قوم اور قومی رویے

چھین لو، جھپٹ لو، لوٹ لو،جتنا ہاتھ لگتا ہے لے لو، ناجانے پھر مالِ غنیمت ہاتھ آئے نہ آئے۔


ڈاکٹر عفان قیصر January 10, 2015
www.facebook.com/draffanqaiser

چھین لو، جھپٹ لو، لوٹ لو،جتنا ہاتھ لگتا ہے لے لو، ناجانے پھر مالِ غنیمت ہاتھ آئے نہ آئے۔ہم نے کئی سال بطور قوم اسی اصول پر عمل کیا۔بجلی جس کے ہاتھ جتنی لگی،جیسے لگی،اس نے مالِ مفت سمجھ کے استعمال کی۔اس کام میں سب سے معزز طریقہ سرکار سے جڑے محکموں اور ان کے ملازموں کا تھا۔سو روپے،پچاس روپے ماہانہ کے فکس بلوں کی مد میں دن رات ونڈو اے سی چلائے گئے، کسی نے کبھی یہ سوچا ہی نہیں تھا کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا، جب ہم بجلی کو ترسیں گے۔

جن کا اسٹائل ذرا مختلف تھا ، انھوں نے کنڈیوں ،تاروں کا استعمال کیا۔دنیا میں شائد ہی کوئی ملک ایسا ہوگا جہاں شہروں کے شہر ، صوبوں کے صوبے بجلی کا استعمال اس بے دردی سے کرنے کے باوجود بِل ادا نہیں کرتے ہوں گے، مگر اس مقروض ملک میں ایسا ہی ہوا اور اب جب سب لُٹ چکا ہے،تب بھی رہے سہے مال پر یہی عیش جاری ہے۔گیس آئی۔ہم نے وہی کیا۔چھینا،لوٹا ،جس کے ہاتھ جتنی لگی اڑا لی۔مجھے آج بھی یاد ہے ہمارے اسکول میں ایک پروفیسر صاحب اکثر کہا کرتے تھے،ہم سونا جلا رہے ہیں،ایک دن ہم روئیں گے،اس وقت ان کی بات کی سمجھ نہیں آتی تھی۔

اب آتی ہے ۔آنے والے وقتوں میں ہم نے گاڑیوں،ویگنوں،حتیٰ کے پہیوں پر چلنے والی چھوٹی سے چھوٹی سواری سے لے کر ، دیو ہیکل ٹرالوں، بسوں تک میں اس سونے کو کوڑیوں کے بھائو جلایا۔یہاں بھی ہم نے بجلی کی طرح پچاس ،سو والی پالیسی دہرائی۔کسی اسٹیشن پر پچاس فیصد آف، کسی پر ستر، پرکشش ہوٹلوں،گرینڈ ریسٹ اسپاٹس،سب کا دھندہ اسی گیس کی لوٹ کھسوٹ میں چلنے لگا۔ ہر جگہ ایک ایک منٹ کے فاصلے پر اسٹیٹ آف دی آرٹ برقی قمقموں میں جگمگاتے لوٹ کے بازار سجائے گئے۔ اس کی مثال بھی پوری دنیا میں نہیں ملے گی کہ ہم نے اتنی بڑی قدرتی نعمت کو سستے ترین داموں پہیے گھمانے میں ضایع کردیا۔ سب اس گنگا جل میں ہاتھ دھو رہے تھے۔

تو فیکٹریوں اور مِلوں کے سوداگر کیسے پیچھے رہتے ، جو مقصد کوئلہ جلا کر پورا کیا جاسکتا تھا، انھوں نے کرپشن کے بازار قائم کرکے ،اوپر سے نیچے تک گیس اور بجلی کی بندر بانٹ میں مصروف مٹھیوں کو خوب گرم کرکے ،کوئلے کا متبادل چوری کی بجلی اور کوڑیوں بھائو گیس سے حاصل کیا ۔بھٹیاں گرم کی گئیں اور قومی دولت کو دھواں کردیا گیا۔گھروں میں بھی ، ہم نے یہی کیا۔جو کام مہذب معاشروں میں گرم لحافوں ،گرم ملبوسات سے لیا جاتا ہے۔

ہم نے ہاتھ سینک سینک کرسر انجام دیا۔گرمیاں آئیں ، تو بجلی کا استعمال ،بغیر کسی سمجھ بوجھ کے کیا، سردیاں آئیں تو گیس کی زیادتی سے موت کی وادیوں میں جا کر اخباروں کی سرخیاں بننا تو قبول کرلیا، مگر گیس کو اعتدال سے استعمال کرنے اور نسلوں کے لیے بچا کر رکھنے کا خیال کسی کو نہ آیا۔ بات بھی ٹھیک تھی، کوئی چیک اینڈ بیلنس تھا ہی نہیں۔ ہم نے بدلنا تو دور کی بات ہے، ریورس گیئر لگا کر اپنے ہی ہاتھوں سب برباد کر ڈالا۔اب حالات یہ ہیں کہ ہمارے بچوں کے پاس تعلیم حاصل کرنے اور ہمارے پاس فقط ایک رات سکون کی نیند کے لیے بجلی نہیں ہے۔دیو ہیکل بسیں، فیکٹریاں بہت پیچھے رہ گئیں،ہمارے پاس اب کھانا پکانے تک کے لیے گیس نہیں ہے۔اپنی کم عمری کے دوران میں نے ان نعمتوں کو آتے اور جاتے دیکھا ہے۔یہ کوئی نصف صدی کا قصہ نہیں ہے۔یہ حشرصرف دو سے تین دہائیوں میں برپا ہوا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ ہمیں اپنی نسلوں کو کیا جواب دینا ہے؟

یہ سچ ہے کہ جب بربادی مقدر بنی ہو ،تو اندھیرا بڑھتا چلا جاتا ہے۔ میرے ملک کے کروڑوں عوام ایسے ہیں، جو اس منظر سے بالکل بے خبر اور ناآشنا ہیں جو کسی بڑے سرکاری افسر،کسی وزیر یا پھر اعلی شخصیت کے دفتر میں کسی خاموش کمرے،کسی اعلی ترین ہوٹل کی لابی، بیرونِ ملک دورے پر گئی ہوئی کسی شخصیت کے ہوٹل کے کمرے یا پھر کسی خفیہ پرتعیش مقام پر برپا ہوتا ہے۔کرپشن کا منظر،سیاست کا منظر،ملک کو مزید اندھیروں میں دھکیلنے والی کسی ڈیل کا منظر۔ اب بھی اگر معاشرتی ،سیاسی اور حکومتی سطح پر ہم ملک کے ساتھ مخلص ہوجائیں تو اس سے بھی بدترین حالات کو روکا جاسکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں