تاریخ کی راہوں پر

س لینڈ اسکیپ پر طلوع ہوتے سورج یا ڈوبتے سورج کے وقت نظر ڈالیں گے تو ریت اور مٹی کے کئی روپ آپ کو دکھائی دیں گے


منظور ملاح January 08, 2015

ہر ہفتے، ہفتہ وار چھٹیوں میں میرا کہیں نہ کہیں جانے کا پروگرام رہتا ہے، کسی ایسے مقام پر جہاں کوئی ثقافتی، ماحولیاتی کشش موجود ہو۔ البتہ میرا انتخاب شہروں کی بجائے جنگلوں، جھیلوں، کھیتوں، ٹیلوں سے بھرپور دیہاتی علاقے ہوتے ہیں۔ اس بار جس علاقے کی طرف رخ کیا، وہ علاقہ قدیم زمانے میں سمندر کا حصہ رہا ہے، پھر جب سمندر نے اپنا قبلہ تبدیل کیا تو وہاں ریت کے ٹیلوں کی ان گنت قطاریں ظاہر ہوئیں، جن کے نیچے آج بھی پانی کی علامات پائی جاتی ہیں، جسے آج کل صحرائے تھر کہتے ہیں۔ راجھستان سے ملنے والا مشرقی علاقہ، شمال سے لے کر جنوب میں سمندر تک پھلا ہوا ہے، جہاں کی صحرائی زندگی کے کئی رنگ آپ کے دل کو بھائیں گے۔

اس صحرا کے ساتھ ساتھ کسی زمانے میں دریا ہاکڑو اپنی آب و تاب کے ساتھ بہتا تھا، بعد میں وہ بھی اس صحرا سے ناراض ہو کر مغرب کی طرف چلا گیا، لیکن اس ریت اڑاتے پیٹ میں ساون کی برساتیں ایک نیا حسن لاتیں اور آس پاس کی زمینوں میں ہرے بھرے کھیت، آموں کے باغات لہلہاتے۔ انگریزوں نے انیسویں صدی کے آخر میں اسی پیٹ میں سے نارا کینال کھدوائی تو پانی کا مستقل بندوبست بھی ہو گیا۔ یوں ٹیلوں کے درمیاں موجود میدانی ٹکڑے بھی آباد ہونے لگے، تو یہاں کے لوگوں کی اقتصادی حالت میں بھی تبدیلی آئی، اس سے پہلے صرف مال مویشیوں پر گزارا ہوتا تھا، ساتھ میں لکڑیاں کاٹ کے بیچ کر بھی اپنے پیٹ کی ضروریات پوری کی جاتی تھیں۔

اس لینڈ اسکیپ پر طلوع ہوتے سورج یا ڈوبتے سورج کے وقت نظر ڈالیں گے تو ریت اور مٹی کے کئی روپ آپ کو دکھائی دیں گے۔ حال ہی میں اسی صحراء کے بیٹے اور معروف مصنف عبدالقادر جونیجو کے انگریزی زبان میں شایع ہونے والے ناول ''دی ڈیڈ روز'' کو پڑھیں گے تو ایسے لگے گا جیسے آپ اسی صحراء میں صدیوں کا سفر کر رہے ہوں۔ جیسے میں نے اس ریتیلی زمین پر پاؤں رکھے تو ہر طرف آموں کے باغات، ہرے بھرے کھیت، جھلیوں کا نمکین پانی، ان میں چرتی ہوئی گائیں اور بکریاں، جھاڑیوں پر بیٹھے چہچلہاتے ہوئے سائیبیریائی پرندے، سفر کرتے نظر آئے تو وقفے وقفے سے آتی ہوئی ریت کے اونچے ٹیلوں کی قطاریں بھی آتی رہیں۔

