ڈاکٹر محمد علی صدیقی…منفرد نقاد
آپ کی یہ شرط ہر کوئی پوری نہیں کرسکتا اور آپ زبان کی شرط کو مزید لاگو نہ کریں۔
وہ نو جنوری 2013 کا دن تھا جو مجھ تک آتے آتے دکھوں اور مایوسیوں کی ایک زنبیل بن گیا، میرے والد محترم پروفیسر ڈاکٹر محمد علی صدیقی (تمغہ برائے حسن کارکردگی، ستارہ امتیاز، بابائے اردو ثانی اور کئی ملکی اور غیر ملکی اعزازات کے مالک) کچھ اس طرح سے پردہ نشین ہوئے جو روز محشر ہی سب سے ملیں گے۔
آج مجھے ان کی تنقید نگاری پر یا ان کی جملہ تمام تصنیفات اور تالیفات پر یا ان کی تحقیقی اور تخلیقی صلاحیتوں پر، ان کے ادبی سرمائے ہائے حیات اور ان کی بے مثل و بے مثال شخصیت و فن پر اردو و مغربی ادب پر ان کی حکمرانی پر، ان کے ادبی، سماجی، معاشی نیز ہر شعبہ ہائے زندگی پر لکھے ہوئے ہزاروں کالموں پر وہ ساری زندگی جن مقتدر عہدوں پر براجمان رہے ان پر اور نا ہی اردو ادب و تنقید میں ان کا جو مقام ہے اس پر کچھ نہیں لکھنا اور نہ ہی کچھ کہنا ہے یہ ان ترقی پسند و روشن خیال اکابرین و معاصرین اور ناقدین کا کام ہے جن کی زندگی اردو ادب و تنقید کی اچھے اور برے ادوار میں اس کی آبیاری کرنے میں گزری ہے۔ جن کی متاع حیات ہی ادب برائے زندگی کے فروغ میں سرگرداں رہنا ہے اور سچ پوچھیے تو میں اس وقت لمحہ موجود میں خود کو اس بابت اہل ہی نہیں سمجھتا۔
ذرا سوچیے ایک آٹھ نو سال کی عمر کا لڑکا اپنی تعلیم اپنی آبائی جگہ (امروہہ۔ یو۔پی، انڈیا) چھوڑ کر اپنے بوڑھے و کمزور ماں، باپ اور چھوٹے بہنوں، بھائیوں کے ساتھ ہجرت کی شدتوں اور رنج و غم سہتا ہے اس کو کچھ نہیں معلوم کہ اس کو کیا کرنا ہے اور سب کیسے ہوگا۔ جس انسان نے ہجرت کے بعد کراچی آکر 10 سال بعد سمندر دیکھا ہو، اس کی زندگی کی مصروفیتوں کا اندازہ تو لگائیے جس نے اپنی ضرورتوں کا گلہ گھونٹ دیا ہو اور خواہشوں کو روند ڈالا ہو، بڑی بہن (منی پھپھو) اور والد کی ناسازی طبع نے اور حالات زندگی نے چھوٹے سے محمد علی کو وقت سے پہلے ہی بڑا بنا دیا۔ اس نے کوئی احتجاج بھی نہیں کیا اور قدرت کی طرف سے آئی ہوئی کو برداشت کرتا رہا۔ محمد علی نے درس و تدریس شروع کردی۔
جس کلاس میں وہ خود پڑھتا اس کلاس کا ٹیوشن پڑھاتا۔ چھوٹی جماعتوں کو بھی، بھوک کو مارنے کے لیے اپنے کوٹ کی جیبوں میں ایک دو آنے کے چنے لے کر میلوں ایک جگہ سے دوسری جگہ چلتا وہ سفر میں پیسے خرچ نہیں کرتا تھا اور ان پیسوں سے وہ اپنے گھر کے لیے کچھ لے جاتا ۔ تدریس کا یہ سلسلہ اس وقت تک چلا جب تک کوئی ڈھنگ کی نوکری نہیں مل گئی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ڈی جے کالج میں (ایٹمی سائنسدان) ابا سے ایک سال سینئر تھے۔ میرے ابا نے پری میڈیکل کے سالانہ امتحان میں امتیازی نمبر لاکر اپنے ڈاکٹر بننے کے سپنے کو تقویت سے ہمکنار کیا اور امریکا کی طرف سے طب کی تعلیم پر ان کو اسکالرشپ بھی مل گئی مگر میری دادی نے ابا کو منع کردیا اور چھوٹی بہن کی طبیعت بھی کچھ ٹھیک نہیں رہتی تھی پھر انھوں نے اپنا دھیان آرٹس کی طرف لگایا اور انگلش لٹریچر اور انگلش ادب میں ایم۔اے کا امتحان پاس کیا وہ جسمانی ڈاکٹر تو نہ بن سکے ان سارے اسباب کے ہوتے ہوئے بھی لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا، قوم کی ادب و تنقید کے توسط سے انھوں نے جو مسیحائی کی وہ زیادہ معنی رکھتی ہے۔
وہ ہمیشہ ہی سے مختلف رہے ایک ایسی حقیقت جو میری سمجھ سے تو باہر تھی وہ صبح سویرے ہی اپنے کام پر نکل جاتے اور رات گئے تک واپسی ہوتی۔ طعام سے فراغت کے بعد وہ پھر لکھنے پڑھنے بیٹھ جاتے اور میں یہ سوچا کرتا کہ آخر ان کتابوں میں ایسا کیا ہے جو ان کو دوسرے سے مختلف و منفرد بنا چکا ہے میرے ابا دوسروں کے ابا سے الگ ہی تھے وہ ان میں سے بھی نہیں تھے جو اپنے بچوں کو کاندھوں پر بٹھا کر پارکس کے چکر لگاتے اور نہ ہی ان میں سے تھے جو اپنے بچوں کا ہاتھ پکڑے دکانوں میں کھڑے رہتے ہیں وہ دوسرے اباؤں کی طرح کسی کلب میں بھی نہیں جاتے تھے نہ دوسرے معزز باپوں کی طرح غلط سلط انگریزی بولتے تھے۔
میں دوسرے بچوں کی طرح انھیں ڈیڈی، ڈیڈ، ڈوڈ بھی نہیں کہتا تھا بلکہ عجیب سی آواز کا بڑا مانوس سا لفظ ''ابا'' یا ''ابو'' پکارتا تھا، کوئی مجھ سے پوچھتا ''تمہارے ابا کیا کرتے ہیں'' تو میں آنکھ بند کرکے کہتا ''ہر وقت پڑھتے ہی رہتے ہیں'' میرا اپنے والدین کی اولاد ہونا ہر لحاظ سے انوکھا تھا میں کنوینٹ اسکول (سینٹ پال) میں پڑھتا تھا جس کے پرنسپل ان دنوں ایک فرانسیسی فادر تھے اور میرے اسکول کا تقاضا کچھ عجیب سا تھا اور وہ یہ کہ بچوں کے والدین کو فرینچ لازمی آنی چاہیے۔ میں نے ابو اور امی کو بتایا کہ آپ دونوں کو پرسوں اسکول میں بلایا ہے پھر ان کے ساتھ اسکول گیا ابا اور اماں کے بیچ میں بیٹھا ہوا تھا ابا نے پتا نہیں کیا کیا کچھ کہنا شروع کردیا، پرنسپل بھی ان کا ہم زبان ہوگیا۔
ابا نے پھر کسی دوسری زبان میں بات کرنا شروع کردی میرے پلے پہلے ہی کچھ نہ پڑا تھا اب تو مزید سمجھ سے باہر تھا۔ ابا بولے جا رہے تھے اور پرنسپل پریشان ہوگئے تھوڑی دیر بعد ابا نے انگریزی میں بات شروع کردی اس وقت میری سمجھ میں کچھ اور تو نہیں آرہا تھا لیکن ابا میرے پرنسپل کو غالباً یہ بتا رہے تھے کہ اس شہر میں نہ ہی ہر کوئی فرانسیسی بول سکتا ہے اور نہ ہی انگلش۔ اگر آپ کو فرینچ بولنی ہی ہے تو آپ کو ایک انٹریپریٹر رکھنا چاہیے جو آپ کو بتا سکے اور دوسرے والدین کی اردو سن سکے۔ میں نے باہر آکر ابا سے کہا۔ ابا یہ سب کیا تھا۔ ابا نے کہا میں نے فرینچ میں بات کرنی شروع کی تو تمہارے استاد خوش ہوگئے پھر میں نے جرمن میں بولنا شروع کیا تو ان کی سمجھ میں نہیں آیا پھر انگریزی میں، میں نے کہا کہ ''آپ کی یہ شرط ہر کوئی پوری نہیں کرسکتا اور آپ زبان کی شرط کو مزید لاگو نہ کریں'' اس دن کے بعد سے پرنسپل نے ہر ایک سے اردو میں بات کرنا شروع کردیا ۔
میرے ابا نے اپنے علم کی بدولت نہ صرف میرے پرنسپل کو بلکہ مجھے بھی یہ سمجھایا کہ بعض چیزوں کی خواہش کبھی کبھی شرمندگی کا باعث بن جاتی ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں اپنے ابا سے زیادہ پڑھنے والا کوئی دوسرا شخص نہیں دیکھا ان کو حصول علم کا ایک جنون تھا اور وہ اس کے لیے سب کچھ چھوڑ دیتے تھے ان کو 17 سے زیادہ زبانوں پر عبور حاصل تھا اور وہ جب کوئی زبان سیکھ رہے ہوتے تھے تو کیسا ٹی وی، کیسا کھانا اور کہاں کی چائے ٹرے ویسے کی ویسے ہی واپس لوٹ آتیں اور اماں بڑ بڑ شروع کردیتیں کہ نہ کھانا ہے اور نہ ہی کچھ پینا بیٹھے ہوئے ہیں کمرہ بند کرکے۔ ان کو اردو اور انگریزی کے علاوہ، عربی، سنسکرت، فارسی، اطالوی، فرانسیسی، جرمن، ہندی اور پھر ہماری علاقائی زبانوں میں ہندکو، سرائیکی، پنجابی، سندھی اور پوروبی وغیرہ وغیرہ اور مزے کی بات یہ ہے کہ انھوں نے یہ زبانیں کہیں داخلہ لے کر سیکھی نہیں ہیں بلکہ اپنی جستجو اور مطالعے کی عادت ہی سے سیکھی ہیں وہ مغربی ادب بھی، رثائی ادب بھی، جدید اور غیر جدید ہر طرح کا ادب پڑھتے تھے، میں کوئی سولہ یا اس سے کچھ اوپر کا ہی رہا ہوں گا مجھے بھی ادب، شاعری، مصوری کا جنون تھا وہ مجھے اکثر پڑھتا ہوا ہی دیکھتے تھے ایک دن مجھ سے پوچھا ناصر منا (پیار سے) آج کل کیا پڑھ رہے ہو۔
میں نے کہا ابا 'منٹو'۔ ابو نے مجھے کچھ سوچتے ہوئے دیکھا پھر کہا اچھا یہ بتاؤ منٹو کا فلسفہ کیا ہے اور تم نے اس کے افسانوں میں کیا بات دیکھی ''میں نے کہا۔ غربت، لاچاری، معاشی ناہمواریاں اور جنس۔ انھوں نے پھر کہا '' اگر تمہیں منٹو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ غربت ایک ظلم کی صورت ہے، اور ایسے لوگ جو اپنے معاشرے کی برائیوں پر سے پردہ اٹھاتے ہیں ایسے لوگ غلط ہوتے ہیں نہیں بلکہ فنکار کا فن ہی یہ ہے کہ وہ جو کچھ دیکھے وہ اپنے قاری کو دکھائے ''۔ کوئی فن برا نہیں ہوتا، ابا کی ایک خاص بات جو ان کو دیگر ادبی ادبا اور ناقدین سے ممتاز بناتی ہے وہ اپنی بات کو اگر غالب یا نسخہ غالب سے شروع کرتے تو اس بحث کا اختتام شیکسپیئر اور اس کی سونٹ پر ہوتا۔ وہ رابندر ناتھ ٹیگور پڑھاتے پڑھاتے بائرن، جان ہاروی اور ٹالسٹائی پڑھاجاتے اور یہ وصف ان کی بے وسعت علمی گہرائی کا خاصہ ہے۔