پاکستان میں طبی فضلے کا دھندہ عروج پر

گھر کے مرکزی دروازے سے باہر قدم رکھا تو آنکھوں کے سامنے بہت عجیب منظر تھا۔


وقاص علی January 09, 2015
اسپتالوں کے خاکروب مختلف وارڈز سے ہر روز مریضوں کا استعمال شدہ اور طبی فضلہ اسپتال سے متصل دیوار کے قریب کچر ا کنڈی میں ڈال دیتے ہیں۔ فوٹو؛ایکسپریس

گھر کے مرکزی دروازے سے باہر قدم رکھا تو آنکھوں کے سامنے بہت عجیب منظر تھا، اس حقیقت کو کھلی آنکھ سے دیکھ کر تذبذب کا شکار ہو گیا۔ ناظم آباد میں ہڈی و جوڑ کا اسپتال معروف سماجی شخصیت کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ اس اسپتال کا عقبی دروازہ ہمارے گھر کے عین سامنے ہے جو کہ عام طور پر انتظامی امور سے متعلق نقل وحرکت کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ عقبی دروازے کے سامنے ایک بھاری بھرکم بلی کچھ جبانے میں مصروف تھی ، چند قدم آگے بڑھا تو دل دھک سے رہ گیا، وہ بلی انسانی خون آلودروئی کو چبا چبا کر اس میں سے رستا ہوا خون چوسنے میں مصروف تھی اور یہی بلی گزشتہ رات گھر کے کچن میں منڈلاتی ہوئی نظر آرئی تھی ، عین ممکن ہے کہ رات کے کھانے سے قبل کچن میں امی جان کی عدم موجودگی سے بلی نے بھرپور فائدہ اٹھایا ہو۔



اسپتال کے عقبی دروازے سے اسپتال کے ''خاکروب '' آپریشن تھیٹر، وارڈ اور اوپی ڈی کے طبی فضلے (Hospital Waste)کو بذریعہ ٹرالی انو بھائی میدان ناظم آباد کے ساتھ علاقائی کچرا کنڈی میں ڈال دیتے ہیں۔ خاکروب کی لاپرواہی کے سبب اگر فضلہ ٹرالی سے سٹر ک پر گرجائے تو اسے دورباہ اٹھانے کی زحمت نہیں کی جاتی۔ دنیا بھر میں عوامی صحت کے ادارے خصوصاً اسپتال کی اندورنی و بیرونی احاطے کی صفائی و ستھرائی کو الین ترجیح دی جاتی ہے اور اس مقصد کے حصول کیلئے ہمہ وقت صفائی کا عملہ تیار رہتا ہے تاکہ آنے والے مریض یا تیماردار کو خوشگوار ماحول میسر آسکے ۔اس ضمن میں اسپتال کی انتظامیہ کسی بھی قسم کی لاپراوہی یاغفلت برداشت نہیں کرتی لیکن افسوس اسپتال انتظامیہ مریضوں کا استعمال شدہ آلودہ فضلہ (medical waste) قریبی کچرا کنڈی کی نظر کر دیتے ہیں جو عوامی گزر گاہ بھی ہو تی ہے تو کھیل کا میدان یا کوئی فیملی پار بھی۔ طبی فضلہ صرف سرکاری اور نجی اسپتالوں سے ہی نہیں بلکہ لیبارٹریوں، دانتوں اور آنکھوں کے شفاخانوں سے بھی مجموعی طور پر روزانہ کچرا خانے کی نذر ہوا ہے ۔ سول اسپتال کے خاکروب رفیق کی طرح دیگر خاکروب بھی مختلف وارڈز سے ہروز مریضوں کا استعمال شدہ اور طبی فضلہ اسپتال سے متصل دیوار کے قریب کچرا کنڈی میں ڈال دیتے ہیں۔

رفیق کے مطابق وہ گزشتہ کئی برسوں سے اسی جگہ مریضوں کی گندگی (طبی فضلہ ) پھینک رہا ہے ۔ سول اسپتال کے ساتھ کچرا کنڈی سٹرک کے ساتھ ہی قائم ہے جہاں سے مقامی لوگوں کے علاوہ قرب وجوار میں قائم سرکاری درس گاہوں، کراچی خواتین کالج اور وفاقی اردو یونیورسٹی سمیت پرائیوٹ تعلیمی اداروں کے طلبہ و طالبات کا عام گزر ہوتا ہے ۔ اس عوامی گزر گاہ سے گزرنے والے انتہائی اذیت سے دوچار ہوتے ہیں ۔ کچرا کنڈی کے سامنے سے گزرنے والوں کیلئے اپنی ناک پکڑ ے بغیر گزرنا مشکل ہے ۔ جس کے سبب لوگ ذہنی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں، یہ صورتحال صرف سول اسپتال ہی نہیں بلکہ ملک بھر میں قائم اسپتالوں کے قریب قائم کچراکنڈیوں پردکھی جا سکتی ہے ۔ اس گندگی کے ڈھیر سے نکل کرگھروں میں منتقل ہونے والی خطرناک وبائی بیماریاں اذیت و تکلیف کے علاوہ ہیں جو مختلف ذریعوں سے پھیلتی ہے ۔

ایک محتا ط اندازے کے مطابق اس فضلے میں سے نصف سے زیادہ غیر قانونی اور جعل سازی سے دوبارہ مریضوں کے استعمال میں لایا جاتا ہے جبکہ بقیہ فضلہ انتہائی خطرناک بیماریاں پھیلانے والا ہو تاہے ۔ طبی فضلہ کیا ہوتا اور اس کی کتنی اقسام ہیں۔ ڈیلبو ایچ او (WHO)نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں انسانی صحت پر اثر انداز ہونے والے طبی فضلے کو مختلف حصوں میں بیان کیا ہے ۔ وبائی امراض پھیلانے والے مواد جو سرجری اور پوسٹ مارٹم کے دوران انسانی جسم کی چیر پھاڑ کے بعد نکالے جاتے ہیں ۔اس نوعیت کا فضلہ ماحول میں انتہائی مہلک بیماریوں کا سبب بنتا ہے جب کہ نسبتاًکم نوعیت کانقصان پہنچانے والا فضلہ جو آپریشن تھیٹر یا دیگر سرجری آلات ہوتے ہیں ،جس میں انسانی جسم میں تیز ی سے پیوست ہونے کی صلاحیت ہو تی ہے ۔ پیتھالوجیکل فضلے میں انسانی جسم کے مختلف اعضاء کے علاوہ خون ، اورگنزاور ٹشوز شامل ہیں۔ ایسی ادویات جو وارڈ سے واپس ہو جائے یعنی وہ ادویات اور کیمیکلزجو مریض کیلئے کار آمد ثابت نہ ہویا جن کی میعاد ختم (expire date) ہو جائے تووہ بھی فضلہ کے ساتھ کچرا کنڈی میں پھینک دی جاتی ہیں۔



مرض کی تشخیص میں استعمال ہونے والی جدید مشینیں جن سے تابکاری کااخراج ہوتا ہے معاشرتی اعتبار سے طبی فضلہ کی ایک جدید شکل ہے ۔ اسکے علاوہ وہ تمام کوڑا کرکٹ جیسے کھانے پینے کی اشیاء کے خالی ڈبے، مریضوں کی بینڈیج ، کچن کااستعمال شدہ مواد، کاغذوغیر ہ بھی فضلہ میں شامل ہو تاہے ۔ پاکستان میں اوسطاً ہر شخص ایک سال میں پانچ سرنج استعمال کرتا ہے اس طرح مختلف اقسام کی سرنجوں کا سالانہ استعمال تقریباً750کروڑ سرنجیں بر آمد کی جاتی ہیں جبکہ ملکی پیداوار 50کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے ۔

سول اسپتال کے گردونواح میں کباڑیوں کی بڑی تعداد موجود ہے ، جن کے پاس گھر یلو سامان کے علاوہ اسپتال کا ناکارہ سامان وافر مقدار میں موجود تھا۔ کباڑی شاپ کے مالک سے استفسار کیا تو اس نے بتایا کہ یہ لوہلے کا بیڈ اسپتال کے خاکروب عملےنے فروخت کیا تھا جبکہ طبی فضلہ کے متعلق پوچھنے پر اس نے کہا کہ خون سے صاف فضلہ 40-45روپے فی کلوخرید کر 55-60روپے فی کلو آگے فروخت کرتے ہیں مگر طبی فضلہ خون آلود ہونے کی صورت میں 30-35روپے فی کلو میں خریدتے ہیں ۔ جب دکان کے مالک سے طبی فضلے سے پیدا ہونے والے خطرناک امراض کے متعلق دریافت کیاتو اس نوجوان نے نفی میں گردن ہلادی ۔ عباسی شہید اسپتال میں سینیٹر ی اسٹاف عینی خاکروب تمام طبی فضلہ اسپتال کے احاطے میں گلے پلاسٹک ڈرم میں ڈالتا ہے ، ایک ڈرم میں 60 کلو کی گنجائش ہوتی ہے صرف عباسی شہید اسپتال میں 15سے زائد ڈرم طبی فضلہ عارضی طور پر ٹھکانے لگایا جاتا ہے ۔ وہ طبی فضلہ جو انسانی زندگی کے لئے انتہائی خطرناک ہے اسے لال رنگ کے بیگ میں ڈال دیا جاتا ہے ، جبکہ عام فضلہ جیسے دستانے اور کپڑے ہرے نگ کے بیگ میں منتقل کردیئے جاتے ہیں۔ جس کو بعدازں incinerator سے تلف کردیا جاتا ہے ۔

خاکروب رات کی تاریکی کے علاوہ دن دیہاڑے بھی طبی فضلہ جمع کرتے ہیں، تین دن کے مشاہدے اور خاکروب سے بات چیت کرنے کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ طبی فضلہ کو فروخت کرنے کے عمل میں 60 فیصد افغانی جب کہ 40فیصد دیگر لوگ ہیں ۔ ایک افغانی نے بتایا کہ وہ گزشتہ 4برس سے طبی فضلہ بیچ رہا ہے ۔ افغان باشندے کے مطابق شیر شاہ میں کراچی کے بے شمار خاکروب اپنا جمع کردہ طبی فضلہ فروخت کرتے ہیں اور فروخت کرنے سے قبل سرنجوں (سوئی اور بغیر سوئی ) کو الگ الگ کرلیتے ہیں کیونکہ دونوں ہی مختلف قیمتوں پر فروخت ہوتی ہیں، اس کے علاوہ بلیڈز ، قینچی اور دیگر اسٹیل کے آلات الگ قیمتوں پر فروخت ہوتے ہیں ۔ خاکروب کے بعد دیگر بڑے تاجر مافیا سرنجوں کی ری سائیکلنگ (ازسر نو قابل استعمال ) کا عمل کرتے ہیں ۔ اس کے لئے پہلے آلات کو ایک مخصوص درجہ حرارت پر صاف کیاجاتا ہے ، گرم پانی کی وجہ سے پرنٹ شدہ تحریر مٹ جاتی ہے اس کے بعد پالش کرکے پرنٹ کا عمل شروع ہوتا ہے پھر یہ نئی پیکنگ میں عام صارف کوفروخت کرنے کے لئے مارکیٹ بھیج دی جاتی ہے۔



شیرشاہ استعمال شدہ گھریلو اور صنعتی سامان کے اعتبار سے خصوصی اہمیت رکھتا ہے ۔ کیا شیر شاہ طبی فضلہ کی خرید و فروخت کے مرکز کی اہمیت رکھتا ہے ؟ اس حقیقت کو جاننے کیلئے شیر شا ہ پہنچا جہاں وسیع وعریض جگہ پر استعمال شدہ صنعتی سامان بکھرا ہوا تھا، شیرشاہ کے کئی علاقوں میں خاک چھانی بالآخر جناح روڈ پر مجھے دوکانوں میں طبی فضلہ خصوصاً سرنجیں اور ڈرپس وغیرہ مل گئیں۔ ظاہری وضع سے ظہیر اس گروہ میں معقول نظر آیا، میں نے بغیر کسی تمہید اپنا مصد بیان کیا۔ اس نے مجھے تصویر لینے کی اجازت دے دی، میں نے ظہیر سے استعمال شدہ سرنجوں کی خطرناکی کا ذکر کیا تو اس کے چہرے کی مسکان میرے لئے پریشان کن تھی ، اس نے بتایا کہ میں کئی برسوں سے کام کررہا ہوں لیکن آج تک کسی مہلک بیماری کا شکار نہیں ہوا۔ ظہیر کے ساتھ کام کرنے والا لڑکا، جس کی عمر تقربیاً 25سال ہوگی ، سرنجوں کو ننگے ہاتھوں سے مٹھی میں بھر کر ایک طرف کررہا تھا، اس نے بتایا کہ اگر کوئی سوئی ہاتھ یا پاؤں میں گھس جائے تو میں فوراً اس متاثرہ جگہ کو دبا کر چند ایک قطرے خون نکال کر جلتی ہوئی ماچس اس جگہ پر لگادیتا ہوں اس طرح زہر ختم ہوجاتا ہے ۔ ظہیر نے بتایا کہ وہ 50روپے فی کلو کے حساب سے کچرا چننے والوں سے سرنجیں اور ڈرپ خریدتا ہے ، ڈرپ کا دانہ بنا کر مختلف پلاسٹک کی اشیاء بنانے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے جب کہ سرنجیں آگے فروخت کردیتے ہیں ، آگے ان سرنجوں کا کیا حشر ہوتا ہے مجھے علم نہیں۔

ایک سروے کے مطابق کراچی میں10ہزار سے زائد سرکاری اور غیر سرکاری اسپتال، کلینکس، پیتھالوجیکل لیبارٹریز، سینکڑوں ٹن مضرصحت فضلہ، غیر محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگاتے ہیں۔ ملک بھر میں اس وقت 1906اسپتال، 4590ڈسپنسریاں ، 550دیہی صحت کے مراکز 5308بنیادی صحت کے یونٹس اور 98264بستر موجودہیں ۔ کراچی میں شہری حکومت کی جانب سے اسپتالوں کو 30مئی 2006کو جاری ہونے والے خط میں طبی فضلہ کو موثر انداز میں تلف کرنے سے متعلق نئی حکمت عملی وضع کی گئی جس پر عمل درآمد کے لئے سینکڑوں اسپتالوں میں سے صرف 116اسپتالوں کی انتظامیہ نے سٹی گورنمنٹ کے ساتھ تعاون میں دل چسپی لی ۔سٹی گورنمٹ نے اسپتالوں کی مختلف درجہ بندی کرکے ان سے ماہانہ فیس وصول کی ، ایک سے 10بستروں پر مشتمل اسپتال سے ماہانہ فیس 2,665روپے ، 11سے 25بیڈ کے اسپتال سے 5,330روپے، 26سے 50بیڈ کے اسپتال سے 7,985روپے ، 51سے 100بیڈ کے اسپتال سے 13,310روپے ، 101سے 200بیڈ والے اسپتال سے 21,300روپے ، 201سے 400بیڈ کے اسپتال سے 26,620روپے اور 401سے زائد بیڈ کے اسپتال سے 39,930روپے کے حساب سے رقم وصول کی جاتی ہے ۔

