک کا نام سنوارنے کی کو شش بھی کی چند طا لب علموں نے نامساعد حالات کے باوجود تعلیمی میدان میں غیر معمولی کارکردگی دکھا کر ملک و قوم کا نا م روشن کیا۔ کھیل کے میدان میں ہاکی کے کھلاڑیوں نے بھارت کی سر زمین پر ان کو مات دی۔ اسٹریٹ چلڈرن ورلڈ کپ میں پاکستانی بچوں نے شاندار کھیل کا مظاہرہ کیا، کسی قسم کے وسائل نہ ہو نے کے باوجود تیسری پو زیشن حا صل کی۔
ہنزہ سے تعلق رکھنے والی ثمینہ اور ان کے بھائی مرزا علی بیگ نے دنیا کی سات بلند ترین چوٹیوں کو سر کیا ثمینہ نے پہلی مسلمان اور پاکستانی خاتون کا اعزاز بھی حا صل کیا۔ ملالہ نے نوبل انعام پا کر اقوام عالم میں پاکستان کے وقار میں اضافہ کیا تو دوسری جانب سانحہ پشاور نے پوری قو م کو متحد ہو کر دہشت گردی سے نمٹنے کا عزم عطا کیا۔ فوج کے دلیرانہ فیصلوں کی بدولت ہم سب پر امید ہیں کہ نئے سال میں مثبت تبدیلی آنی شروع ہو گی۔ آنے والا سال ایک روشن پاکستان کی ضمانت ہو گا۔ اس وقت کی کھوج میں مشہور شاعر جاوید اختر اپنی کتاب (لاوا) میں ایک خوبصورت نظم لکھتے ہیں آپ بھی پڑھیے۔
یہ وقت کیا ہے یہ کیا ہے جو آخر مسلسل گزر رہا ہے؟
یہ جب نہ گزرا تھا تب کہاں تھا کہیں تو ہو گا؟
گزر گیا ہے تو اب کہا ں ہے کہیں تو ہو گا
کہاں سے آیا کدھر گیا یہ کب سے کب تک کا سلسلہ ہے یہ وقت کیا ہے؟
یہ وا قعے، یہ حا د ثے، تصادم، ہر ایک غم اور ہر ایک مسرت، ہر ا یک اذیت، ہر ایک لذت
ہر ایک تبسم، ہر ایک آنسو ہر ایک نغمہ، ہر ایک خو شبو، وہ زخم کا درد ہو کہ لمس کا جادو
خود اپنی آواز ہو یا ماحول کی صدا ئیں، یہ ذہن میں بنتی بگڑتی ہو ئی فضائیں
وہ فکر میں آئیں زلزلیں ہوں کہ دل کی ہلچل تمام حساس سارے جذ بے
کہ جیسے پتے بہتے پا نی کی سطح پر تیر تے ہیں ابھی یہاں ہیں ابھی وہاں ہیں اور اب ہیں بوجھل
دکھا ئی دیتا نہیں ہے لیکن یہ کچھ تو ہے جو کہ بہ رہا ہے؟
یہ کیسا در یا ہے کن پہا ڑو ں سے آ رہا ہے یہ کس سمندر کو جا رہا ہے؟
یہ وقت کیا ہے؟ کبھی کبھی میں یہ سو چتا ہو ں کہ چلتی گاڑی سے پیڑ دیکھو
تو ایسا لگتا ہے دوسری سمت جا رہے ہیں مگر حقیقت میں پیڑ اپنی جگہ کھڑے ہیں
تو کیا یہ ممکن ہے ساری صدیاں قطار اندر قطار اپنی جگہ کھڑی ہو ں یہ وقت ساقط ہو اور
ہم ہی گزر رہے ہوں اس ایک لمحے میں سارے لمحے ساری صدیاں چھپی ہوئی ہوں
نہ کو ئی آیندہ نہ گزشتہ جو ہو چکا جو ہو رہا ہے جو ہو نے والا ہے، میں سوچتا ہوں
تو کیا ممکن ہے کہ صدیوں کے سفر میں ہم ہیں گزرتے ہم ہیں
جسے سمجھتے ہیں ہم کہ گزرتا ہے وہ تھما ہوا ہے
گزرتا ہے کہ تھما ہوا ہے اکا ئی ہے کہ بٹا ہوا ہے، منجمد کہ پگھل رہا ہے
کسے خبر ہے، کسے پتہ ہے یہ وقت کیا ہے
