کٹ مرا ناداں خیالی دیوتاؤں کے لیے

دنیا کا کوئی مذہب اپنے پیروکاروں کو نفرت، تعصب، قتل و غارت اور تشدد کی تعلیم نہیں دیتا۔


Raees Fatima January 10, 2015
[email protected]

ISLAMABAD: کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ اگر دنیا کے تمام لوگوں کا مذہب ایک ہی ہوتا تو شاید انسان امن سے رہ سکتا کیونکہ دنیا بھر میں جتنا خون مذہب کے نام پر بہا ہے وہ کسی اور وجہ سے نہیں بہا۔ دنیا کا کوئی مذہب اپنے پیروکاروں کو نفرت، تعصب، قتل و غارت اور تشدد کی تعلیم نہیں دیتا لیکن مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کا خیال ان ہوس پرست اور طالع آزماؤں کو اس وقت آیا ہو گا۔

جب انھوں نے محسوس کیا ہو گا کہ انسان خود اپنے ہاتھوں سے تراشیدہ صنم کی جب پرستش کر سکتا ہے تو کیوں نہ انھیں جیتے جاگتے بتوں کے قدموں میں ڈال کر جو چاہو کام کروا لو۔ لہٰذا دنیا کے کونے کونے میں دبکے ہوئے شیطانی دماغوں نے اپنے اپنے تاحیات اقتدار کے لیے ایک خاموش سمجھوتا کیا۔ جس کے تحت مذہبی پیشواؤں نے ایک خودساختہ دنیا تخلیق کر لی۔ اندر سے یہ سب سیاست دانوں اور سرمایہ داروں کی طرح متحد اور باہر سے ایک دوسرے کے خلاف صف آرا، کلیسا اور مندر کا اقتدار محلات شاہی اور راجوں مہاراجوں راجواڑوں سے ہوتا ہوا زار روس اور زارینہ تک جا پہنچا، راسپوٹین کی طاقت اور اثر و رسوخ کہاں تک تھا اس کی تفصیلات سے کتابیں بھری پڑی ہیں۔

رہ گئے مسلمان تو یہ دین ایک مکمل ضابطہ حیات کے طابع تھا۔ یہاں ذات پات کا کوئی بکھیڑہ نہ تھا۔ مغربی دنیا مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی طاقت اور ان کے نظام حیات سے ایک طرح خوف زدہ ہو گئی۔ لیکن اہل مغرب نہایت عیار اور مکار تھے۔ لہٰذا انھوں نے لڑنے بھڑنے کے بجائے مسلمانوں کے اندر گروہ پیدا کر دیے۔ یہ سلسلہ آپس کی مذہبی جنگوں سے ہوتا ہوا لارنس آف عریبیہ تک جا پہنچا اور وہ سلطنت عثمانیہ جو مشرق وسطیٰ سے لے کر یورپ تک پھیلی ہوئی تھی اور عیسائی حکمرانوں کے لیے ناقابل تسخیر تھی۔ لہٰذا جب وہ فوجی طاقت سے اسے ختم نہ کر سکے تو سازشوں کے جال بُنے گئے۔ اس طرح مسلمان خود اندر ہی اندر مسلکی بنیادوں پر تقسیم ہو گئے۔ یہیں پر بات ختم نہیں ہوئی۔

بلکہ اب مغربی اقوام کی نظریں جزیرہ نمائے عرب سے بوجوہ ہٹ کر برصغیر پہ مرکوز ہو گئیں کہ ہندوستان محبتوں، امن اور شانتی کی سرزمین تھا۔ یہاں ہندو، مسلمان اور سکھ آپسی بھائی چارے کے ساتھ رہتے تھے۔ ہندوستان سونے کی چڑیا کہلاتا تھا۔ اس سونے کی چڑیا کے پر کاٹنے کے لیے بھی اہل مغرب نے عیاری اور مکاری کو اپنا ہتھیار بنایا۔ بھائی کو بھائی سے لڑایا۔ جن پڑوسیوں کے بچے ایک دوسرے کے آنگن میں کھیل کر بڑے ہوئے تھے، جن کی ہولی، دیوالی، بیساکھی، عید، بقرعید سانجھے تھے۔ وہ نفرتوں کی آگ میں جل اٹھے۔ اس آگ کو مذہبی رہنماؤں نے مزید بھڑکایا کہ ان کا دال دلیہ اسی آگ کے شعلوں کی دین تھی۔ پھر یہ دال دلیہ، خطابات تک جا پہنچا، سر اور خان بہادر کے حامل خود کو انگریز سرکار کا وفادار ثابت کرنے کے لیے اپنے ہی لوگوں کی مخبری کرتے رہے۔ کلکتہ (اب کولکتہ) کے ساحل پہ اترنے والے بحری جہاز ہندوستان کی تباہی و بربادی ساتھ لائے۔

وہ جانتے تھے کہ ''لڑاؤ اور حکومت کرو'' کا نسخہ یہاں بہت کارگر ثابت ہو گا۔ اگر ان احمقوں کو ہندو، مسلم اور سکھ کے خانوں میں بانٹ دیا جائے تو اس سونے کی چڑیا کو پنجرے میں آسانی سے بند کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ وہ اپنی مکارانہ طبیعتوں کی بدولت جانتے تھے کہ ہندوستان بہت بڑا ملک ہے۔ بے پناہ وسائل کا حامل، قدرتی معدنی وسائل سے لبریز، زرعی، صنعتی اور معاشی اعتبار سے مالا مال ہونے کے باوجود جہالت اور غربت کے چنگل میں پھنسا ہے۔ ذات پات، اونچ نیچ، برہمن اور اچھوت کے چکر میں پھنسا ہے۔ یہاں شب خون مارنا آسان ہو گا۔ لہٰذا پہلے تو انھوں نے ہندوؤں کو احساس دلایا کہ مسلمان مغل حملہ آور دراصل غاصب ہیں۔ انھوں نے تمہاری سرزمین پہ قبضہ کیا ہے۔

اور دوسری طرف مسلمانوں میں ایک تفاخر پیدا کر دیا کہ وہ ایک خدا کو مانتے ہیں جب کہ ہندو قوم بت پرست ہے۔ دونوں قوموں نے جہالت کی وجہ سے یہ نہ سوچا کہ وہ دونوں تو اپنے اپنے طریقے سے اسی طرح رہتے چلے آئے ہیں۔ اب یہ کیا آفت آ گئی کہ مسلمان ملیچھ کہلانے لگے کہ ان کے ناپاک قدم مندر میں نہیں جا سکتے اور دوسری طرف یہی نفرت مسلمانوں کے دلوں میں بھی بھر دی گئی۔ خوب۔۔۔۔۔ ! سور اور گؤ ماتا نے کام بہت آسان کر دیا اور پھر خون کی ندیاں بہیں، ملک تقسیم ہوا، برسوں سے بسے بسائے گھرانے اپنی اپنی زمین، گھر، یادیں اور پیاروں کی قبریں چھوڑ کر ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر ہو گئے۔ بقول شاعر:

ایک پل میں یہاں سے ہم یوں اٹھے
بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے

اپنے جمے جمائے ٹھکانوں کو افراتفری میں چھوڑ کر نئی جگہوں پہ پناہ لینے والے لوگ سمجھے تھے کہ ''اب امن ہو جائے گا'' کیونکہ گؤ ماتا کی پوجا کرنے والے اور اس کا گوشت کھانے والے الگ الگ ہو گئے؟ لیکن کیا یہ دردناک خواب نہیں تھا؟ اگر تقسیم ہی واحد حل تھا تو پھر بنگلہ دیش کیوں بنا؟ مولانا آزاد کی پیشین گوئی تو اسی دن پوری ہو گئی تھی جب مشرقی پاکستان ختم ہوا تھا، کیا ایک بار پھر سازشی عناصر کامیاب نہیں ہوئے؟ اقتدار باقی رہے۔ ملک رہے نہ رہے۔ ''ادھر ہم ادھر تم'' رہے نام اللہ۔ صرف قبریں باقی رہ گئیں۔ لیکن عقل اب بھی نہ آئی۔ وہ جو بسے بسائے گھروں کو چھوڑ کر یوں ہی تین کپڑوں میں نکل آئے تھے۔ ان کی کوئی زمین آج بھی نہیں۔ کیا وہ یہ کہنے میں حق بجانب نہیں:

بسے بسائے گھروں سے اجڑنے والے ہم
وہ اہل ہجر ہیں' جن کا کہیں گزارا نہیں

یہ بات اب لوگوں کی سمجھ میں تو آ چکی ہے لیکن کوئی بھی حکومت اس معاملے میں سنجیدہ نہیں۔ آج دہشتگردی کے خلاف افواج پاکستان کے تعاون سے جو قدم اٹھایا جا رہا ہے وہ قابل تعریف تو ضرور ہے لیکن تاخیر بہت ہو چکی ہے۔ مولوی فضل اللہ اور منگل باغ جیسے جنونیوں سے خبردار کرنے کے حوالے سے کالم نگاروں نے بھی اپنا حق ادا کیا۔ لیکن اس وقت کسی نے اہمیت نہ دی کیونکہ مذہب کی آڑ لے کر تخریبی کارروائیاں کرنے والے کچھ لوگوں کے ہیرو تھے۔ افسوس کہ ان کے پجاری ہماری صفوں ہی میں ہیں۔ وہ اپنے چالیس دہشت چھڑانے کے لیے ہماری کسی بھی اہم شخصیت کو اغوا کر لیتے تھے۔ مطالبات پیش کرتے تھے اور جب تک ان کے تمام مطالبات مان نہ لیے جاتے وہ قیدی کو پابہ زنجیر رکھتے تھے۔

افسوس کہ ڈالروں اور اقتدار کی ہوس نے آج حکمرانوں کے نوزائیدہ بچوں کے منہ میں چاندی کے چمچے دے دیے ہیں لیکن اس کے عوض وہ من مانی کارروائیاں اطمینان سے کرتے جا رہے ہیں۔ وہ مجرم جو پھانسی کے سزاوار تھے انھیں ایک نادر و نایاب شے کی طرح حفاظت سے کیوں اور کس کے حکم پر رکھا گیا؟ کس کے ایما پر ان پہ فرد جرم عائد نہیں کی گئی؟ کس نے ظالم اور قاتلوں کی ضمانت کروا کے انھیں تحفظ دیا؟ یہ کون ہیں جو فی سبیل اللہ فساد برپا کرنے کے حامی ہیں؟ ان کا ایجنڈا کیا ہے؟

کیا کوئی نئی قیامت؟ ذرا ظہور اسلام کے بعد سے لے کر سلطنت عثمانیہ کے خاتمے تک کی جنگوں کا احوال اور وجوہات پڑھ لیجیے۔ سب سمجھ میں آ جائے گا ۔ یہ سچ ہے کہ دہشت گردی کی نرسریاں صرف مدرسے نہیں اور بھی بہت کچھ ہے۔ نجی مجلسوں میں، گروہوں میں دوسرے مسالک کے خلاف جو زہر اگلا جاتا ہے۔ تیزاب سے بھری بوتلیں اور آتش گیر مادہ کہاں پھینکنے کے لیے جمع کیا جاتا ہے۔ اس کا ادراک حکومت کو ہونا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں