جاگتے رہنا… میرے تے نہ رہنا …
جتنا کورس ہم نے ایک سو پچپن دن میں کور کرنے کا ارادہ کیا تھا، دھرنے نے اس میں سے تئیس دن اور نکال دئیے۔
میں نے کیلنڈر اپنے ہاتھ میں پکڑا اور مدیحہ کو اپنے سامنے بیٹھنے کا اشارہ کیا، ہمیں اپنا سال بھر کا نصابی اور ہم نصابی مصروفیات کا کیلنڈر بنانا تھا۔ سال بھر کے تین سو پینسٹھ دنوں میں سے ہم نے پہلے گرمیوں کی چھٹیوں کے دو مہینے منفی کیے تو ہمارے پاس تین سو پانچ دن بچ گئے... دس مہینوں کے ہفتہ اور اتوار نکالے تو ہمارے پاس ستاسی دن اور کم ہو کر دو سو اٹھارہ دن تھے، عید الفطر اس بار گرمی کی چھٹیوں کے دوران آ رہی ہے سو وہ چھٹیاں ان ہی میں ضم ہو جائیں گی، عید الضحی کی تین چھٹیاں اکتوبر میں اور عاشورہ ء محرم کی دو چھٹیاں نومبر میں ہوں گی، سال میں تین تفریحی اور تعلیمی دورے ، یعنی دو سو اٹھارہ میں سے آٹھ دن اور نکل گئے... باقی رہ گئے دو سو آٹھ دن۔
سال بھر کے کورس کو دو سمسٹر میں تقسیم کیا جاتا ہے اور دو بار امتحانات ہوتے ہیں، ان دونوں امتحانات سے قبل تیاری کے لیے چھٹی ملتی ہے، کل ملا کر چھ چھٹیاں یہ بن جاتی ہیں، اسکول میں طلباء یونین کے انتخابات اور اس کے بعد تقریب حلف برداری... دو دن ، تقریری مقابلے، دو دن، یہ دس دن اور نکال لیے تو باقی ایک سو اٹھانوے دن رہ گئے۔ سردیوں کی چھٹیاں جو کہ دس دن ہوتی ہیں اور موسم بہار کی چھٹیاں اپریل میں پانچ دن کی،... پندرہ دن منفی کریں تو ایک سو تراسی دن بچ جاتے ہیں۔ امتحانات کے دنوں میں بھی پڑھائی تو نہیں ہوتی، سو اصل میں امتحانات کے دن بھی اس میں سے منفی ہوں گے۔ دو دفعہ کے امتحانات کے نو اور نو ملا کر کل اٹھارہ دن اور اس کے بعد والدین اور اساتذہ کی میٹنگ سال میں چار بار ہوتی ہے، اٹھارہ اور چار بائیس دن منفی کریں تو باقی بچ گئے ایک سو اکسٹھ دن ۔
اسپورٹس ڈے، دو دن ، اسکول کا سالانہ فنکشن، فل ڈریس ریہرسل کے لیے ایک چھٹی، فٹبال میچ، انڈونیشین ایمبیسی کا تعلیمی فیسٹیول... چھ دن اور نکل گئے اور باقی بچ گئے ایک سو پچپن دن۔ ان ہی دنوں پر ہم نے اپنی ہر کلاس کا سلیبس تقسیم کیا پھر اس کی ماہانہ اور ہفتہ وار تقسیم کرنے لگے۔ اتنے دنوں میں اس سلیبس کو پورا کرنا نا ممکنات میں سے تھا، اس لیے ہر مضمون کے سلیبس میں سے کچھ نہ کچھ کم کرنا پڑا اور اس میں با وصف کوشش کے کچھ اہم چیزیں بھی مس ہو گئیں،'' کوشش کریں گے کہ کسی وقت ان کو شامل کر لیا جائے ، جوکہ نا ممکن نظر آتا ہے!! '' میں نے خود کو تسلی دی تھی یا مس مدیحہ کو۔
پھر ہو ا یوں کہ ، اسکول جو کہ کھلنا تھا گیارہ اگست کو، کھل نہ سکا کیونکہ لاہور میں ایک مذہبی لیڈر نے دھرنا دے دیا تھا اور اس سلسلے میں ملک گیر مظاہرے ہو رہے تھے، ایک اور سیاسی جماعت کے لیڈر نے اسلام آباد کے ڈی چوک میں دھرنے کا اعلان کر دیا، دونوں لیڈروںکی ایک ہی وقت میں لاہور سے روانگی نے پنجاب بھر اور وفاق کو معطل کر دیا، حکومت روک رہی تھی ان لوگوں کو اسلام آباد میں داخل ہونے سے مگر اصل میں زندگی کا کاروبار مفلوج ہو گیا تھا۔
ممکنہ خطرے کے باعث اسکولوں میں چھٹیاں بڑھا دینے کا اعلان کیا گیا، سرکاری اسکولوں میں پولیس براجمان تھی اور نجی اداروں کو بھی بچوں کی حفاظت کے پیش نظر ادارے بند رکھنے کا کہا گیا۔ دو ماہ کی چھٹیوں میں مزید لگ بھگ اٹھارہ دن تک مزید اسکول بند رہے، نہ صرف وہ اٹھارہ دن بلکہ کئی اور جمعے اس کے بعد بھی دھرنے کے دوران پہیہ جام کا اعلان ہو جاتا اور کبھی ہڑتال کا، پانچ دن وہ بھی نکل گئے۔
جتنا کورس ہم نے ایک سو پچپن دن میں کور کرنے کا ارادہ کیا تھا، دھرنے نے اس میں سے تئیس دن اور نکال دئیے، اب ہمارے پاس ایک سو بتیس دن رہ گئے تھے اور احساس ہونا شروع ہو گیا تھا کہ اس ملک میں نظام تعلیم کا کباڑہ ہونے والا ہے، حالانکہ اس میں مزید کی گنجائش نہیں ہے، ان ایک سو بتیس دنوں کو غنیمت نہ جانتے تو کیا کرتے۔ دل تو چاہ رہا تھا کہ ہفتہ اور اتوار کی چھٹیاں منسوخ کر دی جائیں تا کہ نقصان کا کچھ ازالہ ہو سکے، نجی اسکول تو پھر یکم ستمبر سے متفقہ فیصلے کے بعد کھل گئے تھے، سرکاری اسکول ابھی تک سرائے بنے ہوئے تھے۔
عید اور عاشورہ گزار کر دسمبر کے امتحانات کی تیاریاں تھیں، پندرہ دسمبر سے ہمارے ہاں امتحانات شروع ہوئے جو کہ چوبیس تک جاری رہنا تھے اور اس کے بعد چار جنوری تک چھٹیاں تھیں، پانچ کو اسکول کھل جاتے تو نہ صرف نئی ٹرم کی پڑھائی ہوتی بلکہ امتحانات کے نتائج بھی بچوں کے والدین کو دیے جاتے۔
مگر سولہ دسمبر کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں ہونے والے سانحے نے سارا نقشہ ہی بدل دیا، کیسے اسکول اور کیا امتحانات، والدین کے دل لرز گئے اور انھیں بچوں کو اسکول بھیجنے پر اس قدر تشویش ہوئی کہ ان کے مطالبات پر نہ صرف نجی بلکہ سرکاری اسکول بھی فوری طور پر بند کر دیے گئے اور امید ہے کہ بارہ جنوری کو اسکول دوبارہ کھل سکیں گے، یعنی گیارہ دن کی مزید فالتو چھٹیاں ہو گئیں ... اب باقی ماندہ دن ایک سو اکیس رہ گئے ہیں سال بھر کے، اب ان ایک سو اکیس دنوں میں سے کتنے دن کسی چیز یا unforeseen کی نذر ہو جائیں گے، کون جانے۔
اس ساری تفصیل سے آپ کو بھی علم ہو رہا ہو گا کہ ہمارے تعلیمی نظام کے ساتھ کیا کیا تجربات ہو رہے ہیں۔ حکومت نے خصوصی احکامات جاری کیے ہیں کہ تمام سرکاری اور نجی اسکول اپنے اسکولوں میں سیکیورٹی کے حالات کو بہتر بنائیں، اسکولوں کی دیواریں اونچی کریں، سیکیورٹی کیمرے لگوائیں اور جب اس طرف سے اطمینان ہو تو اسکول کھولیں۔ اس حکومتی حکم نے لوگوں کے لیے کیا کیا مشکلات کھڑی کر دی ہیں اس کا کسی کو اندازہ نہیں۔ عام نجی اسکولوں کے لیے اس طرح کے انتطامات کرنا اس قدر آسان نہیں، اپنے زور بازو سے اور سفید پوشی سے جو لوگ پسماندہ علاقوں میں نجی اسکول چلا رہے ہیں ان کے ناتواں کندھوں پر اس طرح کے انتظامات کا بوجھ بہت بڑا ہے۔
