یہ لوگ ہی
آج بھی برصغیر میں ایسے قبائل، گروپ اور نسلیں موجود ہیں جو طبعی کے بجائے خودکشی کی موت کو اہمیت دیتی ہیں۔
www.facebook.com/javed.chaudhry
اور ایک اور بات امریکا اور جنرل ضیاء الحق نے یہ جنگ علماء کرام، مدارس، مفتیان اور خطیبوں کے ذریعے شروع کی اور ہم اب اسے ختم بھی ان ھی لوگوں کے ذریعے کر سکیں گے۔
یہ معاشرہ 1980ء تک معتدل تھا، ملک میں ہاکی، فٹ بال، کرکٹ اور سکوائش جیسے کھیل عروج پر تھے، پاکستان کی فلم انڈسٹری دنیا کی چھ بڑی فلم انڈسٹریوں میں شمار ہوتی تھی، بھارتی موسیقار پاکستان کی دھنیں چوری کرتے تھے، گلوکار پاکستانی گلوکاروں کی نقل کرتے تھے، نغمہ نگار پاکستانی شاعروں کے مصرعے اڑاتے تھے اور کہانی کار کہانیوں کے چربے تیار کرتے تھے، صادقین اور گل جی جیسے پاکستانی مصوروں کا طوطی پوری دنیا میں بولتا تھا، پاکستان یورپ کے ہپیوں کی گزر گاہ تھا، ہپی ذاتی گاڑیوں، موٹر سائیکلوں اور کاروانوں پر پاکستان آتے تھے اور پاکستان سے بھارت اور آخر میں نیپال چلے جاتے تھے، 1980ء کی دہائی تک ملک میں ہزاروں چھوٹی بڑی لائبریریاں تھیں، پرائیویٹ لائبریری اس دور میں پاکستان میں بڑا اور کامیاب بزنس تھا، لوگ دکان میں چار پانچ سو کتابیں رکھ کر اپنا روزگار چلا لیتے تھے، شہروں میں پارک تھے۔
میدان تھے، چائے خانے تھے، لوگ 1980ء کی دہائی تک مولویوں کو پسند نہیں کرتے تھے، جماعت اسلامی اس دور کی سب سے بڑی مذہبی سیاسی جماعت تھی لیکن یہ 39 برس کی سیاسی جدوجہد کے باوجود پارلیمنٹ میں جگہ نہیں بنا سکی تھی، یہ اقتدار کے ایوانوں سے کوسوں دور تھی، فیض احمد فیض اور جوش ملیح آبادی جیسے ترقی پسند دانشور ملک میں عزت بھی پا رہے تھے اور مقام بھی۔ اس دور میں بزنس مین صرف بزنس مین ہوتا تھا، وہ مذہبی بزنس مین نہیں تھا، استاد صرف استاد تھا وہ سنی، وہابی یا شیعہ استاد نہیں تھا، طالب علم صرف طالب علم تھے وہ سندھی، پنجابی، پٹھان، بلوچی اور سرائیکی طالب علم نہیں تھے اور اس زمانے میں قرآن مجید صرف قرآن مجید اور مسجد صرف مسجد ہوتی تھی وہ سنیوں، وہابیوں، اہلحدیث، دیوبندیوں اور شیعوں کی مسجد یا بریلویوں اور دیوبندیوں کا قرآن مجید (شرح، تشریح) نہیں ہوتا تھا لیکن پھر جنرل ضیاء الحق اور امریکا دونوں کو افغانستان میں لاشوں کی ضرورت پڑ گئی، دونوں نے ریسرچ کی تو پتہ چلا یہ جنگ مولوی کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہو گی چنانچہ دونوں نے علماء کرام کی مدد لینے کا فیصلہ کیا، یہاں سوال پیدا ہوتا ہے مولوی کی مدد کیوں لی گئی؟
اس کی دو بڑی وجوہات ہیں، پہلی وجہ برصغیر پاک و ہند کی مذہبی روایات ہیں، اسلام اس وقت دنیا کے 245 ممالک میں ہے لیکن اسلام کے معاملے میں جتنے کنفیوژ برصغیر کے مسلمان ہیں اتنے دنیا کے کسی دوسرے ملک میں نہیں ہیں، آپ سعودی عرب سے لے کر ایران تک پوری اسلامی دنیا کا مطالعہ کر لیں، آپ کو کسی جگہ کنفیوژن نہیں ملے گی لیکن آپ اسلام کی جو تصویر برصغیر میں دیکھیں گے وہ آپ کو دنیا کے کسی دوسرے اسلامی ملک میں نظر نہیں آئے گی، سعودی عرب میں 15 فیصد شیعہ آباد ہیں، وہاں کوئی مسئلہ نہیں اور ایران میں 9 فیصد سنی ہیں، وہاں بھی کوئی لڑائی نہیں، شام، اردن، ترکی، تیونس اور الجزائز میں عیسائی اور یہودی دونوں آباد ہیں۔
