افکار کا تصادم

مشرقی پاکستان کےالگ ہونے کے بعد باقی ماندہ پاکستان کا سیاسی کلچر ہی بدل گیا اورنظریات کا تصادم آمنے سامنے نظر آنے لگا۔

anisbaqar@hotmail.com

دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد نئے ممالک وجود میں آنے کے سال تھے۔ ان ہی دنوں پاک و ہند بھی آزاد ہوئے۔ گو کہ ان دنوں دنیا میں قوم پرستی اور سوشلزم کی تحریک چل رہی تھی مگر برصغیر خون آلود تھا۔ بھارت میں سوشلسٹوں کا غلبہ تھا، ایک طرف توخود پنڈت جواہر لعل نہرو جو خود سوشلسٹوں کے حامی تھے مگر ان کا سوشلزم جاگیرداری کے خاتمے پر ہی ختم ہو گیا اور بعض قوم پرستی تک۔ مگر قائداعظم کو زندگی نے مہلت نہ دی اس لیے پاکستان کا بنیادی ڈھانچہ نہ بن سکا۔

پاکستان میں ابتدا کے دس بارہ برس تک سوشلسٹوں اور مسلم لیگیوں میں خاصا تصادم رہا۔ اور تحریکوں میں ان کا پلہ بھاری رہا۔ بلکہ 1968-70ء کی تحریک پر سوشلسٹوں کے اثرات موجود تھے مگر یہ تحریک چین میں چلنے والے ماؤزے تنگ کے فلسفہ کہ بندوق کی نالی اقتدار کا سرچشمہ ہے، سے مختلف تھی۔ یہ متوسط غریب اور مزدور طبقات کی تحریک اور دانشوروں کی تحریک تھی۔

1947ء سے بھارت سے آئے ہوئے دانشور سجاد ظہیر نے اس کی بنیاد رکھی تھی۔ کراچی دارالسلطنت اور تحریکوں کا مرکز تھا ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو ایوب خان نے پنڈی سازش کیس کی اطلاع دی اور ملک میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگائی گئی یعنی پہلی کالعدم پارٹی مگر جیسا کہ بتایا گیا کہ اس میں حکومت پر قابض ہونے کی پوری صلاحیت موجود ہے تو اس کو سختی سے نمٹا گیا اور بہت سے رہنما زیر زمین چلے گئے جو ہاتھ آتے وہ نابود ہی ہو جاتے۔ حسن ناصر بھی ان ہی میں سے ایک تھے جو لاہور قلعہ میں شہید ہوئے۔ امام علی نازش جو سجاد ظہیر کے بعد پارٹی کے سربراہ تھے وہ تقریباً 25 برس زیر زمین رہے اور اسی دوران نارتھ ناظم آباد کراچی میں فاروق اعظم مسجد کے قریب ایک گاڑی کی سیٹ بنانے والے کی کھولی میں مقیم تھے، ایک مرتبہ میں وہاں گاڑی کی سیٹ بنوانے گیا تھا، دوپہر کا وقت تھا دکاندار نے کہا بھائی! سائیڈ پر ذرا اندر کی طرف بیٹھ جاؤ۔ جب میں دکاندار کے کہنے پر ذرا اندر ہٹ کے بیٹھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اردو ادب، انگریزی، فارسی کی سیکڑوں کتب موجود ہیں۔

میں نے اس دکاندار سے پوچھا کہ یہاں کون رہتا ہے تو اس نے کہا مولانا صاحب رہتے ہیں۔ مسجد میں آتے جاتے ہیں، نمازی ہیں، کچھ دنوں بعد اخبار میں ان کے انتقال کی خبر آئی۔ اور انتقال کا محل وقوع وہی تھا اور موصوف کو سخی حسن کے قبرستان میں دفن کر دیا گیا۔ اس کے بعد سے عملی طور پر پارٹی سے پابندی اٹھا لی گئی اور سیکڑوں سوشلسٹ پارٹیاں بن گئیں۔ قیام پاکستان کے وقت سوشلسٹ عناصر مسلم لیگ میں بھی شامل ہو گئے تھے تا کہ پارٹیوں کے فکری محاذ پر قبضہ کریں مگر مذہبی تنظیموں کا قیامِ پاکستان میں کوئی کردار نہ تھا، مسلم لیگ کی نااہلی اور ناقص کارکردگی، عالمی پیمانے پر ترقی پسند تحریک کا زور و شور، اقبال، جوش، فیض اور دیگر شعرا کے کلام نے اس تحریک کو جلا بخشی۔ مسلم لیگ نے کمیونسٹوں کو کرش کرنے کا جامع اور مضبوط پلان بنایا خواہ وہ سویلین حکومت ہو یا فوجی۔ ایوب خان کے دور میں یہ پروگرام تیز تر ہو گیا۔


