چلو گھر چلیں

ہمارے ملک کی ترقی میں بیرون ملک پاکستانیوں کا بہت بڑا حصہ ہے۔ وہ رہتے وہاں ہیں لیکن ان کے دل ہمارے ساتھ ہی دھڑکتے ہیں۔


فرح ناز January 09, 2015

اپنا ملک اپنا ہوتا ہے، اپنی مٹی کی خوشبو، اپنی فضائیں اور اپنا آسمان۔ روزگار انسانوں کو پتا نہیں کہاں کہاں لے جاتا ہے۔ رزق کا وعدہ اللہ عالی شان کا ہے تمام انسانوں کے لیے لیکن پھر بھی ہم میں سے بہت سے Home sickہوتے ہیں اور بہت سارے بالکل الگ نئی نئی جگہیں، نئے نئے تجربات۔ کہ کہیں زندگی Thrilling بھی ہے۔ اگر آپ کا آنا جانا باہر ممالک میں رہتا ہے اور آپ کو سفر کرنا اچھا لگتا ہے تو یقیناً آپ نے بہت سارے لوگوں کو پڑھا ہوگا، بہت سارے لوگوں کے رویے دیکھے ہوں گے لیکن جو لوگ کسی دوسرے ملک میں آکر بسے ہوتے ہیں ۔اپنا ملک چھوڑ کر آئے ہوتے ہیں کچھ تشنگی سی ان میں نظر آتی ہے اور اکثر وہ اس کا اظہار بھی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور ایک بڑی آہ بھر کر کہتے ہیں کہ دل چاہتا ہے کہ چلو! گھر چلیں۔

ہمارے ملک کی ترقی میں بیرون ملک پاکستانیوں کا بہت بڑا حصہ ہے۔ وہ رہتے وہاں ہیں لیکن ان کے دل ہمارے ساتھ ہی دھڑکتے ہیں، زلزلہ ہو، سیلاب ہو، اسکول، اسپتال اور کوئی بھی آواز جب لگائی جاتی ہے تو فوراً آپ کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لیے اقدامات شروع ہوجاتے ہیں۔ دنیا کے مختلف کونوں میں جہاں جہاں پاکستانی موجود ہیں مگر اکثر ایک خیال ان کے دل و دماغ میں موجود ہوتا ہے کہ چلو گھر چلیں!

تقریباً 7 million پاکستانی باہر ہیں زیادہ تر مڈل ایسٹ میں۔ 2012 تک پاکستانی 10 ویں نمبر پر تھے جوکہ بہت زیادہ زرمبادلہ اپنے وطن میں بھیجتے ہیں۔ ان کی فلاح و بہبود کے لیے حکومت مختلف اسکیمیں بناتی ہے۔ ان کے پرابلم بھی حل کیے جانے کی کوشش ہوتی ہے۔ اب یہ اللہ جانتا ہے کہ وہ ہوتے ہیں یا نہیں۔ بہرحال بے تحاشا دل شدت کے ساتھ پاکستان کے لیے دھڑکتے ہیں۔ یوں تو ہم کہہ ہی سکتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ کسی بھی ملک کا باشندہ دوسرے ملک میں اپنے ملک کا سفیر ہوتا ہے۔

اس کے کرتوت کالے ہوں یا سفید اس کے ملک کا نام روشن کرتے ہیں۔ سو ہمارے پاکستانی بھی اپنے ملک کا نام روشن کر رہے ہیں اور یہ مذاق نہیں علم و ہنر کا میدان ہو یا تجارت کا یا کھیل کا یا سیاست کا ، فن و اداکاری ہو یا دنگا، چیریٹی ہو یا پھر ایک دوسرے کی مدد۔ ثقافت و تہوار تک پاکستانی آگے آگے، جو بچے وہیں پیدا ہوتے ہیں وہ ان جیسے ہی بن جاتے ہیں اور جو بڑے ہوکر یہاں سے جاتے ہیں وہ اپنا آپ یہاں سے لے کر جاتے ہیں کچھ ردوبدل ہوجاتا ہے مگر اندر بسی خوشبوئیں نہیں جاتیں۔ ایک دفعہ دبئی میں ٹیکسی میں ڈرائیور انڈین تھا۔ جی جناب! اور بڑے اخلاق والا۔ اردو بولنے والا۔9 بہن بھائیوں میں اس کا نمبر7واں تھا۔ بہت محبت سے اپنی گلیوں کو یاد کرتا اور دن گنتا تھا کہ کیا موقع ملے گا اور وہ انڈیا کا چکر لگا آئے گا۔ ساری تھکن اتر جاتی ہے جب انڈیا کا ٹکٹ لے کر جہاز میں سوار ہوتا ہوں اور جیسے ہی جہاز اڑتا ہے تھوڑی دیر کے لیے گہری نیند بھی سو جاتا ہوں۔ بڑی پیاری نیند ہوتی ہے وہ۔

بہت محنت سے اور دل سے یہ پاکستانی چیریٹی اور فنڈنگ بھی کرتے ہیں۔ ہر شعبہ زندگی میں جہاں جہاں ان کو پکارا جاتا ہے۔ مگرکبھی بہت افسوس بھی ہوتا ہے کہ جب کسی ملک میں یہ پریشانی میں ہوں اور حکومتوں پر بے حسی طاری ہو، کئی جو غیر قانونی طور پر دھوکہ و فریب کا حصہ بن جاتے ہیں اور بے کسی، بے حسی میں مر جاتے ہیں اور یقین جانیے کئی کئی سال ان کے گھر والوں کو ان کی نہ خبر ہوتی ہے اور نہ ملال۔ کہیں غربت و افلاس، پیسہ کمانے کی دھن میں ان کو ان راستوں پر لے نکلتا ہے جہاں سے ان کے لیے نہ ختم ہونے والا سفر شروع ہوجاتا ہے۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ، دوسری سے تیسری اور اس طرح کب زندگی کی شام ہوتی ہے اندازہ ہی نہیں ہوتا اور کبھی کہیں گئے بدھو پر بابو بن کر واپس آئے۔ بہرحال زندگی کا چکر اسی طرح چلتا رہے گا، بہت سے قصے ہم سن چکے ہیں اور بہت سے سنتے رہیں گے مگر ہر فرد پر ذمے داری لازم و ملزوم ہے کہ وہ اپنے کردار سے ایسی تصویر بنائے کہ جو باعث افتخار ہو۔

سعودی عرب اور مڈل ایسٹ میں پاکستانیوں کی تعداد زیادہ ہے مگر اب وہاں80-90 والی بات نہیں۔ قوانین سخت کر دیے گئے ہیں مہنگائی کا اثر وہاں پر بھی ہے۔ تنخواہیں کم ہوتی ہیں کیونکہ بنگلہ دیش، یمن، سوڈان، سری لنکا، انڈیا کے لوگوں کے ساتھ سخت مقابلہ بھی ہے۔لیکن جو پاکستانی آج بھی بہت محنت کرتے ہیں، ایمانداری سے اپنے کام دے رہے ہیں وہ اپنی جگہ بناتے ہیں۔ مڈل ایسٹ میں پاکستانی ایک دوسرے کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں، مگر مشکل میں جب آتے ہیں جب کچھ شارٹ کٹ لگانے والے ایک ساتھ جمع ہوتے ہیں اور پھر وہ اپنی ''فنکاریوں'' سے ایسے گل کھلاتے ہیں کہ یہ کھلے ہوئے پھول دوسرے کے ماتھوں کی بھی زینت بنتے ہیں۔مڈل ایسٹ میں بھی قانون کو سخت کردیا گیا اور چھوٹی سی غیر قانونی حرکت بھی ڈی پورٹ کرواسکتی ہے۔

بہت ضروری ہے کہ اب حکومت نئے زمانے نئے دور کے ساتھ اپنے آپ کو Up Grade کرے اور بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کرے، دن بہ دن سفری دستاویزات مشکل سے مشکل ہوتی جا رہی ہیں، پاکستان میں سیکیورٹی اور روزگار کے معاملات لوگوں کو باہر کی طرف دھکیل رہے ہیں اور نہ چاہتے ہوئے بھی دل پر پتھر رکھ کر بہت سارے ہجرت کر رہے ہیں۔ جو زرمبادلہ یہ لوگ بھیجتے ہیں وہ ٹرانسپیرنٹ انداز میں ہو، جو چیریٹی اور فنڈز غریبوں کے لیے ہیں وہ ان ہی کا حق ہو اور ان تک ضرور پہنچے۔

انشا اللہ جیسے جیسے پاکستان میں تعلیم عام ہوگی اور لوگوں کا شعور زیادہ ہوگا ویسے ویسے حقوق العباد بھی خیال رکھا جائے گا ، بیرون ملک پاکستانی بڑی لگن اور محبتوں سے بہت کچھ کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ سخت محنت اور موسم کی شدتیں اپنے وطن کا چھوٹا چھوٹا سکھ یاد دلاتی رہتی ہیں۔ اگر ان میں اور حکومت میں دیانت داری سے کوآرڈینیشن زیادہ ہو تو ان کی محنتیں زیادہ رنگ لاسکتی ہیں۔ بیرون ملک پاکستانیوں کو ایک شکایت جو بہت زیادہ ہوتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ان کی چیریٹی کو حق دار لوگوں تک پہنچنے نہیں دیا جاتا۔ اور کچھ لوگ درمیان میں سے ہی اس کو لے اڑتے ہیں اور جو بے چارہ حق دار ہے وہ ایسے ہی رہ جاتا ہے۔

بیرون ملک میں بھی ایسی جگہیں بن جاتی ہیں جہاں ہم وطن زیادہ تعداد میں رہائش پذیر ہوتے ہیں، تہوار منائے جاتے ہیں، شادیاں روایتی انداز میں کی جاتی ہیں، ون ڈش پارٹی اور Different تقریبات منائی جاتی ہیں اور مل بیٹھنے کے مواقعے ڈھونڈے جاتے ہیں اور ایک حد میں رہتے ہوئے ان تقریبات کی اجازت مل جاتی ہے اور اس طرح اپنے آپ کو اور اپنے کلچر کو زندہ رکھنے کی کوششیں ہوتی رہتی ہیں۔مسلمانوں میں اسلام پاکستان سے بہتر بیرون ملک کے رہائشیوں میں پایا جاتا ہے ، خواتین حجاب کا استعمال بھی زیادہ کرتی ہیں۔مڈل ایسٹ کا کلچر تو حجاب ہے ہی مگر جو یہاں سے جاتے ہیں وہ بھی آہستہ آہستہ اس رنگ میں رنگ ہی جاتے ہیں۔ اب پوری دنیا کے ساتھ ہم سب کو بھی اپنے آپ کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔

یقینا باہر ممالک میں زیادہ بہتر سہولیات دستیاب ہیں۔ بہتر تعلیم، بہتر علاج و معالجہ، بہتر رہائش، بہتر سیکیورٹی اور بہتر زندگی جو اگر اب پاکستان میں موجود ہو تو یہ Man Power اپنی ذہانت اور محنت سے پاکستان کا نقشہ ہی بدل سکتی ہے۔ عقل اور مخلصی کے دروازے کھل جائیں تو ہزاروں ہیرے چمکنے کو تیار بیٹھے ہیں اور حقیقت میں لوگ اپنے ملک میں ہی آدھی روٹی کھانے کو ترجیح دیں گے ۔ مرد و عورت دونوں اپنی جگہ اپنی اپنی قابلیت کو آزمانے کو تیار ہیں اور دنیا کے ہر کونے میں اپنی اپنی فیلڈ میں آگے بڑھ رہے ہیں۔

ہر قدم پر حکومت کے لوگوں میں سنجیدگی اور پوری پلاننگ کا ہونا ضروری ہے۔ بیرون وطن ہر پاکستانی کو پاکستان سے جوڑے رکھے کہ یہ ان کا اور ان کی نسلوں کا گھر ہے تمام تجربات، تمام محنتیں کرنے کے بعد ایک دن وہ یہی کہتے ہیں کہ چلو اب گھر چلیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