وہاں کوئی کسی عیسائی کو بھٹے میں ڈال کر نہیں جلا رہا، اسرائیل کے اندر مسجدیں بن رہی ہیں، یہودی اب آہستہ آہستہ مسلمانوں کو اسرائیل میں آباد ہونے کا موقع دے رہے ہیں، وہاں فلسطینی یہودی ایشو حل کی طرف بڑھ رہا ہے، مصر کے مسلمان بے لچک نظریات رکھتے ہیں، یہ القاعدہ کے ابتدائی سپورٹر بھی تھے لیکن وہاں سیاحت بھی چل رہی ہے، دریائے نیل کی بحری سیاحت دنیا کے دس بڑے کروز میں شمار ہوتی ہے اور بحری جہازوں کا ماحول مکمل مغربی ہوتا ہے، میں خود یہ کروز لے چکا ہوں، گورے اور گوریاں جہاز کی چھت پر سوئمنگ پول میں نیم برہنہ حالت میں لیٹے رہتے ہیں اور مصری عوام کو ان پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا لیکن برصغیر کا مسلمان اس معاملے میں متشدد واقع ہوا ہے، یہ مذہب میں بے لچک رویئے کا حامل ہے، یہ ایمان، تقویٰ اور برائی کی نہ صرف اپنی تعریف وضع کرتا ہے بلکہ یہ اپنی مرضی کا ایمان اور تقویٰ بزور بازو نافذ کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے، یہ برائی کو بھی بازو اور زبان سے روکنا عین جہاد سمجھتا ہے، دوسری وجہ برصغیر کے لوگ ہزاروں سال سے مرنے کو جینے پر فوقیت دیتے آ رہے ہیں۔
یہ ہزاروں سال سے موت کو عبادت سمجھتے آ رہے ہیں، ہندوستان کی عورتیں خاوند کی موت پرستی ہو جاتی تھیں اور ہندوستان میں ایک ایسا وقت بھی تھا جب خودکشی کو عظیم ترین عبادت سمجھا جاتا تھا، آج بھی برصغیر میں ایسے قبائل، گروپ اور نسلیں موجود ہیں جو طبعی کے بجائے خودکشی کی موت کو اہمیت دیتی ہیں، آپ آج پاکستان کا کوئی ایک اخبار منتخب کریں اور اس کی سال بھر کی فائلیں سامنے رکھ کر پڑھنا شروع کر دیں، آپ کو 365 دنوں میں سے کوئی ایک ایسا دن نہیں ملے گا جس میں اخبار میں دس پندرہ بیس لوگوں کے مرنے کی خبریں نہ ہوں، ہمارے ملک میں بارش ہو جائے تو خبر آتی ہے لاہور میں بارش سے چھ لوگ مارے گئے، سردی آ جائے تو خبر آتی ہے درجہ حرارت نقطہ انجماد سے ایک درجے نیچے،24 لوگ ہلاک، گرمی کا موسم ہو تو بلوچستان میں گرمی کی لہر، 14 لوگ ہلاک، بارش نہ ہو ،،خشک سالی، 41 لوگ ہلاک،، محرم کا مہینہ آ جائے تو بھی مرنے کی خبریں آ جاتی ہیں۔
میلاد النبیؐ ہو تو بھی لوگ مارے جاتے ہیں، کسی بزرگ کا عرس ہو تو بھی لوگ مر جاتے ہیں، میلے ہوں تو لوگ مارے جاتے ہیں، میچ ہو رہا ہو تو بھی ایک آدھ لاش گر جاتی ہے اور اگر سیاسی جلسہ ہو، جلوس نکلے یا دھرنا ہو جائے تو بھی دس پندرہ بیس لوگوں کے مرنے کی اطلاع آ جاتی ہے، ہم لوگ شادیوں، بسنت اور سالگروں تک میں مر جاتے ہیں جب کہ آپ کو اس کے مقابلے میں یورپ کے اخبارات میں چھ چھ مہینے کسی کے مرنے کی خبر نہیں ملتی،یہ ثابت کرتا ہے ہم لوگوں کو واقعی زندگی سے کوئی دلچسپی نہیں اور جب کسی خطے میں موت اس قدر ارزاں اور عوام کے ذہن، فہم اور روح کا حصہ ہو جائے تو وہاں کے لوگوں کو مرنے اور مارنے کے لیے تیار کرنے میں وقت نہیں لگتا چنانچہ امریکا نے ہماری مذہبی کنفیوژن اور ہماری موت سے دلچسپی کا فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا اور یہ نسخہ کارآمد ثابت ہوا۔
جنرل ضیاء الحق اور ان کے رفقاء نے ملک کو امریکی جہاد کی فیکٹری بنا دیا، علماء کرم کی مدد لی، یہ لوگ اجتماعات میں جہاد اور شہادت کی تلقین کرنے لگے، مدارس بنائے گئے اور ان مدارس کو عرب ممالک مالی مدد دینے لگے، پاکستان نائین الیون تک عربوں کے صدقات، خیرات اور زکوٰۃ کا سب سے بڑا کنزیومر تھا، حج کے دوران سعودی عرب سے بیسیوں جہاز گوشت لے کر پاکستان آتے تھے اور یہ گوشت افغان مہاجرین اور مدارس کے بچوں میں تقسیم کیا جاتا تھا، جنرل صاحب نے پی ٹی وی، ریڈیو پاکستان، فلم انڈسٹری، میڈیا، ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کو بھی اس کام پر لگا دیا، ملک میں جہادی ادب اور جہادی صحافت شروع ہوئی، پی ٹی وی نے نسیم حجازی کے ناولوں پر ڈرامے بنانے شروع کیے۔
یہ ڈرامے مقبول ہوئے، حکومت نے افغانستان سے آنے والی لاشوں کے جنازے بھی پڑھنا شروع کر دیے، وزراء کو ہدایت تھی وہ مجاہدین کے جنازوں میں شریک ہوں گے، قبروں سے خوشبو آنے کی خبریں بھی شائع ہونے لگیں، مجاہدین کے لواحقین کو سرکاری امداد بھی ملنے لگی، جنرل ضیاء الحق کے دور میں مساجد کو سیاسی اہمیت حاصل ہوئی، امام صاحب منبر رسول پر بیٹھ کر روس کے خلاف اور امریکا کی حمایت میں تقریریں کرنے لگے، مدارس کی انتظامیہ تھانوں، کچہریوں اور جیلوں سے اپنے لوگوں کو بھی چھڑانے لگی اور یوں معاشرے کا اعتدال ختم ہوتا چلا گیا، آپ یہ ذہن میں رکھیں دنیا میں ہر عمل کا ردعمل ضرور ہوتا ہے، ہمارے ملک میں جب اسلام کے نام پر رائفل اٹھائی گئی تو اس کے رد عمل میں معتدل لوگوں نے بھی بندوق سیدھی کر لی، ملک میں مافیاز بنے، یہ مافیاز پہلے سیاستدانوں کے پیچھے چھپے اور یہ بعد ازاں فرقوں کے پیچھے پناہ گزین ہو گئے۔
ان لوگوں نے نسل اور زبان کو بھی میدان جنگ بنا دیا اور یہ اب ملک میں طبقاتی جنگ کا ذریعہ بھی بن رہے ہیں اور آپ یہ بھی ذہن میں رکھئے رائفل اور گولی کا کوئی مذہب، کوئی فرقہ، کوئی جماعت اور کوئی طبقہ نہیں ہوتا، یہ صرف رائفل اور صرف گولی ہوتی ہے، معاشرے میں جب ایک بار بندوق اور گولی آ جائے تو پھر یہ اپنے مالکان بدلتی رہتی ہے، ہم نے رائفل اور گولی کو افغان جہاد کے لیے ملک میں آنے کی اجازت دی لیکن آج یہ ملک کے ہر طبقے کے ہاتھ میں ہے، کیوں؟ کیونکہ یہ مالک بدل رہی ہے اور یہ اس وقت تک اپنے مالک بدلتی رہے گی جب تک یہ ملک میں رہے گی۔ہم اب صورت حال کو بدلنا چاہتے ہیں، ہمیں بدلنا چاہیے بھی لیکن یہ ذہن میں رکھئے ہمیں صورت حال کو گراؤنڈ زیرو پر واپس لانے کے لیے ایک بار پھر ان علماء کرام، مدارس اور مفتیان کی مدد لینا پڑے گی۔
آپ کو یاد ہو گا امریکا نے جب 2001ء میں افغانستان اور 2009ء میں وزیرستان میں کارروائی کا فیصلہ کیا تو امریکا کے پالیسی ساز برطانیہ گئے اور ان ریٹائر فوجیوں اور منصوبہ سازوں سے ملے جو پاکستان بننے سے قبل ہمارے قبائلی علاقوں میں کام کرتے رہے تھے اور جنھوں نے مختلف ادوار میں افغانستان میں خدمات سرانجام دی تھیں، ان سب نے ان سے کہا ،،آپ افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں فوج نہ اتارنا آپ ہار جاؤ گے، آپ انھیں فضا سے مارو،، یہ وہ نسخہ تھا جس پر عمل کر کے امریکا نے 2002ء میں افغانستان پر قبضہ کیا اور یہ آج 2015ء تک ہمارے قبائلی علاقوں پر ڈرون بھیج رہا ہے، آپ بھی امریکا کی تکینک استعمال کریں، ملک کے علماء کرام کو جمع کریں، ان سے مشورہ کریں ،،ہم ملک کو دہشت گردی سے کیسے نکال سکتے ہیں؟،، آپ ان سے مدد بھی لیں، یہ آپ کو طریقہ بھی بتائیں گے اور آپ کی مدد بھی کریں گے، آپ نے اگر ان کو سائیڈ پر رکھ کر حل نکالنے کی کوشش کی تو آپ کامیاب نہیں ہو سکیں گے، کیوں؟ کیونکہ دنیا میں وہی لوگ مسئلے کو حل کر سکتے ہیں جنھوں نے یہ پیدا کیا یا جن کی مدد سے وہ مسئلہ پیدا کیا گیا اور علماء آپ کو بہتر حل بتا سکتے ہیں۔