’’24 گھنٹے بھی کم ہیں‘‘
وقت کی تنگی سے نجات کس طرح ممکن ہے؟
الارم کی تیز آواز سے ہونے والی صبحوں کا آغاز ایک نہ ختم ہونے والے کاموں کا سلسلہ شروع کر دیتا ہے، جو رات بستر پر ڈھیر ہونے کے بعد ہی ختم ہوتا ہے۔
یہ وقت آخر ایسے کون سے سر پٹ گھوڑے پر سوار ہے، جو قا بو میں ہی نہیں۔ الارم کے ساتھ جو مذاق کیا جا تا ہے، وہ ہم سب جانتے ہیں۔ اگر آٹھ بجے اٹھنا ہے تو الارم سات بجے کا لگایا جاتا ہے، تاکہ الارم بند کرتے کرتے ہم مطلوبہ وقت پر اٹھ چکے ہوں۔ اس مضحکہ خیز صورت حال کو دیکھ کر معروف مزاح نگار شفیق الرحمن کا یہ جملہ یاد آجاتا ہے کہ کسی صاحب سے پوچھا کہ ٹائی پہننے کا سب سے بڑا فائدہ کیا ہے؟ بر جستہ جواب ملا ''اس کا سب سے بڑا فا ئدہ تو یہ ہے کہ ٹا ئی اتارنے کے بعد بڑا سکون ملتا ہے۔''
غالباً ایک گھنٹے پہلے الارم لگانے سے بھی کچھ ایسا ہی سکون ملتا ہوگا۔ چارو ناچار اٹھنے کے بعد جب بو جھل آ نکھیں نرم بستر پر حسرت بھری نگاہ ڈال کر باورچی خانے کی جانب دیکھتی ہیں۔ صبح کا اکثر وقت بچوں اور شوہر کو نا شتا کرانے میں گزر جاتا ہے۔ گھر کے کام کرتے کرتے جب نظر گھڑی کی جانب جاتی ہے، تو سمجھ نہیں آتا کہ آخر وقت کہاں چلا گیا۔ بھاگم بھاگ دوپہر کے کھانے کی تیاری کا مر حلہ شروع ہوتا ہی ہے کہ بچے گھر آکر بھوک، بھوک کرنے لگتے ہیں۔ ایسے میں ہاتھ پاؤں اور پھول جاتے ہیں۔ ابھی دوپہر کے کھا نے کی فکر کم ہوتی ہی ہے کہ رات کو کیا پکایا جائے، جیسا سوال سر اٹھانے لگتا ہے۔
یہ تقریباً ہر گھر کی کہانی ہے۔ غرض خواتین شکوہ کرتی ہی نظر آتی ہیں کہ میرے پاس تو وقت ہی نہیں، پورا دن گھر کے کاموں میں نکل جاتا ہے۔'' سوال تو یہ ہے کہ آخر یہ وقت جاتا کہاں ہے؟ پرانے زما نے میں بھی خواتین کے پا س چوبیس گھنٹے ہی ہو تے تھے اور گھر کے کام خاصے محنت طلب، کیوں کہ اس زما نے میں ٹیکنالوجی بھی اتنی عام نہیں تھی۔
آج کل کی طرح کھانوں کے تیار مسالے یا مسالا پیسنے کی مشینیں دست یاب نہ تھیں، لیکن اس کے باوجود اس زمانے کی خواتین نہ صرف اپنا کام خوش اسلو بی سے کرتی تھیں، بلکہ ان کے پاس اپنے لیے بھی خاصا وقت ہوتا تھا اور بچوں کی تربیت بھی اچھے طریقے سے ہوتی تھی۔ آ ج کل کی ماؤں کی طرح نہیں، جن کے بچوں کی پرورش تک اُن سے زیادہ ذرایع ابلاغ کر رہے ہیں۔ جدید دور میں جہاں اتنی سہولیات میسر ہیں، بہت سے کام محض انگلی کی ایک جنبش کے محتاج ہیں۔
ایسے میں وقت کی تنگی کا رونا سمجھ سے بالاتر ہے، تو کیا وجہ ہے کہ کسی بھی کام کو انجام دینے کے لیے ہمارے پاس وقت ہی نہیں ہوتا۔ کسی تقریب میں شرکت کرنی ہو، کسی بیمار کی عیادت کرنی ہو، رشتے داروں سے ملنے کا موقع ہو یا کسی تہوار کا اہتمام، صرف ایک ہی جواب ملتا ہے کیا کر یں۔ وقت ہی نہیں ہے۔ ایسے میں خود انسان بھی فرسٹریشن کا شکار ہو جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہماری زندگیاں ہمارے ہی قابو میں نہیں رہیں۔ وقت کی کمی کو صرف نظم وضبط کے ذریعے ہی پورا کیا جاسکتا ہے۔
