رحمتہ للعالمینﷺ

تاریخ گواہ ہے کہ وقت اور حالات و واقعات نے ثابت کیا کہ قرآن پاک کی پیش گوئی حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی۔

drtayyabsinghanvi100@gmail.com

رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام معرکوں اور فتوحات میں احترام آدمیت و تکریم انسانیت کو ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھا گیا لیکن فتح مکہ تو گویا عفوودرگزر کی معراج ہے، فتح مکہ کی بنیاد صلح حدیبیہ تھی، چنانچہ صلح حدیبیہ نے فتح مکہ میں بڑا ہی اہم اور کلیدی کردار ادا کیا، لہٰذا صلح حدیبیہ فتح مکہ کی تمہید اور دیباچہ ثابت ہوئی اور فتح مکہ تطہیر کعبہ کا اختتامی مرحلہ ثابت ہوا، حق باطل پر غالب آگیا اور باطل مٹ گیا۔

فتح مکہ رسول اکرم ﷺ اور صحابہ کرامؓ کے طویل خواب کی انتہائی حسین تعبیر تھی جس کے پس پردہ رسول اکرم ﷺ کی بے مثال سیاسی حکمت و بصیرت، بالغ نظری، صبر و استقامت اور اللہ عزوجل کی جانب سے غیبی مدد اور نوید فتح و نصرت کار فرما تھی۔ صلح حدیبیہ کے نازک موقع پر اللہ عزوجل نے قرآن حکیم فرقان حمید میں اس صلح کو فتح مبین اور نصر عزیز قرار دیا اور اس کے حق میں ایک پوری سورہ فتح نازل فرمائی اس سورہ فتح میں پیش گوئی اور خوش خبری تھی۔

تاریخ گواہ ہے کہ وقت اور حالات و واقعات نے ثابت کیا کہ قرآن پاک کی پیش گوئی حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی اور صلح حدیبیہ رسول کریمؐ کی سیاست خارجہ کے ایک عظیم شاہکار کے روپ میں سامنے آئی، ناصرف فتح مکہ و تطہیر کعبہ کا اختتامی مرحلہ ثابت ہوئی بلکہ عالمگیر اشاعت اسلام اور عظیم فتوحات کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔

فتح مکہ کا پس منظر اور حالات مختصراً کچھ یوں ہیں کہ معاہدہ صلح حدیبیہ کو ابھی صرف دو ہی برس ہوئے تھے کہ قریش مکہ نے معاہدے کی خلاف ورزی کر ڈالی جب کہ یہ معاہدہ مسلمانوں اور قریش کے درمیان پورے دس سال کے لیے طے پایا تھا، قریش کی ہٹ دھرمی کے سبب نبی کریمؐ نے مکے کی جانب پیش قدمی فرمائی عام خیال یہی پایا جاتا تھا کہ کفار مکہ کے خاتمے کا وقت آگیا ہے لیکن آپؐ نے جان بخشی فرما دی، یہ وہ مرحلہ تھا کہ جب کفار مکہ کی تمام سفاکیاں، سازشیں، حربے، مکر و فریب و دجل آپؐ کے سامنے تھے ایک ایک بات ان کے قتل کی دعویدار تھی لیکن آپؐ نے بدلے کی تمام تر طاقت و قوت رکھنے اور انتقام کی قدرت کے باوجود عفو و درگزر سے کام لیا۔

یہ آپؐ کا ایسا عظیم اقدام تھا جس کی مثال تاریخ میں ملنا محال ہے آپؐ نے مکہ پہنچ کر حکم دیا کہ علم نبویؐ ''عقاب'' نصب کیا جائے۔ حضرت خالدؓ بن ولید کو ارشاد فرمایا کہ وہ فوجوں کے ساتھ بالائی حصے کی طرف سے آئیں اور باقی دستے مختلف اطراف سے مکہ میں داخل ہوں۔ آپؐ نے اس دن کو رحمت کا دن قرار دیا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس شان سے مکہ میں داخل ہوئے کہ سرمبارک جھک رہا تھا یہاں تک کہ قریب تھا کہ اونٹ کے کجاوہ سے لگ جائے۔ آپؐ سورہ فتح کا ورد فرما رہے تھے زبان مبارک پر اللہ رب العزت کی کبریائی اور حمد و ثنا کے پاکیزہ کلمات تھے۔


نبی رحمتؐ نے مکہ میں داخل ہوتے وقت فرمان رحمت جاری کیا اور نظر رحمت فرماتے ہوئے اعلان عام کیا کہ جو شخص ہتھیار ڈال دے گا، ابوسفیان کے گھر پناہ لے گا یا اپنا دروازہ بند کرلے گا اسے امن و امان حاصل ہوگا۔ اس طرح فتح مکہ جیسی عظیم الشان اور تاریخ ساز و تاریخ انسانی کی انوکھی فتح انتہائی امن و سکون کے ساتھ عمل میں آگئی، صرف ایک مقام پر حضرت خالدؓ بن ولید کے دستے کو کفار مکہ کی جانب سے معمولی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جس کی بدولت چند کفار واصل جہنم ہوئے تاہم یہ جھڑپ بھی نبی کریمؐ کی منشا کے برخلاف تھی تاہم جب رحمۃ اللعالمینؐ کو یہ حقیقت معلوم ہوئی کہ پہل مشرکین مکہ کی جانب سے ہوئی تھی اور مسلمانوں نے اپنی مدافعت میں ضروری اقدام اٹھائے تو نبی رحمتؐ نے فرمایا ''قضائے الٰہی'' یہی تھی''۔ نبی کریمؐ اپنی اونٹنی قصویٰ پر سوار تھے، آپؐ نے بیت اللہ شریف کا طواف فرمایا، حجر اسود کو بوسہ دیا اور بیت اللہ شریف کے اطراف میں نصب بتوں کو دیکھ کر فرمایا ''حق آگیا اور باطل مٹ گیا، بے شک باطل تو مٹنے کے لیے ہی تھا۔'' (سورہ بنی اسرائیل۔ آیت۔81)

