’’نوکری‘‘
زندگی کے بعد کی صورتحال کیا محض ایک منتقلی ہے یا ایک نئے سفر کی ابتدا!روشنی اور اندھیرے میں اصل فرق کیا ہے۔
صاحبان فہم! بہت زیادہ سوالات ہیں!بہت ہی زیادہ! جسم اور روح کا اصل رشتہ کیا ہے! برائی سے نیکی اورنیکی سے بدی کیونکر پیدا ہوتی ہے۔ خدا ظالم کو کتنی ڈھیل دے سکتا ہے! کیاانسان مذہب کے لیے ہے یا مذہب انسانوں کے لیے! معلوم سے نامعلوم کاسفرکیاہے۔دن سے رات شام کے گہرے سایوں کے بغیر کیسے جڑی ہوئی ہے!زندگی کی حقیقت کیا ہے۔
زندگی کے بعد کی صورتحال کیا محض ایک منتقلی ہے یا ایک نئے سفر کی ابتدا!روشنی اور اندھیرے میں اصل فرق کیا ہے۔علم کیاہے اوربے علمی کیا ہے! جہالت اورلاعلمی کیا ایک ہی سکے کے دورخ ہیں یاایک ہی سکہ ہے۔ کائنات کے وجود کے باہر ہزاروں طرح کی زندگی کیسی ہے۔ آخر یہ سب کچھ کیا ہے؟ صوفی مکہ اورمدینہ سے چندروزپہلے لاہور پہنچا ہے۔ اترتے ہی پیغام ملاکہ پہنچ گیا ہوں۔ دوتین دن ملاقات اس لیے نہ ہوسکی کہ خیال تھا کہ سفر کی تھکن ہوگی۔
صوفی کے جواب نے مجھے حیران کردیاکہ وہ قطعاًتھکان کاشکارنہیں بلکہ مزیدتوانائی کے ساتھ واپس آیا ہے۔پرسوں طویل نشست ہوئی!کافی عرصے کے بعد! تشنگی بہت تھی۔ بہت سے عجیب سے سوالات بھی موقوف تھے اور اتنے ہی نایاب جوابات بھی!لیکن دیکھاجائے توکوئی بھی سوال نہیں تھا!صوفی بہت نکھرا ہوا لگ رہاتھا۔وہ جوان انسان ہے مگر اُس دن مجھے وہ نوجوان سادکھائی دے رہاتھا۔لاپرواہ سا، ہر چیزکسی اورکے سپردکرنے کے بعدانتہائی سکون میں ڈوبا ہوا شخص۔ صوفی ایک نجی ادارے میں معقول تنخواہ پرکام کرتا ہے۔
واپسی پرمیں نے صوفی میں پہلی تبدیلی یہ محسوس کی،کہ وہ بے حدمطمئن اورشاداب نظرآرہاتھا۔بالکل ہلکا پھلکا سا۔ ایسے لگتا تھا کہ وہ اپناتمام بوجھ اتارکر کسی اور کے کندھے پرڈال آیاہے اوراب مکمل آرام میں ہے۔ایسا کیوں ہے،کیسے ہے،یہ معاملہ میری ذہنی گرفت سے مکمل باہر ہے!میں دراصل صوفی سے اس کے ایک مہینے کی روداد جاننا چاہتا تھا۔ اُس نے تھوڑی سی بات کی بھی مگراکثرباتیں پی گیا۔مجھے ایسے لگ رہا تھاکہ وہ تمام رمزیں بتانے کی اجازت نہیں رکھتا۔
ہوسکتا ہے کہ میں غلط ہوں!مگریہ بھی ہوسکتاہے کہ میں بالکل غلط نہ ہوں۔کہنے لگاکہ آپ فوری طورپرعمرہ کاعزم کیجیے۔آپ جائیے،کیونکہ ساری باتیں کھل کربیان نہیں ہوسکتیں۔ صفاو مروہ کی سعی کے بعدحرم میں ایک مقام ہے،جہاں آبِ زم زم پینے سے ساری بیماریاں ختم ہوجاتی ہیں۔بحیثیت ڈاکٹر مجھے اس کی کہی ہوئی بات عجیب سی لگی۔جب حرم میں پہنچا تو وہ مکمل ایک بچہ میں تبدیل ہوچکا تھا۔ ایک ننھا منا بچہ جواپنے استاد سے سبق سیکھنے کے لیے آیا ہوا ہو۔ اُس بچے کویہ بھی لالچ ہوتا ہے کہ اچھا ہوم ورک کرنے پراسے ایک ٹافی انعام میں ملے گی! میراخیال ہے صوفی کوچاکلیٹ مل چکی ہے اوروہ اکیلے اکیلے اس کے مزے لینے میں مصروف ہے۔
وہ یہ مٹھاس کسی پر ظاہر نہیں کرناچاہتا۔حرم میں وہ اللہ سے بہت زیادہ راز دنیاکی باتیں کرتارہا۔کہنے لگاکہ اس نے اپنے عزیزوں اور دوستوں کا نام لے لے کر خداسے خوب دعائیں کی ہیں۔ کسی کی شکایت نہیںلگائی۔ وہاں سب کے لیے خیرہوتی ہے۔پرنسپل کوتوپتہ ہوتا ہے کہ اس کے طالبعلم کیسے ہیں اور کتنی محنت کررہے ہیں ۔وہ ان کی کام چوری کوبھی جانتاہے لہذا شکایت لگانے کاکوئی مقصد نہیں۔ وہ توسب کوجانتاہے!سب کو۔ مدینہ کی بات کرتے کرتے اس کی آنکھوں میں بادل سے آگئے۔بتانے لگاکہ جیسے ہی وہ آقاﷺکی خدمت میں حاضر ہونے لگاتواسے روک دیاگیا۔
کوشش کرنے کے باوجود مسجدنبوی میں داخل نہ ہوسکا۔حکم ملاکہ پہلے جنت البقیع میں جاؤ۔فاتحہ پڑھواورپھرکسی دوسری جگہ کاعزم کرو!صوفی جب اس قیمتی قبرستان پرپہنچاتو استغراق میں چلاگیا۔بے دریغ بچوں کی طرح روناشروع کردیا۔دھاڑیں مارمارکر۔بتانے لگاکہ کچھ لوگوں نے اسے عجیب سی نظروں سے دیکھا اور منع کرنے کی کوشش بھی کی مگروہ اپنی کیفیت پر قابو نہ پاسکا۔ گر یہ کے بعد اسے مسجد میں حاضری کا پروانہ ملا۔ اندر جاکر اسے ساری دعائیں بھول گئیں۔وہ مکمل خاموش ہوگیا۔
میری دانست میں آداب کا تقاضا بھی یہی ہے!اس کیفیت میں ایک دن رہنے کے بعدجب وہ اگلے دن مسجد گیا تو اسے بتایاگیاکہ واپس اپنے ہوٹل میں جاؤ۔آج یہاں تمہارے لیے کسی قسم کی کوئی جگہ نہیں۔فوری طور پر واپس جاؤ۔ اس نے ایک عجیب سی بات بتائی۔ کہنے لگاکہ ابھی وہ اسی پریشانی میں تھاکہ آقاﷺکے روضہ سے اٹھ کرواپس جائے یانہ جائے کہ ایک بوڑھے شخص نے زورسے اسکاشانہ دبایا۔سختی سے کہنے لگا کہ تمیں سمجھ نہیں آرہی کہ کیا حکم دیا گیا ہے۔تم یہاں بیٹھ کرحکم عدولی کررہے ہو۔صوفی دبے پاؤں ہوٹل کے کمرے میں مقید ہوگیا۔
چوبیس گھنٹے کے بعدنکلااورپھردوبارہ خدمت میں پیش ہوسکا۔اٹھتے ہوئے اس نے مجھے ایک اوربات کہی!کہنے لگا، مجھے نوکری بھی مل گئی ہے۔میں اب غلاموں کاغلام مقرر ہوچکا ہوں۔یہ بہت بڑی نوکری ہے۔ہرایک کو عطا نہیں کی جاتی۔ اس کے بعدوہ آرام سے میرے دفترسے چلاگیا!میں اس وقت سے اب تک اس کی کہی ہوئی باتوں کے متعلق یقین اوربے یقینی کے درمیان کھڑا ہوں۔صوفی کی باتوں کے درمیان ایک دوست جوکہ ایک سرکاری ملازم بھی ہے، کمرے میں آگیا۔مجھے کچھ باتیں بتانے لگا۔میں اسکانام نہیں لکھ سکتا۔بنیادی طور پرسول سروس میں آنے سے پہلے وہ ائیرفورس میں تھا۔
F-16 جہازکے بہترین پائلٹوں میں شمارکیاجاتاتھا۔جب اسے طبی وجوہات پرجہازاڑانے کے لیے غیرموزوں قراردیاگیاتوائیرچیف کے کہنے پرپاکستان کی ایک انتظامی سروس میں آگیا۔کہنے لگاکہ آج سے بیس سال پہلے سرگودھا میں تعینات تھا اور اس کی ڈیوٹی سرگودھا ائیربِیس پر تھی۔ ہفتے کے بعد وہ اور اس کی اہلیہ گھر کا سودا خریدنے کے لیے خودبازارجایاکرتے تھے۔ایک دن حسبِ معمول اپنی اہلیہ کے ہمراہ بازارگیا۔اس کی جیب میں ساڑھے چار ہزار روپے تھے۔ سودا محض سولہ سوروپے کاآیا۔ باقی پیسے جیب میں ڈال کرواپس گاڑی کی طرف آرہاتھاکہ ایک مانگنے والی عورت اس کے قریب آئی۔
کہنے لگی کہ جوکچھ بھی جیب میں ہے،اللہ کے نام پردیدو۔اس نے جیب میں جتنے پیسے تھے، عورت کوخاموشی سے دے ڈالے۔بیوی اس کی فیاضی پر ناراض ہوگئی۔مجذوب عورت دعاکرنے لگی کہ خداتجھے پٹواریوں کاانچارج لگا دیگا۔ ائیرفورس میں اسکوقطعاًعلم نہیں تھاکہ پٹواری اورگرد اور کیا ہوتے ہیں۔ بہرحال وہ یہ بات بھول گیا۔ جب ائیرفورس سے انتظامی سروس میں آیاتوپہلی پوسٹنگ پر اسے معلوم ہواکہ اس کے عملہ میں بیس یاپچیس پٹواری بھی ہیں۔ اس کی اہلیہ جواس کی بیس سالہ قبل کی دریادلی کے وقت ناراض تھی، نے یادکروایاکہ آج سے دودہائیاں قبل ایک درویش عورت نے آپکویہی دعادی تھی۔
میرے دوست کودعایادآئی تووہ مکمل حیران ہوگیا۔پاگل سی عورت کون تھی!کہاں سے آئی تھی!اسے کیوں دعادے کرگئی اوراس کی دعاخداکی بارگاہ میں اتنی سرعت سے کیسے قبول ہوئی،اس کے پاس کسی بھی چیزکاکوئی جواب آج تک نہیںہے۔ پھرایک عجیب سی بات بتانے لگا۔بطورپائلٹ اس کے اسکواڈرن کا انچارج بہت شدید بیمار ہوگیا۔ائیرفورس کے ڈاکٹروں نے اسے دوماہ اسپتال میں رکھااور لاعلاج قرار دیدیا۔ ڈاکٹروں کے مطابق اب وہ چنددن کامہمان تھا۔ میرے دوست کے ایک بزرگ اسلام آبادمیں رہتے ہیں۔ میں ان سے مل چکاہوں۔
انتہائی دیدہ زیب مغربی لباس پہننے والے اورشستہ انگریزی بولنے والاشخص۔کوئی آدمی اندازہ ہی نہیں کرسکتاکہ یہ کسی دینی سلسلہ سے وابستہ ہونگے اور انکا اعلیٰ مقام ہوگا۔ بہر حال میرا دوست آج بھی اُس بزرگ سے ہروقت رابطے میں رہتا ہے۔یہ رابطہ بیس سال سے مسلسل جاری ہے۔خیراُس نے بیمار افسر کی اہلیہ سے درخواست کی کہ ان کے شوہرکے لیے ایک بزرگ کولاکراسپتال میں دعاکرواناچاہتا ہے۔اہلیہ نے اس بات کوبادل ناخواستہ قبول کرلیا کیونکہ اسکو اس طرح کی باتوں اوررویوں پرقطعاًیقین نہیں تھا۔
بہرحال جب بزرگ اسپتال کے کمرے میں گئے توتقریباًدو منٹ کے بعدسب کوخداحافظ کہہ کرکمرے سے باہرآگئے۔سب اس بات پرحیران تھے۔ انھوں نے کسی قسم کی کوئی دعا نہیں کی۔ باہر نکل کرکہنے لگے کہ اس شخص کولیجانے والے آچکے ہیں اوراس اسپتال کے کمرے میں وہ اپنادفترلگاچکے ہیں۔اب صرف ایک ہی حل ہے کہ آپ ان کی اہلیہ کوفلاں بزرگ کے دربار پر لے جائیں اوردعاکی درخواست کریں۔جب بات اہلیہ کوبتائی گئی تواس نے انکار کردیا اور اسے توہم پرستی قراردے دیا۔ میرے دوست کے اصرارپربڑی غیریقینی کی حالت میں وہ اسلام آبادکے اس دربار پرتشریف لے گئیں۔رات کوقیامت کی بارش تھی۔
دربارتک پہنچنے کاراستہ محض دس بارہ منٹ کاتھا۔ مگر بارش نے وہاں پہنچنانا ممکن بنا دیاتھا۔بڑی تگ ودوکے بعدوہ لوگ رات گئے جب اس بزرگ کے مزار پر پہنچے تو ہر طرف پانی ہی پانی تھا۔وہاں اس بیمارشخص کی اہلیہ نے انتہائی انکساری اورآنسوؤں سے اپنے خاوندکی زندگی کی بھیک مانگی۔ واپسی پر ایک چھوٹے سے بچے نے بیمارافسرکی اہلیہ کاہاتھ پکڑا اورکہاکہ سب کچھ ٹھیک ہوچکاہے۔دراصل میرے دوست کو بتادیا گیاکہ بیمار شخص صحت یاب ہوچکا ہے۔اسے کوئی مسئلہ نہیں۔اہلیہ نے کسی سے بھی اس واقعہ کاذکرنہیں کیا۔اگلی صبح کو بیمارافسرسے آخری خواہش پوچھی گئی۔
اس نے خواہش کی کہ کسی بھی طریقے سے اسے لندن کے کسی اسپتال بھجوادیاجائے۔شائدوہ بچ جائے۔ جب وہ اپنی آخری خواہش بتارہاتھاتواسکاکفن تیار ہوچکا تھا۔ حدیہ تھی کہ اس کے جسم کولیجانے کے لیے لکڑی کا تابوت تک بنادیاگیاتھا۔یہ تقریباًسولہ سال قبل کی بات ہے۔ائیرفورس کی انتظامیہ نے اسے دو دن میں لندن کے ایک اسپتال پہنچا دیا۔ وہاں ڈاکٹروں نے اسے مکمل چیک کیا۔ بتایا کہ یہ توبالکل ٹھیک ہے اوراسے کوئی بیماری نہیں۔وہ بیمارشخص مکمل صحت یاب ہوچکا تھا اور خدا کے فضل سے آج بھی زندہ ہے۔اسلام آباد میںواقع اس بزرگ کے دربارمیں اس کی اہلیہ کاگریہ قبول ہوچکاتھا!
کیا سب کچھ ضعیف العتقادی ہے!کیا خدا کا بنایا ہوا روحانی نظام موجودنہیں!کیابزرگ،درویش،قطب اورابدال وجودنہیں رکھتے!کیایہ سب کچھ نظرکادھوکہ ہے! کیا یہ محض ضعیف العتقادی ہے !کیاخدااپنے نیک بندوں کی ساری دعائیں قبول نہیںکرتا!یہ سب کچھ کیاہے!میں سائنس کی تعلیم رکھنے والاایک ادنیٰ سا شخص ہوں!عمل اورردِعمل کی تھیوری کا ڈسا ہوا! میں ان چیزوں پربالکل یقین نہیں رکھتا!مگرپھرمیں سوچنے کے بعدان پریقین کرکے اپنے آپ سے لڑنا شروع کردیتاہوں!صوفی کومدینہ میں غلاموں کی غلامی کی نوکری کیسے مل گئی!یہ ملازمت حقیقت میں کیاہے!اس نے مجھے کچھ نہیں بتایا!مگرمیں جب اپنے اندر جانکھتا ہوں تو مجھے بھی بالکل ایسی ہی نوکری کی تلاش ہے!