ہم اپنے طرز زندگی کو بہتر اسی صورت بناسکتے ہیں، جب دن کے آ غاز سے ہی ہمیں معلوم ہو کہ آج ہمیں کرنا کیا ہے؟ ہر انسان اپنی زندگی میںدن بھر سے ایسے چند گھنٹے ضرور چاہتا ہے، جسے وہ من چاہے انداز میں گزار سکے اور ایسا چاہنا برا بھی نہیں، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اپنی زندگی کی باگ ڈور اپنے ہا تھ میں رکھیں۔ سب سے پہلے تو خود سے یہ سوال کریں کہ آپ اضا فی وقت میں کرنا کیا چاہتی ہیں؟ بعض لو گ لکھنے لکھانے کا شوق رکھتے ہیں، بعض باغ بانی کا، کچھ ورزش کے لیے وقت چاہتے ہیں، جب کہ ایک بہت بڑی تعداد محض آرام کی طالب ہوتی ہے۔
اگر آپ واقعی اضافی وقت چاہتی ہیں، تو اس کا راز طے شدہ حکمت عملی میں ہے۔ منظم منصوبہ بندی کے ذریعے آپ کو خود اپنے لیے کام کی حد مقرر کرنی ہوگی۔۔۔ تر جیحات طے کرنی ہوں گی کہ کون سے کام پہلے کرنے ہیں اور کون سے بعد میں۔ اگر آپ ان چند آسان سی باتوں پر عمل کریں گی، تو شاید اگلی بار جب کوئی آپ سے وقت کی کمی کا شکوہ کرے گا، تو آپ پو رے اعتماد سے کہہ سکیں گی کہ میرے پا س تو بہت وقت ہے۔ سب سے پہلے تو آ پ صبح جلدی اٹھنے کی عادت اپنالیں۔ صبح کے پرسکون وقت میں تخلیقی صلاحیتیں بھی فعال ہوتی ہیں اور ہم ہشاش بشاش ہوتے ہیں۔
اپنے دن بھر کے معمولات ذہن میں رکھ کر طے کر یں کہ فلاں کام کتنے وقت میں انجام دیا جاسکتا ہے۔ جب پورے دن کے امور آپ کے ذہن میں ہوں گے، تو نہ صر ف آپ توانائی سے بھرپور ہو کر کام انجام دے سکیں گی، بلکہ ایک کام کے ختم ہو نے کے بعد آپ کو پتا ہوگا کہ دوسرا کام کس طرح انجام دینا ہے۔ مطالعے کے لیے ضرور وقت نکا لیں اور حالت حاضرہ کا جاننا تو وقت کا تقاضا بھی ہے۔
کوشش کریں کہ مہینے میں ایک اچھی کتاب ضرور پڑھیں۔ اس سے نہ صر ف آپ کی معلومات میں اضافہ ہوگا، بلکہ سوچ کے نئے در بھی کھلیں گے۔ چہل قدمی کرنا صحت کے لیے بھی اچھا ہے اور اگر صبح کے وقت کی جائے، تو اس کے فائدے بھی بہت ہیں۔ چہل قدمی کے دوران آپ اپنے بارے میں سوچیں اپنے رویوں کا جائزہ لیں، مثبت انداز میں اپنی مصروفیات اور لوگوں سے تعلقات کا جائزہ لیں۔ آپ کو کب، کب اور کس بات پر غصہ آیا؟ دن میں کتنی بار مسکرائیں؟
کتنی بار جی کھول کر ہنسیں؟ کس بات نے آپ کو افسردہ کر دیا یا دن بھر میں ایسا کون سا کام آ پ کو خو شی دے گیا؟ یہ تمام باتیں سوچنے سے نہ صرف آ پ کو اپنے بارے میں پتا چلے گا، بلکہ آ پ اپنی غلطیوں کی نشاندہی بھی کر پائیں گی۔ اس طرح آپ خوش و خرم رہ سکتی ہیں اور روز ایک نئے جو ش اور ولو لے کے ساتھ بہتر طور پر اپنے معمولات انجام دے سکتی ہیں۔ اس سے آپ کا یہ احساس بھی جاتا رہے گا کہ آپ کے پاس وقت نہیں ہے۔
یہ وقت آخر ایسے کون سے سر پٹ گھوڑے پر سوار ہے، جو قا بو میں ہی نہیں۔ الارم کے ساتھ جو مذاق کیا جا تا ہے، وہ ہم سب جانتے ہیں۔ اگر آٹھ بجے اٹھنا ہے تو الارم سات بجے کا لگایا جاتا ہے، تاکہ الارم بند کرتے کرتے ہم مطلوبہ وقت پر اٹھ چکے ہوں۔ اس مضحکہ خیز صورت حال کو دیکھ کر معروف مزاح نگار شفیق الرحمن کا یہ جملہ یاد آجاتا ہے کہ کسی صاحب سے پوچھا کہ ٹائی پہننے کا سب سے بڑا فائدہ کیا ہے؟ بر جستہ جواب ملا ''اس کا سب سے بڑا فا ئدہ تو یہ ہے کہ ٹا ئی اتارنے کے بعد بڑا سکون ملتا ہے۔''
غالباً ایک گھنٹے پہلے الارم لگانے سے بھی کچھ ایسا ہی سکون ملتا ہوگا۔ چارو ناچار اٹھنے کے بعد جب بو جھل آ نکھیں نرم بستر پر حسرت بھری نگاہ ڈال کر باورچی خانے کی جانب دیکھتی ہیں۔ صبح کا اکثر وقت بچوں اور شوہر کو نا شتا کرانے میں گزر جاتا ہے۔ گھر کے کام کرتے کرتے جب نظر گھڑی کی جانب جاتی ہے، تو سمجھ نہیں آتا کہ آخر وقت کہاں چلا گیا۔ بھاگم بھاگ دوپہر کے کھانے کی تیاری کا مر حلہ شروع ہوتا ہی ہے کہ بچے گھر آکر بھوک، بھوک کرنے لگتے ہیں۔ ایسے میں ہاتھ پاؤں اور پھول جاتے ہیں۔ ابھی دوپہر کے کھا نے کی فکر کم ہوتی ہی ہے کہ رات کو کیا پکایا جائے، جیسا سوال سر اٹھانے لگتا ہے۔
یہ تقریباً ہر گھر کی کہانی ہے۔ غرض خواتین شکوہ کرتی ہی نظر آتی ہیں کہ میرے پاس تو وقت ہی نہیں، پورا دن گھر کے کاموں میں نکل جاتا ہے۔'' سوال تو یہ ہے کہ آخر یہ وقت جاتا کہاں ہے؟ پرانے زما نے میں بھی خواتین کے پا س چوبیس گھنٹے ہی ہو تے تھے اور گھر کے کام خاصے محنت طلب، کیوں کہ اس زما نے میں ٹیکنالوجی بھی اتنی عام نہیں تھی۔
آج کل کی طرح کھانوں کے تیار مسالے یا مسالا پیسنے کی مشینیں دست یاب نہ تھیں، لیکن اس کے باوجود اس زمانے کی خواتین نہ صرف اپنا کام خوش اسلو بی سے کرتی تھیں، بلکہ ان کے پاس اپنے لیے بھی خاصا وقت ہوتا تھا اور بچوں کی تربیت بھی اچھے طریقے سے ہوتی تھی۔ آ ج کل کی ماؤں کی طرح نہیں، جن کے بچوں کی پرورش تک اُن سے زیادہ ذرایع ابلاغ کر رہے ہیں۔ جدید دور میں جہاں اتنی سہولیات میسر ہیں، بہت سے کام محض انگلی کی ایک جنبش کے محتاج ہیں۔
ایسے میں وقت کی تنگی کا رونا سمجھ سے بالاتر ہے، تو کیا وجہ ہے کہ کسی بھی کام کو انجام دینے کے لیے ہمارے پاس وقت ہی نہیں ہوتا۔ کسی تقریب میں شرکت کرنی ہو، کسی بیمار کی عیادت کرنی ہو، رشتے داروں سے ملنے کا موقع ہو یا کسی تہوار کا اہتمام، صرف ایک ہی جواب ملتا ہے کیا کر یں۔ وقت ہی نہیں ہے۔ ایسے میں خود انسان بھی فرسٹریشن کا شکار ہو جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہماری زندگیاں ہمارے ہی قابو میں نہیں رہیں۔ وقت کی کمی کو صرف نظم وضبط کے ذریعے ہی پورا کیا جاسکتا ہے۔
ہم اپنے طرز زندگی کو بہتر اسی صورت بناسکتے ہیں، جب دن کے آ غاز سے ہی ہمیں معلوم ہو کہ آج ہمیں کرنا کیا ہے؟ ہر انسان اپنی زندگی میںدن بھر سے ایسے چند گھنٹے ضرور چاہتا ہے، جسے وہ من چاہے انداز میں گزار سکے اور ایسا چاہنا برا بھی نہیں، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اپنی زندگی کی باگ ڈور اپنے ہا تھ میں رکھیں۔ سب سے پہلے تو خود سے یہ سوال کریں کہ آپ اضا فی وقت میں کرنا کیا چاہتی ہیں؟ بعض لو گ لکھنے لکھانے کا شوق رکھتے ہیں، بعض باغ بانی کا، کچھ ورزش کے لیے وقت چاہتے ہیں، جب کہ ایک بہت بڑی تعداد محض آرام کی طالب ہوتی ہے۔
اگر آپ واقعی اضافی وقت چاہتی ہیں، تو اس کا راز طے شدہ حکمت عملی میں ہے۔ منظم منصوبہ بندی کے ذریعے آپ کو خود اپنے لیے کام کی حد مقرر کرنی ہوگی۔۔۔ تر جیحات طے کرنی ہوں گی کہ کون سے کام پہلے کرنے ہیں اور کون سے بعد میں۔ اگر آپ ان چند آسان سی باتوں پر عمل کریں گی، تو شاید اگلی بار جب کوئی آپ سے وقت کی کمی کا شکوہ کرے گا، تو آپ پو رے اعتماد سے کہہ سکیں گی کہ میرے پا س تو بہت وقت ہے۔ سب سے پہلے تو آ پ صبح جلدی اٹھنے کی عادت اپنالیں۔ صبح کے پرسکون وقت میں تخلیقی صلاحیتیں بھی فعال ہوتی ہیں اور ہم ہشاش بشاش ہوتے ہیں۔
اپنے دن بھر کے معمولات ذہن میں رکھ کر طے کر یں کہ فلاں کام کتنے وقت میں انجام دیا جاسکتا ہے۔ جب پورے دن کے امور آپ کے ذہن میں ہوں گے، تو نہ صر ف آپ توانائی سے بھرپور ہو کر کام انجام دے سکیں گی، بلکہ ایک کام کے ختم ہو نے کے بعد آپ کو پتا ہوگا کہ دوسرا کام کس طرح انجام دینا ہے۔ مطالعے کے لیے ضرور وقت نکا لیں اور حالت حاضرہ کا جاننا تو وقت کا تقاضا بھی ہے۔
کوشش کریں کہ مہینے میں ایک اچھی کتاب ضرور پڑھیں۔ اس سے نہ صر ف آپ کی معلومات میں اضافہ ہوگا، بلکہ سوچ کے نئے در بھی کھلیں گے۔ چہل قدمی کرنا صحت کے لیے بھی اچھا ہے اور اگر صبح کے وقت کی جائے، تو اس کے فائدے بھی بہت ہیں۔ چہل قدمی کے دوران آپ اپنے بارے میں سوچیں اپنے رویوں کا جائزہ لیں، مثبت انداز میں اپنی مصروفیات اور لوگوں سے تعلقات کا جائزہ لیں۔ آپ کو کب، کب اور کس بات پر غصہ آیا؟ دن میں کتنی بار مسکرائیں؟
کتنی بار جی کھول کر ہنسیں؟ کس بات نے آپ کو افسردہ کر دیا یا دن بھر میں ایسا کون سا کام آ پ کو خو شی دے گیا؟ یہ تمام باتیں سوچنے سے نہ صرف آ پ کو اپنے بارے میں پتا چلے گا، بلکہ آ پ اپنی غلطیوں کی نشاندہی بھی کر پائیں گی۔ اس طرح آپ خوش و خرم رہ سکتی ہیں اور روز ایک نئے جو ش اور ولو لے کے ساتھ بہتر طور پر اپنے معمولات انجام دے سکتی ہیں۔ اس سے آپ کا یہ احساس بھی جاتا رہے گا کہ آپ کے پاس وقت نہیں ہے۔