پھر مقام ابراہیمؑ پر دوگانہ طواف ادا فرمایا اور چھڑی سے خانہ کعبہ کو تمام بتوں سے پاک و صاف فرمادیا کعبہ کے اندر کے بتوں کو بھی پاش پاش فرمادیا اور بیت اللہ شریف کے تمام گوشوں میں صدائے تکبیر بلند فرمائی، اس طرح تطہیر کعبہ کا یہ اختتامی مرحلہ طے پایا اس کے بعد آپؐ نے کعبہ کی کنجی حاصل کرکے عثمان بن طلحہؓ کو دے دی اور فرمایا کہ اب یہ ہمیشہ تمہارے پاس ہے، آپؐ بیت اللہ شریف میں تھے کہ اہل مکہ بہت بڑی تعداد میں جمع ہوگئے۔ آپؐ نے اس موقع پر سب کو مخاطب کرکے فرمایا کہ ''اللہ عزوجل کے سوا کوئی معبود نہیں وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اس نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا اپنے بندے کی مدد فرمائی اور تنہا دشمن کے تمام جتھوں کو شکست دی، اے قریش کے لوگو! آج اللہ عزوجل نے تمہارے جاہلانہ گھمنڈ اور غرور و نسب کے تفاخر کو خاک میں ملا دیا، سارے انسان آدمؑ کی اولاد ہیں اور آدمؑ مٹی سے ہیں پھر آپؐ نے سورہ الحجرات کی تلاوت فرمائی'' لوگو! میں نے تم کو مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تمہارے قبیلے اور خاندان بنائے تاکہ آپس میں ایک دوسرے سے پہچان لیے جاؤ لیکن خدا کے نزدیک شریف وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہو، خدا دانا اور واقف کار ہے، خدا نے شراب کی خرید و فروخت حرام کردی (سورۃ الحجرات۔20/بخاری)

خطبے کے بعد نبی رحمتؐ نے مجمع دیکھا تو جباران قریش سامنے تھے آپؐ نے پوچھا ''تم کو کچھ معلوم ہے کہ میں تمہارے ساتھ کیا معاملہ کرنے والا ہوں؟'' یہ لوگ اگرچہ ظالم تھے، شقی القلب تھے، بے رحم تھے لیکن انتہائی مزاج شناس تھے پکار اٹھے کہ ''آپؐ شریف بھائی ہیں اور شریف برادر زادہ ہیں۔'' رحمت عالمؐ نے ارشاد فرمایا ''آج تم سے کوئی مواخذہ نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو، اللہ عزوجل بھی تمہیں معاف فرمائے وہ سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہے۔''

تاریخ اسلام کا یہ اہم ترین اور تاریخ ساز، عظیم و انوکھا واقعہ جوکہ ''فتح مکہ'' کے نام سے موسوم ہے۔ رمضان المبارک 8 ہجری بمطابق جنوری 630 ء میں پیش آیا جو ہماری تاریخ ہی نہیں بلکہ تاریخ انسانی کا درخشاں باب ہے۔ معروف مورخ ''ولیم میور'' اعتراف کرتا ہے کہ گو اہل مکہ نے خوشی سے آپؐ کی حکومت کو قبول کرلیا مگر تمام لوگ مسلمان نہ ہوئے تھے اور مدینے کی طرح اسلام میں بتدریج داخل ہوئے۔'' فتح مکہ کے بعد رسول کریمؐ نے انس یوم مکہ میں قیام فرمایا اور پھر آپؐ نے حضرت معاذ بن جبلؓ کو تبلیغ اسلام اور حضرت عتابؓ کو والی مکہ مقرر فرمایا اور واپس مدینہ تشریف لے آئے۔

اس طرح فتح مکہ، صلح حدیبیہ کا ثمر ثابت ہوا اور صلح حدیبیہ دراصل فتح مکہ کی تمہید اور دیباچہ ثابت ہوئی جب کہ تطہیر کعبہ و مکہ کا اختتامی مرحلہ طے ہوا نیز غیر مسلموں کے قلوب پر اسلام کی فتح، فتوحات اسلامی و وسعت اسلامی مملکت کا بھی اہم سبب اور اصل محرک ثابت ہوا اور عالمگیر اشاعت اسلام کا سبب بنا اس طرح وحی الٰہی پر مبنی خواب ''فتح مبین'' کی سچی تعبیر کی صورت میں وقوع پذیر ہوا، فتح مکہ تو گویا اس کا شاہکار ہے جس کے سامنے پوری تاریخ انسان دست بستہ اور سربسجدہ نظر آتی ہے اور رحمۃاللعالمینؐ کی عالمگیر رحمت و اخوت پر مہر تصدیق بھی ثبت کرلی ہے۔
Load Next Story