سر آئزک نیوٹن کہتے ہیں ''وقت ایک سمندر ہے جس میں زندگی کا جہاز تیر رہا ہے'' یہ وقت کیا ہے؟ جو اتنی تیزی سے ہماری زندگی کا ایک سال بہا کر لے گیا ہمیں خبر بھی نہ ہو ئی ابھی تو کیلنڈر دیوار پر لٹکایا تھا۔ چند دنوں کی بات ہے کہ ڈائری کے پہلے صفحے پر اپنے نام کے ساتھ سارے سال کی پلاننگ لکھی تھی یہ کرنا ہے وہ حاصل کرنا ہے مگر ہما رے سا رے پلان سا رے ارادے دھرے رہ گئے زندگی میں ہر شام سورج غروب ہوتا ہے ہمیں احساس نہیں ہوتا یہ احساس یکم جنوری کی صبح اخبارات میں گزرے سال کے غروب ہو تے سورج کی تصویر دیکھ کر ہی کیو ں ہوتا ہے۔ ایک سال کے کل آٹھ ہزار سات سو سا ٹھ گھنٹے( 8760) کہاں گئے کچھ پتہ ہی نہیں چلا ابھی سنبھلنے بھی نہ پائے تھے نیا سال شروع ہو گیا۔ کیا کیا جائے زمانے کی رفتار ہی بہت تیز ہے۔ بقول شاعرِ ''زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے،، یہاں بھی طلب اور رسد کا نظام رائج ہے وقت بہت کم اور کام اتنے زیادہ کہ زندگی میں فرصت کے لمحات میسر ہی نہیں آتے۔
اگر پورے ملک کی مجموعی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو ہم دہشت گردی، فرقہ واریت، لا قانونیت اور دھرنوں کے گو رکھ دھندوں میں پورا سال پھنسے رہے۔ رہی سہی کسر سیاسی لیڈروں کی طنزیہ و تضحیک آمیز بیا نات نے پو ری کی جس کے نتیجے میں ماڈل ٹاون کشت خون کا بازار بنا رہا۔ ابھی اس سانحے کو بھول بھی نہ پائے تھے کہ نابینا افراد کے جلوس پر پو لیس کا وحشیانہ تشدد پوری دنیا نے دیکھا۔ اچانک لگنے وا لی آگ کے واقعات نے پوری قوم کو ہیجان میں مبتلا رکھا، جس میں قیمتی جانوں کا زیاں ہوا۔ قوم بے بسی کا مجسمہ بنی اپنے پیاروں کو آگ میں جلتا دیکھتی رہی۔ یہ وا قعات ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہیں۔
سال کے آخر ماہ پشاور آرمی اسکول میں بچو ں پر دہشت گردوں کے حملے کو سال کے بد ترین دن کے طور پر یاد کیا جائے گا۔ گزشتہ سالوں کے حالات و اقعات مستقبل کے لیے چیلنج بن کر آتے ہیں ہم ایک قر ض میں ڈو بی ہوئی قوم ہیں۔ ہمارے حکمرانوں نے ہم پر اتنا قرض لاد دیا ہے کہ آنے والی کئی نسلیں اس کے سود تلے گر وی ہو چکی ہیں۔ نوجوان نسل بیروزگا ری، فکری بحران اور احتجا جی مزا ج کا شکار ہے۔ سی این جی اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ نے عام پاکستانی کو اقتصادی مشکلات کا شکار بنائے رکھا۔ جس کی وجہ سے ملک میں جرائم کی شرح میں اضافہ ہوا، سرکاری محکموں سے عوامی سطح تک بدعنوانی، چوری، رشوت ستانی، سفارش اور کرپشن میں ریکارڈ اضافہ ہوا، دو مختلف تعلیمی نظام انگریزی و اردو نے حاکم و محکوم کا فاصلہ برقرار رکھا۔اس سال بھی اس میں کوئی انقلابی کا م نہ ہو سکا۔
البتہ پنجاب حکو مت میں اس پر تھوڑا بہت کام ضرور ہوا۔ ملک کے حالات خواہ کتنے ہی کیو ں نہ خراب ہوں۔ بحیثت مسلمان ہمیں امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے، ہر سیاہ رات کے بعد صبح کا اجالا ضرور طلوع ہوتا ہے، ملک جس کرائسس سے گزر رہا ہے اس سے نکل کر نئے سال میں کچھ اچھے حالات ہمارے منتظر ہوں گے کیونکہ وطن عزیز کے کچھ بہی خواہ ایسے بھی ہیں، جنھوں نے ملک کا نام سنوارنے کی کو شش بھی کی چند طا لب علموں نے نامساعد حالات کے باوجود تعلیمی میدان میں غیر معمولی کارکردگی دکھا کر ملک و قوم کا نا م روشن کیا۔ کھیل کے میدان میں ہاکی کے کھلاڑیوں نے بھارت کی سر زمین پر ان کو مات دی۔ اسٹریٹ چلڈرن ورلڈ کپ میں پاکستانی بچوں نے شاندار کھیل کا مظاہرہ کیا، کسی قسم کے وسائل نہ ہو نے کے باوجود تیسری پو زیشن حا صل کی۔
ہنزہ سے تعلق رکھنے والی ثمینہ اور ان کے بھائی مرزا علی بیگ نے دنیا کی سات بلند ترین چوٹیوں کو سر کیا ثمینہ نے پہلی مسلمان اور پاکستانی خاتون کا اعزاز بھی حا صل کیا۔ ملالہ نے نوبل انعام پا کر اقوام عالم میں پاکستان کے وقار میں اضافہ کیا تو دوسری جانب سانحہ پشاور نے پوری قو م کو متحد ہو کر دہشت گردی سے نمٹنے کا عزم عطا کیا۔ فوج کے دلیرانہ فیصلوں کی بدولت ہم سب پر امید ہیں کہ نئے سال میں مثبت تبدیلی آنی شروع ہو گی۔ آنے والا سال ایک روشن پاکستان کی ضمانت ہو گا۔ اس وقت کی کھوج میں مشہور شاعر جاوید اختر اپنی کتاب (لاوا) میں ایک خوبصورت نظم لکھتے ہیں آپ بھی پڑھیے۔
یہ وقت کیا ہے یہ کیا ہے جو آخر مسلسل گزر رہا ہے؟
یہ جب نہ گزرا تھا تب کہاں تھا کہیں تو ہو گا؟
گزر گیا ہے تو اب کہا ں ہے کہیں تو ہو گا
کہاں سے آیا کدھر گیا یہ کب سے کب تک کا سلسلہ ہے یہ وقت کیا ہے؟
یہ وا قعے، یہ حا د ثے، تصادم، ہر ایک غم اور ہر ایک مسرت، ہر ا یک اذیت، ہر ایک لذت
ہر ایک تبسم، ہر ایک آنسو ہر ایک نغمہ، ہر ایک خو شبو، وہ زخم کا درد ہو کہ لمس کا جادو
خود اپنی آواز ہو یا ماحول کی صدا ئیں، یہ ذہن میں بنتی بگڑتی ہو ئی فضائیں
وہ فکر میں آئیں زلزلیں ہوں کہ دل کی ہلچل تمام حساس سارے جذ بے
کہ جیسے پتے بہتے پا نی کی سطح پر تیر تے ہیں ابھی یہاں ہیں ابھی وہاں ہیں اور اب ہیں بوجھل
دکھا ئی دیتا نہیں ہے لیکن یہ کچھ تو ہے جو کہ بہ رہا ہے؟
یہ کیسا در یا ہے کن پہا ڑو ں سے آ رہا ہے یہ کس سمندر کو جا رہا ہے؟
یہ وقت کیا ہے؟ کبھی کبھی میں یہ سو چتا ہو ں کہ چلتی گاڑی سے پیڑ دیکھو
تو ایسا لگتا ہے دوسری سمت جا رہے ہیں مگر حقیقت میں پیڑ اپنی جگہ کھڑے ہیں
تو کیا یہ ممکن ہے ساری صدیاں قطار اندر قطار اپنی جگہ کھڑی ہو ں یہ وقت ساقط ہو اور
ہم ہی گزر رہے ہوں اس ایک لمحے میں سارے لمحے ساری صدیاں چھپی ہوئی ہوں
نہ کو ئی آیندہ نہ گزشتہ جو ہو چکا جو ہو رہا ہے جو ہو نے والا ہے، میں سوچتا ہوں
تو کیا ممکن ہے کہ صدیوں کے سفر میں ہم ہیں گزرتے ہم ہیں
جسے سمجھتے ہیں ہم کہ گزرتا ہے وہ تھما ہوا ہے
گزرتا ہے کہ تھما ہوا ہے اکا ئی ہے کہ بٹا ہوا ہے، منجمد کہ پگھل رہا ہے
کسے خبر ہے، کسے پتہ ہے یہ وقت کیا ہے