پاک افغان تعلقات میں بہتری کی کوششیں

افغان صدر نے کہا کہ ہمیں درپیش مسائل کے حل میں کئی مشکلات ہیں مگر ہم مشکلات ختم کرنے میں سنجیدہ ہیں۔


Editorial January 11, 2015
پاکستان کے عوام نے اس حقیقت کا ادراک کر لیا ہے کہ اچھی اور بری دہشتگردی میں کوئی فرق نہیں۔ فوٹو فائل

پاکستان کے ساتھ طویل سرحد رکھنے والا پڑوسی ملک افغانستان گزشتہ طویل عرصے کے کشیدہ تعلقات کو معمول پر لانے کو آمادہ نظر آ رہا ہے تاہم افغانستان کے صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کو درپیش مسائل کے راتوں رات حل ہو جانے کی توقع نہیں رکھی جانی چاہیے اور فریقین کی طرف سے کسی بے صبری کے مظاہرے کی ضرورت نہیں البتہ استقامت کی ضرورت ہے لہذا ان پیچیدہ مسائل کے حل میں کافی وقت لگ سکتا ہے تاہم افغان صدر نے یقین دہانی کرائی کہ ان کی حکومت مسائل کے حل کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کرے گی۔

کابل میں پاکستانی سیاستدانوں کے سہ رکنی وفد کی ملاقات میں گفتگو کرتے ہوئے افغان صدر نے کہا کہ ہمیں درپیش مسائل کے حل میں کئی مشکلات ہیں مگر ہم مشکلات ختم کرنے میں سنجیدہ ہیں۔ پاکستانی وفد میں پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے لیڈر محمود اچکزئی، قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب شیرپاؤ، اور اے این پی کے لیڈر افراسیاب خٹک شامل تھے۔

کابل کے صدارتی محل سے جاری بیان کے مطابق صدر اشرف غنی نے کہا کہ افغان حکومت پاکستان کے ساتھ مشاورت کا عمل اور دیگر مسائل کے حل کے لیے مشترکہ کوششیں جاری رکھے گی اور پاکستان اور افغانستان کے درمیان عوام کے روابط کو مستحکم کرنے کے لیے بھر پور کوششیں کریگی۔ یہ فطری بات ہے کہ دو ملکوں میں تعلقات کے فروغ میں سب سے اہم کردار عوام کے عوام کے ساتھ روابط کا ہی ہوتا ہے اور دونوں طرف کے باہمی رابطے دوستی کو فروغ دیتے ہیں۔

پاکستانی وفد کے اراکین سے ملاقاتوں میں دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تعلقات کے فروغ، سیکیورٹی صورتحال بہتر بنانے، دہشتگردی کے خلاف مشترکہ کوششوں پر اتفاق ہوا اور اس کے ساتھ ہی پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کے مسائل کے حل سے متعلق امور زیر غور آئے۔ پاکستانی وفد نے افغان صدر کو کہا کہ دونوں ممالک ایک جیسے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں اور اس سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف لڑائی میں پاکستان کا نقطہ نظر تبدیل ہو چکا ہے۔

پاکستان کے عوام نے اس حقیقت کا ادراک کر لیا ہے کہ اچھی اور بری دہشتگردی میں کوئی فرق نہیں۔ ملاقاتوں میںافغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبد اللہ عبد اللہ، افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی، قومی سلامتی کے مشیر حنیف اتمار اور ارکان پارلیمنٹ بھی شریک ہوئے۔ چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ سے ملاقات میں پاکستانی وفد نے دو طرفہ تعلقات میں بہتری اور دہشتگردی کے خلاف جنگ میں سیاسی رہنماؤں کے کردار پر گفتگو کی۔

عبداللہ عبداللہ کا کہنا تھا کہ پاکستانی سیاستدانوں نے ہمیشہ سے افغانستان کے لیے خیرسگالی کا مظاہرہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان ملکر ہی دہشتگردی کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔ ملاقات کے بعد اے این پی کے رہنما افراسیاب خٹک نے ٹوئٹر پر لکھا کہ چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ مثبت پیغام کے ساتھ جلد ہی پاکستان کا دورہ کرینگے۔ امید ہے کہ ان کا دورہ باہمی تعلقات میں بہتری کا سبب بنے گا۔

آفتاب شیرپاؤ نے کہا کہ دونوں ممالک کے وفود کے دورے دوطرفہ تعلقات میں مزید بہتری لائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ مشترکہ جدوجہد سے ہی مسائل کا حل نکلے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان سے کابل جانے والا وفد وہاں سے کیا لے کر آتا ہے، کیا یہ وفد پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کی واپسی کے لیے افغان صدر اور چیف ایگزیکٹو کو قائل کرنے میں کامیاب ہوا ہے اور کیا اس وفد نے افغانستان میں روپوش مولوی فضل اللہ کے خلاف کارروائی کی بات کی ہے؟ اس صورت حال کا پتہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں