دُلہن کے لقمے اور محروم کنٹینر
سیاست اورپھانسیوں کی خبروں سےتنگ آئے ہوئےرپورٹروں کواب کچھ نیا چاہیےاوراگروہ بھی سیاست کی دنیاسےمل جائےتوغنیمت ہوگا۔
اپنی طرف سے تو موضوع ختم ہو گیا تھا لیکن دُلہا میاں کے پرستار اسے ختم نہیں ہونے دیتے اور اسے کسی نہ کسی بہانے زندہ و تابندہ رکھنا چاہتے ہیں تا کہ یہ بھی دھرنے کی طرح کہیں ختم نہ ہو جائے۔ چنانچہ دونوں سابقہ مطلقہ میاں بیوی کی شادی پر دلہا میاں کے دھرنانچوں نے شور مچا دیا ہے کہ ان کے ہیرو نے اپنی سہاگ رات اس مشہور و معروف کنٹینر میں کیوں نہیں گزاری جس کی زیارت ان کے پرستار ایک مدت تک کرتے رہے ہیں کیونکہ ان کا لیڈر یہاں سے ہر روز اپنی پرانی تقریر دہراتا تھا، نعرے لگاتا تھا اور زرق برق مرصع چہروں اور پُرجوش نوجوانوں کے سامنے ان کے ساتھ تالیاں بجاتا تھا اور ان سے دوسرے دن آنے کا وعدہ لیتا تھا۔
یہ سلسلہ اتنا طویل ہو گیا تھا کہ ہماری پاکستانی زندگی کی شاموں کا حصہ بن گیا تھا۔ شکریہ تھا ان ٹیلی وژن چینلوں کا جو شام کے ان ہنگاموں کو عوام کی خدمت میں بڑے شوق کے ساتھ پیش کرتے تھے لیکن دوام کس کو ہے اس دنیا میں، ان رونقوں کا مرکز کنٹینر بھی اپنی قسمت کھو بیٹھا اور جب اصل وقت آیا تو اسے کسی نے نہ پوچھا۔ اس کنٹینر کو دیکھ دیکھ کر زندہ رہنے والے دُلہا میاں کے پرستار آج دکھی ہیں جس کا اظہار ان کے ٹیلی فونوں سے ہوتا ہے۔ خود یہ کنٹینر شاید ان سب سے زیادہ دکھی ہے اور کہیں سر چھپا کر رنج و غم میں ڈوبا ہوا ہے جیسے اسے بھی طلاق یافتہ دُلہا اور دُلہن کی طرح طلاق دے دی گئی ہو اور یہ تیسرا مطلقہ ہو۔ اب اسے بھی کہیں سے اپنا ساتھی تلاش کرنا ہو گا خواہ وہ بھی مطلقہ کیوں نہ ہو ورنہ اکیلے میں یہ زندگی کیسے گزر سکتی ہے۔
خیال تھا کہ اب شادی ہو گئی اور ہمارا میڈیا اس شادی شدہ جوڑے کو نئی زندگی سے لطف اندوز ہونے کے لیے تنہا چھوڑ دے گا لیکن میڈیا ان کے گلے پڑ گیا اور وہ بھی دونوں چونکہ اپنے اپنے شعبے کے آرٹسٹ لوگ ہیں اس لیے میڈیا کو گلے سے اتارنا بھی نہیں چاہتے اور شادی شدہ زندگی کا آغاز میڈیا کی گھن گرج میں کرنا چاہتے ہیں۔ یہاں تک کہ ولیمہ بھی غریبانہ انداز میں کرتے ہیں تا کہ امیر ترین جوڑے کا ولیمہ بھی ایک خبر بن جائے اور میڈیا تو حد کرتا ہے کہ ولیمے کی دعوت میں دلہن کے لقمے تک بھی گنتا ہے کہ وہ گیارہ تھے اور دو بار اس نے دلہا کو ٹشو پیپر بھی دیے ہیں، میں ڈر رہا ہوں کہ میڈیا والے کہیں حجلۂ عروسی میں بھی نہ گھس گئے ہوں۔ شادی کے بعد دوستوں نے ایک دلہا سے حال چال پوچھا تو اس نے بیزار ہوکر ایک بات کی جو لطیفہ بن گئی۔ منہ پھٹ میڈیا والے کہیں ایسے ہی لطیفے نہ تراش رہے ہوں۔
سیاست اور پھانسیوں کی خبروں سے تنگ آئے ہوئے رپورٹروں کو اب کچھ نیا چاہیے اور اگر وہ بھی سیاست کی دنیا سے مل جائے تو غنیمت ہو گا۔ لگتا ہے ابھی چند دن تک یہ شادی خبروں میں چلے گی اور ہم آپ لطف اندوز ہوتے رہیں گے۔ یہ شادی کامیاب رہے گی کیونکہ دونوں ہی شادی کے معاملے میں تجربہ کار ہیں۔ اس سے قبل ان کی ایک اینگلو پاکستانی شادی محض اس لیے ٹوٹ گئی کہ نہ دلہن پاکستان میں رہنا چاہتی تھی اور نہ دلہا انگلستان میں مستقل قیام پر تیار تھا لیکن اس کے باوجود آج یہ دلہن نئے شادی شدہ جوڑے کو دعوت دے رہی ہے کہ تم اپنا ہنی مون میرے یہاں آ کر منائو۔ برطانیہ کے اشرافیہ کی روایت اور کلچر دیکھیے کہ اس میں کتنی فراخدلی اور رکھ رکھائو ہے۔ عمران خان کی شادی کا یہ سلسلہ جاری رہے گا اور ہمارا میڈیا اسے ٹوٹنے نہیں دے گا۔ اب اطمینان کی ایک اور خبر۔
اخباروں میں بتایا ہے کہ حکومت پنجاب نے دہشتگردی کے خطرے کے پیش نظر لاہور میں وزیراعظم کی رہائش گاہ جاتی امراء کے گرد سیکیورٹی دیوار کی تعمیر کے منصوبے پر غور شروع کر دیا ہے۔ رہائش کے گرد دس فٹ اونچی اور اڑھائی کلو میٹر لمبی دیوار تعمیر کی جائے گی جس کی تعمیر پر کوئی 15 کروڑ روپے خرچ کا اندازہ ہے۔ اس کے علاوہ وزیراعظم ہائوس کی حفاظت کے لیے جدید ترین الارم سسٹم، سیکیورٹی کیمرے اور بکتر بند گاڑیاں بھی خریدی جائیں گی۔ ہر پاکستانی کی یہ خواہش ہے کہ حکومت پنجاب کا یہ منصوبہ جلد از جلد مکمل ہو تا کہ قوم اپنے وزیراعظم کی سیکیورٹی سے کسی حد تک مطمئن ہو جائے۔ اس دیوار پنجاب کی وجہ سے ان سیکیورٹی والوں کو بھی کچھ سکون نصیب ہو گا جو دن رات بھوکے، پیاسے حفاظت پر مامور رہتے ہیں۔ امید ہے کہ یہ قومی، حفاظتی منصوبہ ضرور مکمل ہو گا کیونکہ پنجاب بھی اسی خاندان کی عملداری میں ہے جس سے وزیر اعظم کا تعلق ہے۔
وزیر اعظم نے ابھی چند برس مزید حکومت میں رہنا ہے۔ ان کے عہدے کی میعاد پانچ برس ہے اور بالکل ممکن ہے کہ وہ ایک بار پھر الیکشن جیت کر وزیر اعظم بن جائیں لیکن ہر محب وطن پاکستانی کی خواہش ہے کہ اس بار وہ الیکشن جیت کر یہ اعلان نہ کریں کہ قوم نے انھیں بھارت کے ساتھ دوستی کے لیے ووٹ دیے ہیں۔ یہ دل جلانے والی باتیں ہیں جب کہ بھارت کی دشمنی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ جیسے اس کے ساتھ ہماری دوستی کی تمنائیں بھی بڑھ رہی ہیں۔
اول تو یہ بات ہی سو فیصد سے بھی زیادہ غلط ہے کہ کسی ایک پاکستانی نے بھی بھارت دوستی کے لیے ووٹ دیا ہو۔ جناب وزیر اعظم کو اس کا بخوبی علم ہے لیکن بھارت نے تکلفاً بھی اپنے کسی عمل سے ہمارے ساتھ دوستی کا اظہار نہیں کیا بلکہ ان دنوں اپنے ہاں مسلمانوں کو ہندو مذہب اختیار کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ تحریک پاکستان میں قائداعظم نے عرب ملکوں کے دورے میں عربوں کو بتایا تھا کہ اگر ایشیا کے اس خطے میں پاکستان نہ بنا تو وہاں مسلمانوں کو ختم کر دیا جائے گا۔ صرف ایک مسلمان ریاست ہی اس خطے کے مسلمانوں کو بچا سکتی ہے۔ کیا پتہ تھا کہ بابائے پاکستان کو کہ اس کے جانشین بھارت کے ساتھ دوستی میں مرے جا رہے ہوں گے۔ کیا بابا کی جیب کے کھوٹے سکے ابھی تک بازار سیاست میں چل رہے ہیں۔