ایک اور بریکنگ نیوز

پاکستان کی اکثریت عوام کو خان صاحب کی شادی سے کوئی سروکار نہیں۔


سید احسن وارثی January 09, 2015
پہلے دھرنے کی غیرضروری کوریج کی گئی اور اب میڈیا عمران خان کی شادی پر دیوانہ نظر آتا ہے۔ اگر میں میڈیا کے لئے یوں کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ بیگانے کی شادی میں عبداللہ دیوانہ۔ فوٹو: آغا مہروز/ایکسپریس

WASHINGTON:

پاکستان میں بڑھتا ہوا میڈیا کا کردار اب عوام کے لئے کنفیوژن کا باعث بنتا جارہا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پوری قوم کو میڈیا نے ہیجان کی کیفیت میں مبتلا کر رکھا ہے۔ دوسرے چینل پر سبقت حاصل کرنے اور ریٹنگ کی دوڑ نے میڈیا کے کردار کو مثبت سے منفی کی جانب تبدیل کردیا ہے۔ ہر چینل نمبر ون پر آنے اور عوام کی توجہ حاصل کرنے کے لئے ہر عجیب و غریب بات کو بریکنگ نیوز بنا کر پیش کردیتے ہیں۔


پاکستان میں آئے روز دہشتگردی کے واقعات نے ہمیں اس قدر بے حس بنا دیا ہے کہ اب غربت اور بھوک و افلاس سے مرتی عوام ہماری توجہ سے بالکل ہی محروم ہوگئی ہے۔ ہمارا میڈیا ہر لمحہ کسی ''بڑی خبر'' کی تلاش میں رہتا ہے لہذا آئے روز لوٹ مار، حادثات کے بیشتر واقعات ہماری خبروں کی زینت نہیں بن پاتے۔ کہیں ہمارے میڈیا نے بھی تو حالات سے سمجھوتہ کرنا کا فیصلہ نہیں کرلیا؟۔


دنیا کے دیگر ممالک میں میڈیا عوام کی آواز حکمرانوں اور دنیا کے کونے کونے تک پہنچانے کا باعث بنتا ہے، مگر ہمارے پاکستانی میڈیا کی تو بات ہی کچھ اور ہے، ہمارے یہاں میڈیا عوام کی آواز حکمرانوں تک پہنچانے کے بجائے اہم شخصیات کی خبریں عام عوامِ تک پہنچانے میں مصروف عمل نظر آتا ہے۔ اگر کسی شہرت یافتہ شخص کی موت پیٹ کے درد سے بھی ہوجائے تو اسے ہمارا میڈیا اسے بریکنگ نیوز بناکر بڑا چڑھا کر پیش کرتا ہے جبکہ عام انسان کسی کے ظلم کا بھی شکار ہوجائے تو خاموشی رہتی ہے کہ وہ تو عام انسان ہے۔


میڈیا کا یہی کردارعوام میں ذرائع ابلاغ کی اہمیت کو ختم کرنے کا باعث بنتا جارہا ہے۔ میں نے بیشتر مغربی ممالک کے نیوز چینلز کا جائزہ لیا، مگر وہاں مجھے اہم خبروں کے علاوہ کوئی ایسی خاص خبر نظر نہیں آئی جس پر میں تنقید کرسکوں۔ مگر ہمارے یہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے، یعنی پاکستان میں نیوز کی جگہ کچھ بھی نشر ہوجاتا ہے خواہ وہ کسی کی ذاتی زندگی سے ہی متعلق کیوں نہ ہو بس ہمارا میڈیا ہر خبر کو بریکنگ نیوز بنانا چاہتا ہے۔ اب یہی مثال لے لیں کہ چند سال پہلے پاکستانی کرکٹر شعیب ملک اور بھارتی ٹینس اسٹار ثانیہ مرزا، برطانوی شہزادہ ولیم اور کیٹ کی شادیوں کو اتنی کوریج دی گئی جیسے انہوں نے شادی کرکے دنیا کا انوکھا کارنامہ سرانجام دیا ہو۔