یہاں کے لوگ کمال کے کھوجی رہے ہیں۔ ریت پر لگنے والے پاؤں کے نشانات سے پہچان لیں گے کہ یہ پاؤں شہر کے آدمی کا ہے یا کسی باہر کے۔ سانگھڑ کے صحرائی اسٹاپ سرنواری سے شمال، مشرق کا یہ علاقہ ماحولیاتی طور پر شاہوکار خطہ ہے۔ ہمارا سفر جاری رہا تو راستے میں کسی شادی سے لوٹے ہوئے مرد، عورتیں بغل میں کپڑے میں باندھے ہوئے پکے چاول اٹھاتے ہوئے ٹولیوں میں پیدل چلتے نظر آئے، آگے لکڑیوں کے غرض سے درخت کاٹتے ہوئے مرد، عورتیں اور سر پر جھیلوں سے نکالے ہوئے نمک سے بھرے برتن اٹھاتے ہوئی عورتیں نظر آئیں۔ یہاں سے کاریں اور فور ویل جیپیں بھی گزرتی ہوئی نظر آئیں لیکن مجال ہے کہ کوئی ان عورتوں کی طرف آنکھ اٹھا کے بھی دیکھے۔

اس کو تو فیمنزم کہتے ہیں، نہ کسی فائیو اسٹار میں مزے لوٹنے والی ماڈرن عوتوں کی باتوں کو۔ میں سوچتا رہا کہ اگر یہاں کولمبیا کے شاندار نوبیل لاریٹ رائٹر گارشیا مارکیز ہوتا تو یقینا ان کی محرومیوں اور اینتھرا پالوجی پر شاندار ناول لکھتا، یا امریکن افسانہ نویس ولیم فاکنر ہو تو تو میسسپی سے بھی زیادہ یہاں کی مدہم آگ جیسی حقیقتیں اپنے افسانوں میں بیان کرتا۔ اس صحرا اور ہرے بھرے کھیتوں سے امتزاج والے علاقے سے ہمارا سفر جاری رہا، کچھ جگہوں پر یہاں کے نارے کے زمینداروں کے شاندار بنگلے بھی نظر آئے، ایک پل کے لیے آپ سمجھ بیٹھیں گے، کراچی میں ڈیفنس کے علاقے میں آ گئے ہوں، لیکن پھر آگے تنکوں کے بنے گھر راستوں سے اڑتی ہوئی ریت کچھ اور ہی نظارہ پیش کر رہی تھی۔

کسی زمانے میں نارا کے یہ زمیندار غریب لوگوں کی عورتوں کو رکھیل بنا کر رکھتے اور فورویل جیپیں راستوں پر دوڑاتے، اب ان کا نشانہ کراچی کے ڈیفنس سے لے کر دبئی تک جا پہنچا ہے۔ 1985ء سے پہلے یہ علاقہ اندھیروں میں ڈوبا رہتا تھا، صحت کے معاملات مقامی خاندانی حکیم دیکھتے تو تعلیم کے لیے وہاں بنے مکتب خانوں کے آخوند۔ یوں یہ علاقہ باقی دنیا سے کٹا رہا۔ 1985ء کے بعد محمد خان جونیجو کے وزیر اعظم بننے کے بعد یہاں بجلی بھی آئی، روڈ بھی بنے، اسکول بھی تعمیر ہوئے تو یہاں کے لوگ بھی اس کے ثمرات حاصل کرنے لگے البتہ غالب اکثریت اب بھی کسمپرسی کی زندگی گزار رہی ہے۔

1990-92 ء میں جب اس علاقے میں شدید بارشیں ہوتیں تو ریت سے اتر کر جمع ہونے والے پانی نے بھی یہاں کے زمین کے آباد اکثر ٹکڑوں کو نمک کی جھلیوں میں تبدیلی کر دیا۔ باغات بھی تباہ ہوئے، پھر بھی بچ بچاؤ ہو گیا۔ ہمارے سفر کا آخر پڑاؤ یہاں کا ایک تاریخی گاؤں کنبھرو تھا۔ ٹیلوں پر موجود کچے، پکے گھر، ان کے نیچے چند دکانیں، شمال میں سفید ریت کے انگنت ٹیلے، مشرق میں نمکین پانی کی جھیل، جس میں گھاس چرتی گائیں اور بکریاں۔ اس کے تھوڑا شمال میں ایک بڑا گراؤنڈ جہاں کرکٹ اور بیڈمنٹن سے لے کر شادی و خیرات کی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ یہاں کئی سالوں سے ریڈیو سے دلچپسی رکھنے والے استاد ایم ابراہیم ہمارے میزبان تھے۔

جس کی پلائی ہوئی لسی نے مزہ دوبالا کر دیا۔ ثقافتی طور پر ماڈرن اور قدیم اسٹائل کے امتزاج والا یہ گاؤں تاریخی حوالے سے بھی اہمیت حاصل رہا ہے، یہاں کا قدیم آخوند خاندان جن کا کتب خانہ انگریز آرمی نے مارشل لا 1945-1942ء کے دوران جلا دیا لیکن قدیم مسجد مختلف فن تعمیر ات سے گزرتے ہوئے آج بھی اس جگہ، موجود ہے۔ بقول اسی آخوند خاندان کے ایک فرد کے اٹھارویں صدی میں یہ مسجد پیلوں اور کرڑ درخت کے لکڑیوں اور نیموں اور پیلوں کی چھاؤں اور کبوتروں کی بولیوں کی بیچ تنکوں کی بنی ہوئی تھی لیکن پھر مٹی کے گارے سے بنائی گئی اور اب پکی حالت میں موجود ہے لیکن آج بھی وہ تاریخی لکڑیاں وہاں محفوظ کی گئی ہیں ۔

اُس وقت اسی آخوند خاندان کے فرد میاں عبدالباقی یہاں درس وتدریس دیتے تھے۔ چند کلومیٹر دور ایک اور بھی علمی مرکز تھا ، جہاں میاں مبین کی مسجد میں سندھ کے مشہور لوک شاعر اور بزرگ عبدالرحیم گرہوڑی بھی تشریف لے آئے تھے۔ کہتے ہیں کہ سندھ کے سدابہار شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی بھی اپنی جوانی میں کئی سفر کرتے تھے، وہ بھی سفر کرتے ہوئے یہاں پہنچنے تو گرہوڑی بزرگ سے ان کی تاریخی ملاقات ہوئی جس میں روحانیت کی رموز پر باتیں ہوئیں ۔پھر وہاں سے لطیف سائیں نے کھنبھرو گاؤں کارخ کیا۔ جب اسی مسجد میں گیڑو کپڑے پہنے پہنچنے اور بقول آخوند خاندان کے ایک فرد کے سر کے نیچے قرآن پاک رکھ کرمغرب کی طرف پاؤں کرتے ہوئے مسجد میں سوتے ملے تو وہاں کے طالب علم اسے پاؤں سے گھسیٹ کر نیچے آ کے جھیل میں چھوڑ دیتے پھر وہ واپس کچھ دیر بعد اسی حالت میں مسجد تشریف لاتے پھر وہی عمل شروع ہوتا، آخر کار وہاں کے معلم نے اندازہ لگا لیا کہ یہ کوئی بزرگ ہستی ہے۔

مقامی تاریخ کے محقق نواز کنبھر نے تو اس علاقے کے حوالے سے لطیف سائیں کے تکیوں پر بھی کام کیا ہے۔ لیکن میرے لیے یہ قصہ اب بھی تحقیق طلب ہے۔ یوں جدید ریسرچ کے لوازمات پورے کیے بغیر اس کو اس طرح ماننا مشکل لگتا ہے۔ یہاں مرشد کے ثواب کے لیے عرس بھی غریب لوگوں میں بانٹا جاتا ہے جہاں رات کی چاند کی شفاف روشنی میں بیٹھ کر مقامی لوگ مولود بھی گاتے ہیں۔ ان تاریخی اشیاء اور سماجی رسومات کو دیکھنے تاریخ اور سوشل اینتھرا پالوجی کے شاگرد یہاں آتے رہتے ہیں۔ میں نے بھی ان کا جائزہ لیا، تصویریں بنائیں، تو سورج بھی اس وقت تک ڈھلنے لگا۔ یوں اس تاریخی اور ماحولیاتی مقام سے واپسی کے لیے قدم اٹھائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں