آئو اداکار یوسف علی کو یاد کریں
ایک زمانہ تھا کہ پی ٹی وی کا طوطی بولتا تھا، کراچی مرکز کے اندر جانے کے لیے بڑی لمبی لائنیں لگی رہتی تھیں
ایک زمانہ تھا کہ پی ٹی وی کا طوطی بولتا تھا، کراچی مرکز کے اندر جانے کے لیے بڑی لمبی لائنیں لگی رہتی تھیں۔ یہ بات 1971ء کی، جب پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جنگ جاری تھی، ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی پر ملی نغمے اور ڈرامے تیار کر کے عوام میں جوش و خروش اور ولولہ پیدا کیا جا رہا تھا۔ ایک دن ایک نوجوان گوری رنگت والا جس کا نام یوسف علی تھا، اداکار ابراہیم نفیس کے ساتھ پی ٹی وی کے Reception میں داخل ہوا۔
ابھی وہ اندر جانے کا پاس بنوا ہی رہے تھے کہ وہاں سے اسسٹنٹ پروڈیوسر ذوالفقار نقوی کا گزر ہوا۔ انھوں نے یوسف علی کو دیکھتے ہی کہا کہ ڈرامے میں کام کرو گے جس پر یوسف علی نے یک دم حامی بھر لی۔ پروڈیوسر قطب آفتاب ایک تاریخی اردو ڈراما ''قطب الدین ایبک'' بنا رہے تھے جسے ذوالفقار نقوی اسسٹ کر رہے تھے یوسف علی نے اس میں چھوٹا سا کردار ادا کیا جس کے لیے اسے 70 روپے معاوضہ دیا گیا اور اردو اور سندھی Plays میں کام ملنا شروع ہو گیا۔
سندھی پلے بینسر ادل جی (Bensar Adal Jee) میں پروڈیوسر منظور قریشی نے اسے اچھا رول کروایا جس سے وہ ہٹ ہو گئے۔ اس کے بعد ہارون رند کی سیریل ''خان صاحب'' میں یوسف علی کو ٹائٹل رول دیا گیا۔ اس سندھی سیریل میں انھوں نے ایک لندن (Return) دیہاتی کا رول ادا کیا جس میں وہ بات بات پر انگریزی بول کر گاؤں والوں کو متاثر کرتا ہے اس کی بیوی کا رول سکینہ سموں نے ادا کیا۔ جب کہ دیگر فنکاروں میں نور محمد لاشاری، صلاح الدین تنیو اور دوسرے معروف فنکار شامل تھے۔ یہ سیریل اتنی کامیاب ہو گئی کہ اسے کمرشل ملنا شروع ہوئے اور ان سندھی ڈراموں کے ذریعے بھی پی ٹی وی کو بڑا فائدہ پہنچا۔
خان صاحب کی کامیابی اور اچھا اسکرپٹ دیکھ کر پی ٹی وی نے اس سیریل کو اردو میں ''چھوٹی سی دنیا'' بنا کر ریکارڈ کیا جس نے پورے پاکستان اور پاکستان سے باہر کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے۔ اب یوسف علی سندھی کے ساتھ اردو ڈراموں کا بڑا فنکار بن گیا اس سیریل کی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ اس وقت کے پاکستان کے صدر ضیا الحق نے ''چھوٹی سی دنیا '' کے یوسف علی، ساتھی فنکاروں اور ٹیم کے باقی لوگوں کو اسلام آباد دعوت دے کر بلایا اور انھیں انعام و اکرام سے نوازا، یوسف علی نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ سندھی میں خان صاحب کے کردار کو نبھاتے اس نے اپنی آواز کو اونچا رکھا مگر اردو میں اسی کردار کے لیے اپنے آواز کو دھیما رکھا جو زبان کے حساب سے ضرورت تھی اور اس کا یہ فلسفہ کا کامیاب ہو گیا۔
اس کے بعد ہارون رند نے سندھی ڈرامہ سیریل ''رانی جی کہانی'' پروڈیوس کیا اس نے بھی بڑی کامیابی حاصل کی اور اسے بھی اردو میں ریکارڈ کیا گیا اس سیریل میں یوسف علی نے رانی کے بھائی کا کردار ادا کیا جو بہت اچھے مکالمے اور کردار نگاری کی وجہ سے ہٹ ہو گیا اب سندھی اردو پلے اور سیریل میں یوسف علی کا ہونا لازم ہو گیا تھا اور کامیابی یقینی سمجھی جاتی تھی کیوں کہ یوسف علی کو فن سے جنون کی حد تک عشق تھا وہ ہر کردار کو بغور پڑھتے تھے اور اس کردار کی ڈریسنگ، میک اپ، بولنے کا لہجہ، مکالموں کی ادائیگی کو وقت کے ساتھ ادا کرنا پروڈیوسر اور رائٹر کے ساتھ Discuss کرتے تھے اور اس کے علاوہ کیمرہ مین اور میک اپ والوں سے بھی کردار کی اہمیت اور انداز کے بارے میں مشورہ لینا ضروری سمجھتے تھے۔
سندھی ڈراموں میں گلن جی چھوکری، تماشہ، تلاش، دنیا دیوانی اور اردو ڈراموں میں قہقہوں کا شہر، پگھلتی ہوئی برف، انتہا وغیرہ بھی اس کے اچھے کھیل اور ڈراما سیریل ہیں۔ اس نے محمد بخش سمیجو، تاجدار عادل، سائرہ کاظمی کے ساتھ بھی کام کیا اور ان سے بہت کچھ سیکھا۔ یوسف علی ایک ٹیکنیکل اداکار تھا جو اپنے کردار کو ہر زاویے سے دیکھتے تھے اس میں یہ خوبی تھی کہ وہ فلم ہو یا پھر ڈراما ہالی ووڈ اور لالی ووڈ کی بنائی ہوئی پراڈکٹ کو بغور دیکھتے تھے جس میں اداکاری، ایڈیٹنگ، کیمرہ ورک، میوزک، صوتی اثرات وغیرہ شامل ہوتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ جب کوئی پروڈیوسر کیمرہ مین یا ایڈیٹر کہیں ٹیکنیکل کام میں پھنس جاتا تھا تو وہ یوسف علی سے مدد لیتا تھا۔
یوسف علی نے اپنے فن کی ابتدا اسٹیج ڈراموں سے کی تھی اور حیدرآباد شہر میں کچھ اسٹیج ڈرامے کیے اس کے بعد کراچی میں بھی سندھی اردو اسٹیج ڈراموں میں حصہ لیا۔ یوسف علی کی بھی عجیب و غریب کہانی ہے کہ اس نے فلموں میں کام کرنے کے شوق کی وجہ سے حیدرآباد میں فلمی بورڈ پینٹ کرنا سیکھا تاکہ بڑے اداکار سے ملاقات ہوجائے جو اسے فلمی دنیا تک لے جائے۔ یوسف علی جب حیدرآباد سے کراچی شفٹ ہوا تو اس نے فلمی اسٹوڈیوز کا رخ کیا کیوں کہ اس زمانے میں کراچی فلمی صنعت عروج پر تھی جہاں سندھی اور اردو زبانوں میں بے تحاشہ فلمیں بن رہی تھیں۔
اس نے اداکاری کے بجائے فلموں میں ہیروز کے ڈپلیکیٹ اور فائٹر کا کام شروع کیا۔ اس نے اداکار کمال، وحید مراد اور بدرمنیر کے ڈپلیکیٹ رول بھی کیے۔ ایک دن اداکار کمال کا ڈپلیکیٹ کرنے میں اسے ایک عمارت پر پانی کے پائپ کے ذریعے اوپر جانا تھا۔ شوٹنگ کے دوران وہ پائپ ٹوٹ گیا اور وہ سیدھے نیچے کی طرف آنے لگے۔ یہ دیکھ کر فلم کے ہدایت کار بے ہوش ہو گئے کہ اب بندہ مر جائے گا اور خون ان کے گلے میں پڑ جائے گا۔ اب ہوا یہ کہ یوسف علی کا ہاتھ دوسرے پائپ پر پڑ گیا اور وہ گرنے سے بچ گیا۔ اس واقعے کے بعد اس نے یہ Duplicate کا رول ادا کرنا بند کر دیے کیوں کہ ساری ٹیم کے لوگ ہدایت کار کی طرف لپکے۔
اس کے بعد انھیں سندھی فلم سندھڑی تاں صدقے، مٹھڑا شال ملن، جیجل ما اور ''غیرت'' میں سائیڈ ولن کے رول کیے اور اردو فلموں میں انسان اور گدھ ، روپ بہروپ، دل والے، آخری حملہ وغیرہ شامل تھیں، فلموں میں اسے کوئی خاص رول نہیں ملے اس لیے اس نے پھر ٹی وی کا رخ کیا۔
عورت کا بڑا احترام کرتے تھے۔ انھوں نے شادی ایک کرسچن بیوہ سے کی جو سندھ سیکریٹریٹ میں چیف ٹیلی فون آپریٹر تھی اور اس کے چار بچے تھے۔ وہ جب پی ٹی وی پر Singing کا پروگرام کرنے آتی تھیں جہاں پر ان کی ملاقات یوسف علی سے ہو گئی دونوں میں ذہنی ہم آہنگی ہوئی اور خانم نے اسلام قبول کیا اور یوسف علی سے شادی رچائی۔ یہ یوسف کی بڑائی تھی کہ اس نے کبھی بھی دوسری شادی کی خواہش نہیں کی، حالانکہ بیوی سے اپنی کوئی اولاد پیدا نہیں ہوئی تھی بلکہ یوسف نے اپنی بیوی کے بچوں کو اپنا ہی سمجھا۔
یوسف پر لکھنے کے لیے جب مجھے مواد کی ضرورت پڑی تو مجھے یاد آیا کہ 1980ء میں میری ملاقات اس کے گھر پر ہوئی تھی جہاں مجھے میرے ساتھ کام کرنے والے جارج اسٹیفن مجھے لے گیا تھا جس نے بتایا تھا کہ وہ بھی وہاں رہتا ہے اور وہ یوسف کی بیوی کا بیٹا ہے۔ میں ڈھونڈتا ہوا مارٹن کوارٹرز جسے جہانگیر کوارٹرز بھی کہتے ہیں وہاں پہنچ گیا، میری ملاقات جارج سے بھی ہوئی اور اس کی ماں سے بھی جو بیمار پڑی تھیں۔ افسوس یہ ہے کہ یوسف کی موت کے بعد کسی نے بھی مڑ کر اس کی طرف نہیں دیکھا ۔
یوسف علی تھرپارکر کے ایک گاؤں جھڈو کا رہنے والا تھا۔ اپنے ماں باپ کے مرجانے کے بعد اس نے اسلام قبول کیا اور آرائیں خاندان کے ساتھ حیدرآباد چلا آیا اس وقت اس کی عمر شاید 12 سال تھی جنھوں نے اب یوسف کو پالنا شروع کیا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ یوسف پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بنے کیوں کہ ان کے ہاں کوئی اپنی اولاد نہیں تھی۔ اب یوسف علی صبح کو اسکول جاتا تھا اور شام کو اپنے باپ کے ساتھ میکنیک گیراج شاپ پرگاڑیاں ٹھیک کرنے کا کام سیکھتا تھا۔ اس کے پالنے والے ماں باپ کے انتقال کے بعد وہ کراچی شفٹ ہو گیا او ڈیفنس کے علاقے میں ایک گاڑیوں ورکشاپ کھول لی۔
یوسف علی کی تاریخ پیدائش کا کچھ پتہ نہیں چل سکا مگر مرنے کی تاریخ بڑی منحوس ہو کر خوشیوں کو ڈس گئی تھی۔ 22 اکتوبر 1993ء کا دن تھا یوسف علی حیدرآباد میں ایک تقریب میں شرکت کے لیے تیار ہو رہے تھے۔ حیدرآباد میں ایک سماجی تنظیم نے سائرہ کاظمی کی ڈرامہ سیریل ''نجات'' کی کامیابی پر ایک Reception رکھا تھا جہاں پروڈیوسر، فنکار اور ٹیم کے لوگ جا رہے تھے۔ یوسف علی نے کپڑے پریس کرتے ہوئے اپنی طبیعت کو بگڑتا پایا اور گر گئے اتنے میں گھر والے اسے اسپتال لے کر گئے مگر راستے میں ہی اس کی سانس کی ڈوری ٹوٹ گئی۔ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پی ٹی وی پر پھر پاکستان میں پھیل گئی۔ پروگرام Cancel ہوگیا اور سب لوگ جی ایم پی ٹی وی کراچی مرکز عبدالکریم سمیت پروڈیوسر، فنکار اور دوسرے ٹیکنیکل لوگ یوسف علی کے گھر پہنچ گئے۔ گھر کے قریب والی مسجد میں نماز جنازہ پڑھائی گئی اور اسے تین ہٹی کے قریب قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔
ابھی وہ اندر جانے کا پاس بنوا ہی رہے تھے کہ وہاں سے اسسٹنٹ پروڈیوسر ذوالفقار نقوی کا گزر ہوا۔ انھوں نے یوسف علی کو دیکھتے ہی کہا کہ ڈرامے میں کام کرو گے جس پر یوسف علی نے یک دم حامی بھر لی۔ پروڈیوسر قطب آفتاب ایک تاریخی اردو ڈراما ''قطب الدین ایبک'' بنا رہے تھے جسے ذوالفقار نقوی اسسٹ کر رہے تھے یوسف علی نے اس میں چھوٹا سا کردار ادا کیا جس کے لیے اسے 70 روپے معاوضہ دیا گیا اور اردو اور سندھی Plays میں کام ملنا شروع ہو گیا۔
سندھی پلے بینسر ادل جی (Bensar Adal Jee) میں پروڈیوسر منظور قریشی نے اسے اچھا رول کروایا جس سے وہ ہٹ ہو گئے۔ اس کے بعد ہارون رند کی سیریل ''خان صاحب'' میں یوسف علی کو ٹائٹل رول دیا گیا۔ اس سندھی سیریل میں انھوں نے ایک لندن (Return) دیہاتی کا رول ادا کیا جس میں وہ بات بات پر انگریزی بول کر گاؤں والوں کو متاثر کرتا ہے اس کی بیوی کا رول سکینہ سموں نے ادا کیا۔ جب کہ دیگر فنکاروں میں نور محمد لاشاری، صلاح الدین تنیو اور دوسرے معروف فنکار شامل تھے۔ یہ سیریل اتنی کامیاب ہو گئی کہ اسے کمرشل ملنا شروع ہوئے اور ان سندھی ڈراموں کے ذریعے بھی پی ٹی وی کو بڑا فائدہ پہنچا۔
خان صاحب کی کامیابی اور اچھا اسکرپٹ دیکھ کر پی ٹی وی نے اس سیریل کو اردو میں ''چھوٹی سی دنیا'' بنا کر ریکارڈ کیا جس نے پورے پاکستان اور پاکستان سے باہر کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے۔ اب یوسف علی سندھی کے ساتھ اردو ڈراموں کا بڑا فنکار بن گیا اس سیریل کی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ اس وقت کے پاکستان کے صدر ضیا الحق نے ''چھوٹی سی دنیا '' کے یوسف علی، ساتھی فنکاروں اور ٹیم کے باقی لوگوں کو اسلام آباد دعوت دے کر بلایا اور انھیں انعام و اکرام سے نوازا، یوسف علی نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ سندھی میں خان صاحب کے کردار کو نبھاتے اس نے اپنی آواز کو اونچا رکھا مگر اردو میں اسی کردار کے لیے اپنے آواز کو دھیما رکھا جو زبان کے حساب سے ضرورت تھی اور اس کا یہ فلسفہ کا کامیاب ہو گیا۔
اس کے بعد ہارون رند نے سندھی ڈرامہ سیریل ''رانی جی کہانی'' پروڈیوس کیا اس نے بھی بڑی کامیابی حاصل کی اور اسے بھی اردو میں ریکارڈ کیا گیا اس سیریل میں یوسف علی نے رانی کے بھائی کا کردار ادا کیا جو بہت اچھے مکالمے اور کردار نگاری کی وجہ سے ہٹ ہو گیا اب سندھی اردو پلے اور سیریل میں یوسف علی کا ہونا لازم ہو گیا تھا اور کامیابی یقینی سمجھی جاتی تھی کیوں کہ یوسف علی کو فن سے جنون کی حد تک عشق تھا وہ ہر کردار کو بغور پڑھتے تھے اور اس کردار کی ڈریسنگ، میک اپ، بولنے کا لہجہ، مکالموں کی ادائیگی کو وقت کے ساتھ ادا کرنا پروڈیوسر اور رائٹر کے ساتھ Discuss کرتے تھے اور اس کے علاوہ کیمرہ مین اور میک اپ والوں سے بھی کردار کی اہمیت اور انداز کے بارے میں مشورہ لینا ضروری سمجھتے تھے۔
سندھی ڈراموں میں گلن جی چھوکری، تماشہ، تلاش، دنیا دیوانی اور اردو ڈراموں میں قہقہوں کا شہر، پگھلتی ہوئی برف، انتہا وغیرہ بھی اس کے اچھے کھیل اور ڈراما سیریل ہیں۔ اس نے محمد بخش سمیجو، تاجدار عادل، سائرہ کاظمی کے ساتھ بھی کام کیا اور ان سے بہت کچھ سیکھا۔ یوسف علی ایک ٹیکنیکل اداکار تھا جو اپنے کردار کو ہر زاویے سے دیکھتے تھے اس میں یہ خوبی تھی کہ وہ فلم ہو یا پھر ڈراما ہالی ووڈ اور لالی ووڈ کی بنائی ہوئی پراڈکٹ کو بغور دیکھتے تھے جس میں اداکاری، ایڈیٹنگ، کیمرہ ورک، میوزک، صوتی اثرات وغیرہ شامل ہوتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ جب کوئی پروڈیوسر کیمرہ مین یا ایڈیٹر کہیں ٹیکنیکل کام میں پھنس جاتا تھا تو وہ یوسف علی سے مدد لیتا تھا۔
یوسف علی نے اپنے فن کی ابتدا اسٹیج ڈراموں سے کی تھی اور حیدرآباد شہر میں کچھ اسٹیج ڈرامے کیے اس کے بعد کراچی میں بھی سندھی اردو اسٹیج ڈراموں میں حصہ لیا۔ یوسف علی کی بھی عجیب و غریب کہانی ہے کہ اس نے فلموں میں کام کرنے کے شوق کی وجہ سے حیدرآباد میں فلمی بورڈ پینٹ کرنا سیکھا تاکہ بڑے اداکار سے ملاقات ہوجائے جو اسے فلمی دنیا تک لے جائے۔ یوسف علی جب حیدرآباد سے کراچی شفٹ ہوا تو اس نے فلمی اسٹوڈیوز کا رخ کیا کیوں کہ اس زمانے میں کراچی فلمی صنعت عروج پر تھی جہاں سندھی اور اردو زبانوں میں بے تحاشہ فلمیں بن رہی تھیں۔
اس نے اداکاری کے بجائے فلموں میں ہیروز کے ڈپلیکیٹ اور فائٹر کا کام شروع کیا۔ اس نے اداکار کمال، وحید مراد اور بدرمنیر کے ڈپلیکیٹ رول بھی کیے۔ ایک دن اداکار کمال کا ڈپلیکیٹ کرنے میں اسے ایک عمارت پر پانی کے پائپ کے ذریعے اوپر جانا تھا۔ شوٹنگ کے دوران وہ پائپ ٹوٹ گیا اور وہ سیدھے نیچے کی طرف آنے لگے۔ یہ دیکھ کر فلم کے ہدایت کار بے ہوش ہو گئے کہ اب بندہ مر جائے گا اور خون ان کے گلے میں پڑ جائے گا۔ اب ہوا یہ کہ یوسف علی کا ہاتھ دوسرے پائپ پر پڑ گیا اور وہ گرنے سے بچ گیا۔ اس واقعے کے بعد اس نے یہ Duplicate کا رول ادا کرنا بند کر دیے کیوں کہ ساری ٹیم کے لوگ ہدایت کار کی طرف لپکے۔
اس کے بعد انھیں سندھی فلم سندھڑی تاں صدقے، مٹھڑا شال ملن، جیجل ما اور ''غیرت'' میں سائیڈ ولن کے رول کیے اور اردو فلموں میں انسان اور گدھ ، روپ بہروپ، دل والے، آخری حملہ وغیرہ شامل تھیں، فلموں میں اسے کوئی خاص رول نہیں ملے اس لیے اس نے پھر ٹی وی کا رخ کیا۔
عورت کا بڑا احترام کرتے تھے۔ انھوں نے شادی ایک کرسچن بیوہ سے کی جو سندھ سیکریٹریٹ میں چیف ٹیلی فون آپریٹر تھی اور اس کے چار بچے تھے۔ وہ جب پی ٹی وی پر Singing کا پروگرام کرنے آتی تھیں جہاں پر ان کی ملاقات یوسف علی سے ہو گئی دونوں میں ذہنی ہم آہنگی ہوئی اور خانم نے اسلام قبول کیا اور یوسف علی سے شادی رچائی۔ یہ یوسف کی بڑائی تھی کہ اس نے کبھی بھی دوسری شادی کی خواہش نہیں کی، حالانکہ بیوی سے اپنی کوئی اولاد پیدا نہیں ہوئی تھی بلکہ یوسف نے اپنی بیوی کے بچوں کو اپنا ہی سمجھا۔
یوسف پر لکھنے کے لیے جب مجھے مواد کی ضرورت پڑی تو مجھے یاد آیا کہ 1980ء میں میری ملاقات اس کے گھر پر ہوئی تھی جہاں مجھے میرے ساتھ کام کرنے والے جارج اسٹیفن مجھے لے گیا تھا جس نے بتایا تھا کہ وہ بھی وہاں رہتا ہے اور وہ یوسف کی بیوی کا بیٹا ہے۔ میں ڈھونڈتا ہوا مارٹن کوارٹرز جسے جہانگیر کوارٹرز بھی کہتے ہیں وہاں پہنچ گیا، میری ملاقات جارج سے بھی ہوئی اور اس کی ماں سے بھی جو بیمار پڑی تھیں۔ افسوس یہ ہے کہ یوسف کی موت کے بعد کسی نے بھی مڑ کر اس کی طرف نہیں دیکھا ۔
یوسف علی تھرپارکر کے ایک گاؤں جھڈو کا رہنے والا تھا۔ اپنے ماں باپ کے مرجانے کے بعد اس نے اسلام قبول کیا اور آرائیں خاندان کے ساتھ حیدرآباد چلا آیا اس وقت اس کی عمر شاید 12 سال تھی جنھوں نے اب یوسف کو پالنا شروع کیا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ یوسف پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بنے کیوں کہ ان کے ہاں کوئی اپنی اولاد نہیں تھی۔ اب یوسف علی صبح کو اسکول جاتا تھا اور شام کو اپنے باپ کے ساتھ میکنیک گیراج شاپ پرگاڑیاں ٹھیک کرنے کا کام سیکھتا تھا۔ اس کے پالنے والے ماں باپ کے انتقال کے بعد وہ کراچی شفٹ ہو گیا او ڈیفنس کے علاقے میں ایک گاڑیوں ورکشاپ کھول لی۔
یوسف علی کی تاریخ پیدائش کا کچھ پتہ نہیں چل سکا مگر مرنے کی تاریخ بڑی منحوس ہو کر خوشیوں کو ڈس گئی تھی۔ 22 اکتوبر 1993ء کا دن تھا یوسف علی حیدرآباد میں ایک تقریب میں شرکت کے لیے تیار ہو رہے تھے۔ حیدرآباد میں ایک سماجی تنظیم نے سائرہ کاظمی کی ڈرامہ سیریل ''نجات'' کی کامیابی پر ایک Reception رکھا تھا جہاں پروڈیوسر، فنکار اور ٹیم کے لوگ جا رہے تھے۔ یوسف علی نے کپڑے پریس کرتے ہوئے اپنی طبیعت کو بگڑتا پایا اور گر گئے اتنے میں گھر والے اسے اسپتال لے کر گئے مگر راستے میں ہی اس کی سانس کی ڈوری ٹوٹ گئی۔ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پی ٹی وی پر پھر پاکستان میں پھیل گئی۔ پروگرام Cancel ہوگیا اور سب لوگ جی ایم پی ٹی وی کراچی مرکز عبدالکریم سمیت پروڈیوسر، فنکار اور دوسرے ٹیکنیکل لوگ یوسف علی کے گھر پہنچ گئے۔ گھر کے قریب والی مسجد میں نماز جنازہ پڑھائی گئی اور اسے تین ہٹی کے قریب قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