ایوب خان نے کراچی سے دارالسلطنت اسلام آباد منتقل کر دیا، ان ہی دنوں فکری، نظری، تحریری اور تقریری طور پر سوشلزم کو نظریہ پاکستان سے متصادم کہا گیا۔ چونکہ عالمی پیمانے پر خرچ اور اسلامی مسالک کو ان دنوں قریب لایا گیا اور سوشلزم کے خلاف تل ابیب سے لے کر پولینڈ اور اسلامی ریاستوں میں سوویت یونین کے خلاف متحدہ محاذ وجود میں آنے لگے، یہ فکری تصادم پاکستان میں بھی بڑھتا گیا یہاں تک کہ این آر او کے بعد پاکستان میں جو حکومتیں قائم ہوئیں، ان کے ادوار میں وہ حکومتیں قائداعظم کے پاکستان سے بالکل مختلف تھیں۔ رفتہ رفتہ غیر مسلموں کی تو بات دور کی، مسالک میں باہمی کشمکش شروع ہونے لگی، مگر یہ کشمکش ذوالفقار علی بھٹو کے دور تک نہ تھی کیونکہ ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کی سوشلسٹ اور کمیونسٹ پارٹیوں کا بویا کاٹ رہے تھے۔ مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو سے یہ غلطی ہوئی کہ انھوں نے شہنشاہ ایران کے کہنے پر جو امریکا کے حلیف تھے، بلوچستان میں کارروائی کی ۔

ضیا الحق کی نظریاتی قوت ایک بائیں بازو کے کاندھوں پر سوار ہوکر آ گئی اور عالمی سامراج نے اپنا کھیل کھیل کر پاکستان کی بساط الٹ ڈالی۔ بھٹو کو نہایت ہوشیاری سے شہید کر ڈالا گیا۔ رفتہ رفتہ مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کے بعد باقی ماندہ پاکستان کا سیاسی کلچر ہی بدل گیا اور نظریات کا تصادم آمنے سامنے نظر آنے لگا۔ جلتی پہ تیل افغانستان میں نور محمد ترہ کئی اور پھر عالمی افق پہ جنگ کا آغاز مسلم اور عیسائی نظریات کا مشترکہ دشمن سوویت یونین کہلایا امریکا اور اس کے ساتھیوں کی عسکری مشینیں، سرمایہ اور اسلامی ممالک کی جہادی قوت نے عالمی تہذیب کو یکسر بدل ڈالا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پاکستان کی تسلیم شدہ ریاست سے مطلوبہ مقاصد حاصل نہ ہو سکے اور امریکا نے بمباری کی بدترین مثال قائم کی اور 9/11 کے بعد صورتحال بدل گئی اور وہاں پھر ایک بار طالبان کے بجائے امریکا نواز حکومت قائم کی گئی، یہاں بھی افکار کا تصادم معرض وجود میں آیا۔

1974ء سے لے کر تاریخ کروٹ بدلتی رہی، نور محمد ترہ کئی کی آمد پر آج بات یہاں تک آن پہنچی ہے کہ پہلا ٹریننگ کیمپ نور محمد ترہ کئی کی حکومت کے دوران جنرل نصیر اللہ بابر کے تحت بھٹو دور میں کھولا گیا اور نیپ کی حکومت معزول کی گئی جس کا آخری نتیجہ ذوالفقار علی بھٹو کا زوال اور امریکا کے بچھائے ہوئے منصوبوں کی تکمیل تھی کیونکہ سوشلسٹوں کو ٹریپ کیا گیا تھا چونکہ پاکستان کے سیاست دان ہمیشہ مغرب نواز پالیسیوں پر عمل پیرا رہے، چاہے ملک کا کوئی بھی حال ہو۔ آج جب 6 جنوری کو فوجی قانون منظور کیا گیا تو پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی قانونی ترمیم پر رو پڑے۔ رونے کی ضرورت نہ تھی کیونکہ یہ قانون قربانیوں اور جدوجہد کے نتیجے میں نہ تھا بلکہ مغربی دنیا سے این آر او کی صورت میں ملا تھا اور اس پر بھی عمل درآمد نہ ہو رہا تھا۔

ملک میں لاقانونیت کی ایک طویل داستان غریبی اور فاقہ کشی، مٹھی میں بچے مٹی میں مل رہے ہیں۔ گزشتہ 5 برس پی پی کے اور موجودہ دور نے اس کے علاوہ گزرے ادوار نے ملک کی فکری و نظری تقسیم عوام کا قتل عام اور حالیہ غارت گری جمہوری ادوار کا چرچہ کرنے والوں نے سوائے تصادم کے کیا دیا ہے، پشاور سانحے نے جمہوریت کے نام کو داغ دار بنا دیا ہے دوسری جانب غارت گری کی تشہیر کرنے والے اینکر پرسن اپنے مشن پر مامور ہیں اور ملک کی فکری اور نظری تقسیم کو مزید بڑھاوا دینے میں مصروف ہیں البتہ اب دیکھنا ہے کہ سرزنش رہزنوں کو کس طرح روک پاتی ہے دوسری جانب بھارتی حکومت پاکستان کو الجھانے کے لیے سرحدوں پر مارٹر گولے برسا رہی ہے تا کہ پاکستانی افواج کی توجہ ضرب عضب سے ہٹائی جا سکے جب کہ نسل پرست نریندر مودی کو شاید یہ معلوم نہیں کہ پاکستان کی سلامتی میں ہی بھارتی سلامتی مضمر ہے مگر وہ بھی تنگ نظر فرقہ پرست قیادت ہے جہاں تک پاکستان کے سیاست دانوں کا تعلق ہے تو کافی عرصے سے زر پرستی اور منافقت کی دوڑ میں مبتلا ہیں۔
Load Next Story