اسی طرح سال نو 2015 کی سب سے بڑی بریکنگ نیوز بھی ایسی ہی ہے جب پورا ملک دہشتگردوں کے خلاف یکجہتی کا اظہار کررہا تھا، سب کی نظریں دہشتگردوں کے خلاف کارروائی اور وزیراعظم کی سربراہی میں بننے والی قومی ایکشن پلان کمیٹی پر مرکوز تھیں، ایسے میں ہمارا میڈیا 8 جنوری 2015 جمعرات کی سہ پہر سے کئی گھنٹے تک پاکستان تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان صاحب کے ریحام خان کے ساتھ ہونے والے نکاح کو بریکنگ نیوز بناکر ایسے پیش کرتارہا جیسے یہ ان دونوں کی پہلی شادی ہے۔


میں اس بلاگ کے زریعے بتاتا چلوں کہ یہ دونوں کی ہی دوسری شادی ہے 41 سالہ خاتون ریحام خان کے سابقہ شوہر سے 3 بچے ہیں اور 62 سالہ عمران خان کے سابقہ بیوی سے 2 بچے ہیں۔ اس سب کے باوجود اُن کی شادی کو اس انداز سے بار بار نشر کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ پہلے دھرنے کی غیرضروری کوریج کی گئی اور اب میڈیا عمران خان کی شادی پر دیوانہ نظر آتا ہے۔ اگر میں میڈیا کے لئے یوں کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ بیگانے کی شادی میں عبداللہ دیوانہ۔


پورا میڈیا اس طرح سے ریحام خان اورعمران خان کی سوانح عمری پیش کررہا ہے جیسے پوری قوم ان کی مداح ہے۔ جو حقیقت کے بالکل برعکس ہے۔ آج میڈیا کے اس کردار نے عوام میں میڈیا کی اہمیت کو کم کردیا ہے۔ کیونکہ پاکستان کی اکثریت عوام کو خان صاحب کی شادی سے کوئی سروکار نہیں۔ عوام میں میڈیا کی مقبولیت میں کمی کی سب سے بڑی وجہ غیرضروری خبروں کو بریکنگ نیوز بناکر پیش کرنا ہے۔


سیاستدانوں، تاجروں، صنعتکاروں اور اہم شخصیات پر تنقید کرنے والے میڈیا گروپس اور اینکرپرسنز اپنے اس کردار پر تنقید کیوں نہیں کرتے؟ دوسروں کا احتساب کرنے والے اپنے کردار کا احتساب کیوں نہیں کرتے؟


پاکستان کے میڈیا گروپس کا بھی احتساب ہونا چاہیئے کیوں کہ آج کے جدید ترین دور میں میڈیا ایک اہم ستون ہونے کے ساتھ ساتھ بہت اہم کردارادا کررہا ہے، اگر پاکستان میں میڈیا اسی طرح سے غیرضروری خبریں بریکنگ نیوز بناتا رہا تو اس سے عوام پر میڈیا کا منفی اثر مرتب ہوگا جس سے صحیح رپورٹنگ کرنے والے میڈیا گروپس بھی متاثر ہوں گے۔


پاکستان میں اگر میڈیا اپنا کردار صحیح طرح سے ادا کرنے لگے تو پاکستان کے تمام ادارے خود بخود ٹھیک ہوجائے گے۔ کیونکہ پاکستان کی ترقی میں میڈیا بہت اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور اگر میڈیا بریکنگ نیوز کی دوڑ سے باہر آجائے عوام کے حقوق کے لئے سیاسی جماعتوں کے ساتھ میڈیا بھی اپنا کردار ادا کرنے لگے تو پاکستان میں کوئی بھی اپنے بنیادی حقوق سے محروم نہ رہے۔





نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں