روس کا پاکستان سے سردمہری ختم کرکے تعلقات بڑھانے کافیصلہ
اسلام آباد اور ماسکو میں اسی ماہ کے وسط میں’’باہمی اسٹرٹیجک ڈائیلاگ‘‘ کاآغاز ہوگا، ذرائع
امریکا اور بھارت کے مابین بڑھتی ہوئی قربتوں کے باعث روس نے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں سردمہری ختم کرنے اوردفاع، توانائی سمیت مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے کافیصلہ کیا ہے۔
گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کواسلحے کی فراہمی پرعائد غیراعلانیہ پابندی کو اٹھانااوراہم دفاعی اور توانائی کے شعبے میں تعاون پر مبنی معاہدوں کا ہونا روس کی جانب سے اس بات کا واضح عندیہ ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کے نئے دور کا آغاز کرچکا ہے۔ سفارتی ذرائع کے مطابق اسلام آباد اور ماسکو میں اسی ماہ کے وسط میں''باہمی اسٹرٹیجک ڈائیلاگ'' کاآغاز ہوگا، اس ڈائیلاگ کے نتیجے میں دونوں ممالک اقتصادی میدان کے ساتھ ساتھ دفاع اور توانائی کے شعبوں میں باہمی تعاون میں اضافے کی بنیاد رکھیں گے۔ ذرائع کے مطابق روس پاکستان کوجدید ایم آئی 35 ہیلی کاپٹر فراہم کرنے پر بھی آمادگی ظاہر کرچکا ہے۔
اس کے علاوہ بھی روس کے ساتھ دیگر سامان حرب کی خریداری کیلیے بات چیت ہوگی۔ ذرائع کے مطابق روس کے اس طرح سے پاکستان کے قریب آنے کی ایک بڑی وجہ امریکا اور بھارت کے درمیان تعلقات میں اضافہ ہے۔ بھارت کسی زمانے میں امریکا سے دور اور روس کے قریب سمجھاجاتاتھا مگر اب وہ صورت حال نہیں رہی۔ امریکی صدر باراک اوباما جلد بھارت کا دورہ کرنے والے ہیں اور ان سے قبل امریکی وزیرخارجہ جان کیری بھی بھارت جائیں گے۔ ذرائع کے مطابق روس اب بھی بھارت کو خطے کا ایک اہم ملک سمجھتے ہوئے اس سے تعلقات کو اہمیت دیتا ہے مگر ایک بڑی تبدیلی یہ آئی ہے کہ اس نے بھارت کی مخالفت کی وجہ سے پاکستان سے دوستانہ تعلقات کو اہمیت نہ دینے کی روش ترک کردی ہے۔ معروف تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری رضوی نے ''ایکسپریس'' سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ روسی صدر ولادیمیرپوتن کی قیادت میں ایک ''گلوبل رول'' کی جانب بڑھ رہا ہے، اس لیے وہ خارجہ پالیسی کے حوالے سے اپنے ''آپشنز'' کو بڑھا رہا ہے۔
پاکستان کے ساتھ تعلقات میں گرم جوشی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ روس بھارت کو چھوڑ دے گا۔ ایک پاکستانی سفارت کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہاکہ روس کے ساتھ تعلقات میں یقیناً گرم جوشی آئی ہے، دونوں ممالک آنے والے ماہ وسال میں مختلف شعبوں میں تعاون میں تیزی سے اضافہ کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ انھوں نے کہاکہ پاکستان کا روس سے تعلقات بڑھانا پاکستان اورامریکا کے درمیان تعلقات کو متاثر نہیں کرے گا۔ امریکا پاکستان کا پرانا حلیف ہے، اصل بات یہ ہے کہ موجودہ دور میں خارجہ پالیسی کسی ایک ملک کے ساتھ تعلقات پر تکیہ کرنے کا نام نہیں ہے، تقریباً ہر ملک اپنے معاملات میں تبدیلی لارہا ہے، ماضی کے حریف حلیف بن رہے ہیں، ہر ملک اپنے مفادات کے بہترین انداز میں تحفظ کیلیے کوشاں ہے۔
گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کواسلحے کی فراہمی پرعائد غیراعلانیہ پابندی کو اٹھانااوراہم دفاعی اور توانائی کے شعبے میں تعاون پر مبنی معاہدوں کا ہونا روس کی جانب سے اس بات کا واضح عندیہ ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کے نئے دور کا آغاز کرچکا ہے۔ سفارتی ذرائع کے مطابق اسلام آباد اور ماسکو میں اسی ماہ کے وسط میں''باہمی اسٹرٹیجک ڈائیلاگ'' کاآغاز ہوگا، اس ڈائیلاگ کے نتیجے میں دونوں ممالک اقتصادی میدان کے ساتھ ساتھ دفاع اور توانائی کے شعبوں میں باہمی تعاون میں اضافے کی بنیاد رکھیں گے۔ ذرائع کے مطابق روس پاکستان کوجدید ایم آئی 35 ہیلی کاپٹر فراہم کرنے پر بھی آمادگی ظاہر کرچکا ہے۔
اس کے علاوہ بھی روس کے ساتھ دیگر سامان حرب کی خریداری کیلیے بات چیت ہوگی۔ ذرائع کے مطابق روس کے اس طرح سے پاکستان کے قریب آنے کی ایک بڑی وجہ امریکا اور بھارت کے درمیان تعلقات میں اضافہ ہے۔ بھارت کسی زمانے میں امریکا سے دور اور روس کے قریب سمجھاجاتاتھا مگر اب وہ صورت حال نہیں رہی۔ امریکی صدر باراک اوباما جلد بھارت کا دورہ کرنے والے ہیں اور ان سے قبل امریکی وزیرخارجہ جان کیری بھی بھارت جائیں گے۔ ذرائع کے مطابق روس اب بھی بھارت کو خطے کا ایک اہم ملک سمجھتے ہوئے اس سے تعلقات کو اہمیت دیتا ہے مگر ایک بڑی تبدیلی یہ آئی ہے کہ اس نے بھارت کی مخالفت کی وجہ سے پاکستان سے دوستانہ تعلقات کو اہمیت نہ دینے کی روش ترک کردی ہے۔ معروف تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری رضوی نے ''ایکسپریس'' سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ روسی صدر ولادیمیرپوتن کی قیادت میں ایک ''گلوبل رول'' کی جانب بڑھ رہا ہے، اس لیے وہ خارجہ پالیسی کے حوالے سے اپنے ''آپشنز'' کو بڑھا رہا ہے۔
پاکستان کے ساتھ تعلقات میں گرم جوشی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ روس بھارت کو چھوڑ دے گا۔ ایک پاکستانی سفارت کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہاکہ روس کے ساتھ تعلقات میں یقیناً گرم جوشی آئی ہے، دونوں ممالک آنے والے ماہ وسال میں مختلف شعبوں میں تعاون میں تیزی سے اضافہ کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ انھوں نے کہاکہ پاکستان کا روس سے تعلقات بڑھانا پاکستان اورامریکا کے درمیان تعلقات کو متاثر نہیں کرے گا۔ امریکا پاکستان کا پرانا حلیف ہے، اصل بات یہ ہے کہ موجودہ دور میں خارجہ پالیسی کسی ایک ملک کے ساتھ تعلقات پر تکیہ کرنے کا نام نہیں ہے، تقریباً ہر ملک اپنے معاملات میں تبدیلی لارہا ہے، ماضی کے حریف حلیف بن رہے ہیں، ہر ملک اپنے مفادات کے بہترین انداز میں تحفظ کیلیے کوشاں ہے۔