ان کا مقابلہ شہروں کے ان اسکولوں سے قطعی نہیں کیا جا سکتا جہاں فیسیں ہزاروں بلکہ لاکھوں میں وصول کی جاتی ہیں جب کہ دیہات اور قصبات میں والدین سیکڑوں میں فیس بھی بصد مشکل دیتے ہیں۔ ان کے گھروں کی دال روٹی بمشکل چلتی ہے، اب حکومت نے ایسے احکامات جاری کیے ہیں تو کیا یہ سوچا کہ عوام کی جان اور مال کی حفاظت کی ذمے داری حکومت پر آتی ہے۔ کیا انھوں نے اس سلسلے میں سوچا کہ نجی اداروں کی اس مد میں کچھ مدد کی جائے، دیواروں کو بلند کرنے یا سیکیورٹی کیمرے لگانے کے لیے انھیں کچھ فنڈز مہیا کیے جائیں ۔
پہلے اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ دیواریںبلند ہوں گی اور کیمرے لگ گئے تو کوئی اور سانحہء پشاور نہیں ہو گا!! مجرم ایک وار کرتے ہیں، ہم ہفتہ بھر اس لکیر کو پیٹتے رہتے ہیں اور پھر ان ہی لائنوں پر حفاظتی اقدامات کا سوچنا شروع کر دیتے ہیں ، مجرموں کے نقش پا کو ڈھونڈتے رہتے ہیں جب کہ ان کی سوچ کی حدیں ہم سے بہت آگے تک ہیں، ہم اس وقت انھیں ڈھونڈنے نکلتے ہیں جب وہ وار کر کے ہمارا نا قابل تلافی نقصان کر چکے ہوتے ہیں۔ ہم اب بھی سوچ رہے ہیں کہ دہشت گرد اسی طریقے سے دیواریں پھاند کر آئیں گے اور پھر کوئی سانحہ ہو گا ، خدا نخواستہ۔
اسکولوں کی سکیورٹی کے انتظامات پر حکومتی حکم نامے پر عمل درآمد کی کاوشیں جاری ہیں تو اب امام بار گاہ سے متصل ایک گھر میں دھماکا ہو گیا ہے، کوئی جگہ محفو ظ نہیں، کوئی بازار نہ کوئی گلی نہ کوچہ!!!! حکومت نے حساس مقامات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے قانونی اصلاحات کی ہیں، جن کے مطابق ایک سکیورٹی ایڈوائزری کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو کہ ہر تین ماہ کے بعد ان تمام اہم مقامات اور تنصیبات کا معائنہ کرے گی اور ان مقامات اور تنصیبات کے مینیجر اور مالک اس ایڈوائزری کمیٹی کی ہدایات کی روشنی میں حفاظتی اقدامات کو یقینی بنانے کے پابند ہوں گے۔حکومت کے اس '' اہم '' اقدام پر تو جتنی داد دی جائے کم ہے۔
اسی چوکیدار کی طرح جو کہ رات کو اپنی لاٹھی زور سے زمین پر بجاتا اور زور سے پکارتا '' جاگتے رہنا... میرے تے نہ رہنا!!'' گویا اب جو کچھ کرنا ہے، ہمیں ہی کرنا ہے، کیا حکومت عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہو کر سمجھ بیٹھی ہے کہ اس کی ذمے داری ہی اس پر عائد نہیں ہوتی؟ اب عوام کے جان ، مال اور عزت کی حفاظت کرنے سے بھی حکومت لاچار ہے تو پھر حکومت کی ضرورت کیا ہے؟ کیوں نہ ہر کام کے لیے ایڈوائزری کمیٹیاں بنا دی جائیں جیسے پہلے محلہ کمیٹیاں تھیں، لوگ اپنے مسائل خود ہی باہمی مشاورت سے حل کر لیتے تھے۔