دہشت گردی کے خلاف جرات مندانہ فیصلے

یہی وقت تھا جب نواز حکومت نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے فوری طور پر جرات مند اور ٹھوس فیصلے کیے



MANCHESTER: اب وقت آ گیا ہے کہ دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ دیا جائے اور اگر اب بھی دہشت گردی کا خاتمہ نہ کیا گیا تو ہمیں آنے والی نسلیں معاف نہیں کریں گی۔ دہشت گرد جس طرح دندناتے پھر رہے ہیں اس سے ملک کی سالمیت کو بھی خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ ایسے میں سانحہ پشاور نے قوم کو شدید غم و غصے میں مبتلا کر دیا۔ 134 معصوم بچوں سمیت اساتذہ اور دیگر شہریوں کی ہلاکت نے ملک و قوم کو ہلا کر رکھ دیا اس واقعے پر حکومت، فوج اور قوم کو متحد ہونے اور فیصلہ کن جنگ کے لیے تیار کر دیا۔

یہی وقت تھا جب نواز حکومت نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے فوری طور پر جرات مند اور ٹھوس فیصلے کیے۔ ایک جانب عسکری قیادت سے مشاورت اور دوسری جانب سے پارلیمانی جماعتوں کے اجلاس میں اہم فیصلے کیے گئے۔ جن میں ایک اہم فیصلہ یہ تھا کہ اچھے اور برے طالبان کی تمیز ختم کر دی جائے گی۔ دراصل اس سے قبل بعض سیاسی جماعتیں اچھے اور برے طالبان میں تمیز کرنے کی حامی تھیں اور ان سے مذاکرات شروع کرنا چاہتی تھیں۔ جس پر حکومت طالبان سے مذاکرات کی کوششیں بھی کرتی رہی۔

بعض سیاسی رہنماؤں نے تو مذاکرات کی غرض سے طالبان کے دفاتر بھی کھولنے کی بات کی تھی۔ لیکن ان کوششوں کا نتیجہ صفر رہا اور طالبان کی جانب سے آرمی پبلک اسکول پر وحشیانہ حملے نے کھیل ختم کر دیا۔ شمالی وزیرستان میں پاک فوج پہلے ہی آپریشن ضرب عضب میں مصروف ہے اور اب اس کے لیے اس سانحے کے بعد دہشت گردی کے خلاف کارروائی کرنا اور بھی ضروری ہو گیا۔ اس سلسلے میں سیاسی اور عسکری قیادت کو پارلیمانی سیاسی جماعتوں سمیت پوری قوم کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے ایک فیصلہ یہ بھی کیا کہ سزا یافتہ دہشت گردوں کو پھانسی کی سزا فوری طور پر بحال کر دی۔ پاکستان کی جیلوں میں ہزاروں ایسے مجرم موجود ہیں جو پھانسی کی سزا کے منتظر ہیں۔

صدر زرداری کے دور حکومت میں پاکستان میں پھانسی کی سزا پر پابندی کر دی گئی تھی۔ تا کہ یورپی یونین سے مالی فوائد حاصل کیے جا سکیں۔ لیکن موجودہ حکومت میں پاکستان میں قیام امن کے لیے تمام دہشت گردوں کو بلا امتیاز پھانسی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ تا کہ مجرموں کو ان کے انجام تک پہنچایا جا سکے۔ پاکستان میں دہشت گردی کا آغاز جنرل ضیاء الحق کے دور میں ہوا تھا اور رفتہ رفتہ فرقہ وارانہ تنظیموں اور مسلح جتھے وجود میں آ گئے اور انھوں نے ریاست پر حملے شروع کر دیے دفاعی تنصیبات بھی ان سے محفوظ نہیں رہیں تھیں۔ ہزاروں شہریوں کو بے گناہ بم دھماکوں میں شہید کیا گیا۔ بچوں کے اسکولوں کو دھماکے سے اڑا دیا گیا۔ ایک عام شہری کے لیے امن و امان خواب بن کر رہ گیا تھا۔ ایسے میں دہشت گردوں کے مضبوط گڑھ شمالی وزیرستان میں فوج نے آپریشن ضرب عضب شروع کیا تو اس پر پوری قوم نے فوجی آپریشن کو سراہا۔ اس آپریشن کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر دہشت گرد افغانستان منتقل ہو گئے اور افغان سرزمین سے پاکستان پر حملے شروع کر دیے۔ بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ا ن حملوں کا اصل ماسٹر مائنڈ بھارت ہے اور وہ دہشت گردوں کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔

بہرحال صورتحال جو کچھ بھی ہو پاکستان نے اب دہشت گردی کے خاتمے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے۔ اور پھانسی کی سزاؤں پر بھی عمل درآمد شروع کر دیا گیا ہے جنرل راحیل شریف نے درست کہا ہے کہ اب دلیرانہ اور جرات مندانہ فیصلوں کا وقت آ گیا ہے انھوں نے حکومت سے کہا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف حکومت کی بھرپور مدد کر یں گے۔ موجودہ حکومت نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایک جامع ایکشن پلان تیار کیا ہے۔ جس پر پارلیمانی سیاسی جماعتوں کے اجلاس میں اتفاق رائے بھی پیدا کیا گیا۔ قبل ازیں بعض سیاسی جماعتوں نے فوجی افسر کی سربراہی میں قائم ہونے والی فوری سماعت کی خصوصی عدالتوں کے قیام پر بعض اعتراضات بھی کیے تھے لیکن گفت و شنید کے بعد یہ معاملہ بھی طے پایا گیا۔ وزیر اعظم نواز شریف کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کی حیثیت سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی قیادت کرنا میری ذمے داری ہے اور میں اس ذمے داری کو ہر قیمت پر نبھاؤں گا۔ حکومت نے دہشت گردی کے خلاف تمام پارلیمانی پارٹیوں سے مشاورت کے بعد حکومت نے ایک متفقہ اور جامع پلان ایکشن پلان تیار کیا ہے۔

جس کی خاص خاص باتیں حسب ذیل ہیں۔ فوجی افسران کی سربراہی میں اسپیشل ٹرائل کورٹس قائم کی جائیں گی۔ ان عدالتوں کی مدت دو سال ہو گی۔ ملک میں عسکری تنظیموں اور مسلح جتھوں کی اجازت نہیں ہو گی۔ انسداد دہشت گردی کے ادارے ٹیکنا کو فعال کیا جائے گا۔ نفرتیں ابھارنے، گردنیں کاٹنے اور فرقہ واریت کو فروغ دینے والے لٹریچر، اخبارات اور رسائل کے خلاف کارروائی کی جائے۔ دہشت گردی کی مالی معاونت کے تمام وسائل ختم کر دیے جائیں گے کالعدم تنظیموں کو دوسرے ناموں سے کام کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ اسپیشل اینٹی ٹیررازم فورس قائم کی جائے گی۔ اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا۔ دینی مدارس کی رجسٹریشن اور ضابطہ بندی کی جائے گی۔

الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا پر دہشت گردوں کے نظریے کی تشہیر پر پابندی ہو گی۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر دہشت گردی کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔ توقع ہے کہ دہشت گردی کے خلاف ایکشن پلان کے بنیادی نکات پر عمل درآمد کیا گیا تو یقینا اس سے پاکستان میں امن و امان کی صورت حال بہتر ہو گی اور عوام خوف و ہراس کی کیفیت سے نجات حاصل کریں گے۔ اس حوالے سے یہ خدشات بھی سامنے آئے کہ اس پلان کو سیاسی حریفوں کے خلاف استعمال کیا جائے گا لیکن حکومت نے واضح کر دیا ہے کہ یہ پلان سیاسی حریفوں کے خلاف قطعی استعمال نہیں کیا جائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں