
کھلاڑی سمیت پور ے اسٹیڈیم میں خوف کے آثار خاموشی بھرے منظر میں صاف دکھائی دے رہے تھے، کھلاڑی پرسارا پریشر تھا، اس نے بھی ٹھان لی کے کسی بھی طرح یہ آج ایک رن تو لازمی بنائے گا، اس نے آنکھیں بند کیں ،گہرا لمبا سانس لیا اور خوف کا گھونٹ حلق سے نیچے اُتارا، امپائر نے گیم شروع کرنے کا اشارہ دیا، بالر نے بھی جیت اپنے نام کرنی تھی لہذا س نے اپنی رفتار کو دگنا کیا اور پہلے سے زیا دہ خطرناک بائونسر دے مارا، گیند کھلاڑی کے کان کو چھوتے ہوئے گولی کی رفتار سے نکل گئی، کھلاڑی کے کان میں سیٹی بجنے لگی۔
اب 2 گیند رہ گئیں تھں۔ حوصلے پہلے ہی پست تھے جو اس باؤنسر کے بعد مزید ''ڈیڈ لیول '' کراس کرگئے، کھلاڑی نے اپنا بھاری بھرکم وزن سنبھالا اورایک بار پھر ''کریز'' پر جم کر کھڑا ہوگیا، اس نے تماشائیوں کی جانب دیکھا توتماشائی ایک ایک کر کے اسٹیڈیم سے جا رہے تھے، اس نے اپنا مکمل دھیان کھیل کی جانب کر دیا، اس نے کسی بھی قیمت پر ایک رن لازمی لینا تھا، ایک بار پھر بالر نے ڈوڑ لگائی اور اپنے بائونسر کو خطرنا ک اندز میں ڈالا، اس بار گیند کھلاڑی کے بلے پر چڑھ گئی، کھلاڑی نے پوری طاقت سے شاٹ کھیلا، گیند بلے کو چھوتے ہی اس نے ڈوڑ لگانا شروع کردی، وہ اپنے وزن کی وجہ سے چاہ کر بھی تیز نہیں بھاگ پا رہا تھا ی۔ وہ ایک جگہ لڑکھڑایا اور پھر خود کو سنبھالتا سنبھالتا کریز کی جانب دوڑ نے لگا ، پھر راستے میں گر گیا، پھر اٹھا اور پھر بھاگا مگر پھر گر گیا۔ اس کا پائو بری طرح مڑ چکا تھا، لیکن اس نے پروا نہ کی اور یہ ایک بار پھر اٹھ کر دوڑنے لگا۔ وہ پائوں میں موچ کی وجہ سے یہ کریز کے بہت قریب گرا، اس کی آنکھوں کے سامنے کریز کی سفید لکیر تھی اور اس نے اس کو ہر قیمت چھونا تھا، اس نے ساری طاقت جمع کی اور زمین سے رگڑتا ہوا آخر کار اس لکیر کو چھو ہی لیا۔
پورا اسٹیڈیم حیران تھا، ایک لمبی خاموشی کے بعد تماشائیوں نے خاموشی کو توڑا اور شور و غل کرتے ہوئے میدان میں گھس گئے۔ زمین پر پڑا کھلاڑی خوش تھا اور دور بھری مسکان کے ساتھ اسی بات پر مسکرا رہا تھا کہ اس نے آخر کا ر ایک رن بنا ہی لیا، اس کی حیرت میں مزید اضافہ ہوا کہ جب اس نے اسٹیڈیم میں تماشائیوں کو اپنی طرف آتے دیکھا، اس کی مسکان پریشانی میں تبدیل ہوگئی ، جب اس نے میدان میں نظریں ڈوڑائیں تو اس کے دوست کھلاڑی بھی اس کی جانب بڑھ رہے تھے ، اس کا بھاری بھرکم جسم تماشائیوں نے اپنے کاندھوں پر اٹھا لیا تھا، اس نے اسکور بورڈ پر اپنی نظر کی تو اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا۔ اس نے امید کی تھی کہ یہ ایک رن بنالے گا جو کہ اس کے لئے کافی ہے، مگر اس نے ایک رن کی بجائے 6بنا دئے تھے،اس نے چھکا لگا دیا تھا۔
یہ بظاہر ایک معمولی سا واقعہ ہے، لیکن اس میں کامیابی کا قیمتی راز پوشیدہ ہے۔ کھلاڑی کی ساری امیدیں اس ایک رن سے ہی وابسطہ تھیں اس نے یہ سوچ لیا تھا کہ اس کی کامیابی اسی میں ہے کہ وہ ایک رن بنا لے، مگر اکثر اوقات ہم کچھ اتنا بڑا کر جاتے ہیں کہ ہمیں معلوم تک نہیں ہوتا کہ ہم نے کیا کچھ کر دیا ہے، ہم اس چھوٹی سی کامیابی کو ہی سب کچھ سمجھ کربیٹھتے رہتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ ہم نے بہت بڑا کارنا مہ انجام دے دیا ہے۔ہمیں اپنی محدود سوچ کو بڑھانا ہوگا، ہمیں اپنی کامیابی کا دائرہ بڑھانا ہوگا، اگر ہم یہ سوچ لیں کہ جتنا کامیاب ہونا تھا ہو چکے میری سات پشتیں بیٹھ کر کھا سکتی ہیں تو یہیں سے آپ کا زوال شروع ہوجائے گا۔ یا اگر ہم اس بات کو مان لیں کہ کامیابی کی کوئی حد ہوتی ہے تو یقین مانیں آج دنیا پتھر کے دور سے آگے نہیں بڑھ پا تی۔
ہم بل گیٹس کی زندگی کو سامنے رکھتے ہیں، اگر بل گیٹس بھی اس بات پر خوش ہوجاتا کہ اس نے کامیابی حاصل کرلی ہے اور اب اسے کوئی غرض نہیں تو آج ہم ایک عظیم ٹیکنالوجی سے محروم رہتے، بل گیٹس کی ضروریات 1984ء میں ہی پوری ہوگئیں تھیں، پھر اسے مائیکرو سافٹ بنانے اور 14برس تک دنیاکے امیر ترین شخص رہنے کی کیا ضرورت تھی؟ لیکن حقیقت یہ ہے اگر بل گیٹس 1984ء میں ہی اپنی کامیابی کوہی سب کچھ سمجھ لیتا اور اسی کا جشن مناتے رہتا تو سافٹ ویئر کا بزنس شروع ہی نہ ہوتا، دنیا میں 5 ٹریلین ڈالر کی نئی انڈسٹری جنم نہ لیتی اور پچاس کروڑ لوگوں کی روزی روٹی کا بندوبست نہ ہوتا، بل گیٹس اس حقیقت سے وا قف تھا کہ کامیابی کی کوئی حد نہیں، یہ ایک مستقل سفر ہے، چناچہ اس نے اپنے ساتھ 245 ممالک کے نوجوانوں کے لئے کام اور رزق کا سلسلہ کھول دیا۔
آپ اپنی زندگی میں ایک فارمولا شامل کر لیں، آپ اس کے بہت مثبت نتائج اپنی زندگی میں دیکھ سکتے ہیں، آپ ایک کاغذ لیں اوراس پر ایک چھوٹا دائرہ بنائیں، اس کے ساتھ ہی ایک بڑا دائرہ بنائیں، اب یہ چھوٹا دائرہ آپ کی کامیابی ہے، اوریہ بڑا دائرہ دنیا کے کامیاب لوگوں کی کامیابی ہے، آپ اس کی دوڑ میں لگ جائیں ، آپ دیکھیں گے کہ آپ کامیابی کی سیڑھی پر ایک کے بعد ایک قدم رکھتے چلے جائیں گے۔ بس یاد رہے دائرہ کا کوئی کنارہ نہیں ہوتا، یہ بس پھیلتا چلا جاتاہے۔
کیا پتا آپ بھی اس دوڑ میں 6 رن اسکور کر لیں ۔ واصف علی واصف نے بھی کیا خوب کہا ہے۔
چلے ہو ساتھ تو ہمت نا ہارنا واصف
کہ منزلوں کا تصور میرے سفر میں نہیں
(نوٹ؛ مذکورہ بالہ واقعہ سن 2002ء میں Jeremy Brown نامی امریکی ''بیس بال'' کھلاڑی کے ساتھ پیش آیا، اس میچ میں Jeremy Brownامریکی بیس بال ٹیم Visalia Oaks کی جانب سے کھیل رہے تھے، اس واقعے کو کرکٹ میں تبدیل کر نے کا مقصد اپنے قارئین کو آسانی سے بات کامتن سمجھانا تھا، شکریہ )
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