ملک میں طبی فضلہ کے باعث پیدا ہونے والی مجموعی صورتحال سے نمٹنے کیلئے حکومت کی جانب سے پاکستا ن انوائرمنٹل پروٹیکشن ایکٹ 1991میں ہاسپیٹل ویسٹ مینجمنٹ رولز 2003کا اضافہ کیا گیا۔ اس رول کے تحت تمام دواخانوں کو سختی سے ہدایات جاری کیں کہ اسپتال سے خارج ہونے والے طبی فضلہ کو موثر انداز میں تلف کیا جائے ۔ رولز کے مطابق ہر اسپتال کا میڈیکل سپروائز ر10رکنی کمیٹی تشکیل دے گا جس کا مقصد طبی فضلہ وارڈ سے لے کر تلف کرنے تک کے مراحل یقینی بنانا ہے ۔ اسی تناظر میں رولز میں واضح طور پر لکھا ہے کہ ہیلتھ آفسیر کسی بھی اسپتال کا اچانک دورہ کر سکتا ہے ، ہیلتھ آفیسر اسپتال کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہا رکرے تو وہ ضلع کی متعلقہ کمیٹی کا اطلاع دے گا۔ رولز کی 25ویں شق کے مطابق ہر طبی مرکز Hazardous Substance and Waste Management Rulesکے تحت فیڈرل ایجنسی سے لائسنس حاصل کرے گا۔ رولز میں مرید کہا گیا ہے کہ ہر اسپتال طبی فضلہ کی سالانہ رپورٹ صوبائی ایجنسی کو فراہم کرے گا ، جس کو بعدازاں صوبائی ایجنسی فیڈرل ای پی اے کو ارسال کرے گی ، جسے نیشنل اینوائرمنٹل رپورٹ 6(ڈی)کے تحت شائع کرے گی ، مگر افسوس ان قواعد پر عمل کسی بھی سرکاری اور نیم سرکاری اسپتال ، کلینک یا لیبارٹری میں نہیں ہوتا۔

سرکاری و نجی اسپتالوں ،لیبارٹریوں، دانتوں اور آنکھوں کے شفاخانوں اور جنرل پریکٹیشنروں کی علاج گاہوں سے بھی مجموعی طور پر روزانہ برآمد ہونے والی بہت سی اقسام شامل ہو تی ہیں جو دھوپ کی شدت کے باعث فضلہ سے تعفن کے علاوہ بے شمار خطرناک جراثیم اور بیماریاں جنم پاتی ہیں جو انتہائی تشویشناک صورتحال کی طرف پیش قدمی کی علامت ہے ۔ اگر طبی فضلہ کو باقاعدہ طریقے سے ٹھکانے نہ لگایا جائے تو واضح ہے کہ یہ ہمارے ماحول اورمعاشرے کیلئے شدیدنقصان کاسبب ہے ۔ یہ صرف اسپتالوں میں کام کرنے والے عملے ہی نہیں بلکہ قرب وجوار میں رہنے والے لوگوں کیلئے بھی پر یشانی کا سبب ہے ۔ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ لو گ اپنی معمولی سی سہولت کی خاطر کسی بھی قریبی غیر آباد پلاٹ یا خالی جگہ کو کچرا کنڈی میں تبدیل کر دیتے ہیں جہاں قرب و جوا ر میں قائم اسپتال یا کلینک سے بر آمد ہونے والا طبی فضلہ بھی اسی کچرا کنڈی کی نظر ہو تا ہے۔ درحقیقت یہ کچرے کا ڈھیر ہیپاٹائٹس اے ، بی ، ایڈز ، ٹائیفائیڈ ، پھوڑے ، پھنسی جیسی دیگر وبائی امراج کے پھیلا ؤ کا سبب بنتا ہے ۔
پاکستان میں عام طور پر ڈسپوزل سرنج بار بار استعمال کی جاتی ہے ۔ جب اسپتال کا عملہ طبی فضلہ کو قریبی کچرا کنڈی کی نذرکر جاتا ہے جہاں سے کچرا چننے والے طبی فضلہ کو بطور پلاسٹک بیچتے ہیں ۔ فضلہ کی اس شکل کو ہر کباڑی والا نہیں خرید تا بلکہ شہر میں مخص مقامات پر اس نوعیت کا وسیع کاروبار جاری ہے جس میں شیر شاہ کا انڈسٹریل ایر یا قابل ذکر ہے ۔ عموما اس فضلہ کو ایک جگہ جمع کرنے کیلئے رات کا انتظار کیا جا تاہے۔

ایک اندازے کے مطابق طبی فضلہ کو جمع کرنے والوں کی اوسطاتعداد 15 ہزار سے زائد ہے ۔ ان کیلئے سب سے زیادہ نفع بخش اسپتالوں کا کوڑا ہو تا ہے چنا نچہ ان کے فی کنبہ 5 افراد کے حساب سے ایک لاکھ 25ہزار میں سے نصف افراد مہلک بیماریوں میں مبتلا پا ئے جا تے ہیں ۔ ایڈز جیسی مہلک بیماری نے پوری دنیا کو شدید متاثر کیا ہے ، پاکستان میں بھی ایڈز پروگرام کے تحت عوامی آگاہی کو یقینی بنایا جارہا ہے لیکن اسپتالوں سے فضلہ کی صورت میں خارج ہونے والی استعمال شدہ سرنجوں نے ایڈز جیسے لاعلاج مرض کی شرح میں اضافہ کیا ہے۔ملک میں تیار ہونے والی اور باہر سے درآمد ہونے والی سرنجوں کی تعداد 25 کروڑ سے 30کروڑ تک ہے جبکہ ملک میں72کروڑ 50لاکھ سرنجیں استعمال ہو رہی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ کم از کم 40کروڑ سرنجیں دوبارہ استعمال ہو رہی ہیں۔ ایک اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں طبی فضلے کی شرح اوسطاً1.8کلو گرام فی بستر ہے ۔ آپریشن کیلئے سب زیادہ قیمتی سامان دل کے مریضوں کا ہو تا ہے جو 30سے 70ہزار کی مالیت کا ہوتا ہے مگر اسپتالوں کے استعمال شدہ کوڑے کے ڈھیروں میں یہ سامان کبھی بھی دکھائی نہیں دیتا۔ بالکل ایسے ہی 100میں 60آپریشن آرتھوپیڈک (ہڈی و جوڑ ) کے ہوتے ہیں جن میں استعمال ہونے والی اپلائنسز 5ہزار سے 6ہزار روپے کی مالیت کے ہوتے ہیں مگر کوڑے میں دکھائی نہیں دیتے ۔ دوبارہ استعمال ہونے کیلئے فروخت ہو جاتے ہیں۔

صحت کے عوامی مراکز صحت مند معاشرے کے ضامن سمجھتے جا تے ہیں ۔ پاکستان میں بھی یہ سنگین اور توجہ طلب مسئلہ سراٹھائے کھڑا ہے ۔ یہاں طبی فضلے کوضائع کرنے کیلئے کوئی باقاعدہ نظام نہیں بن سکا ۔ طبی فضلہ بھی عام کچرے کی طر ح سڑک کے کنارے قائم کچرا کنڈی میں پڑا رہتا ہے ، جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس شعبہ سے متعلق ہر قسم کے بنیادی سامان کی فراہمی کو یقنی بنا یا جائے ۔ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ متعلقہ صفائی کا عملہ اس نظام کیلئے طے شدہ پالیسیز کے نفاذ میں برح طر ح ناکام ہو چکا ہے ۔ میونسپل کارپوریشن کا حال بھی اس سے مختلف نہیں ہے کیوں کہ ان کے پاس اس طبی فضلہ کو ٹھکانے لگانے کیلئے تربیت یافتہ عملے سے لے کر طبی فضلہ کو دفن کرنے یا ضائع کرنے تک کیلئے کوئی باقائدہ منظم طریقہ نہیں ہے۔

سول اسپتال کے خاکروب رفیق کی طرح دیگر خاکروب بھی مختلف وارڈ زسے ہر روز مریضوں کا استعمال شدہ اور طبی فضلہ اسپتال سے متصل دیوار کے قریب کچر ا کنڈی میں ڈال دیتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں