تنگ آمد بجنگ آمد
یحییٰ خان دوسرے جنرل تھے، جن کے زمانے میں 71 کی جنگ لڑی گئی۔ ان کے اقتدار کو بھی کسی نے چیلنج نہ کیا۔
یہ 1965 کی بات ہے۔ ایوب خان برسر اقتدار تھے۔ یہ ان کی حکومت کا ساتواں سال تھا۔ کیا جنرلوں کی حکومتیں جنگیں لاتی ہیں؟ پاکستان میں پہلا عشرہ مسلم لیگ کے رہنماؤں اور نوکر شاہی کے افسروں کے اقتدار میں گزرا تھا۔ کسی سیاسی پارٹی اور عدالت نے ایوب کے اقتدار پر اعتراض نہ کیا۔ وہ تو کسی اور معاملے میں ڈوسو نامی شخص کا مقدمہ آیا تو جسٹس منیر نے ایوان اقتدار پر عدالت کی مہر تصدیق ثبت کردی۔ مشرقی پاکستان کے لوگ اپنے آپ کو اسلام آباد سے دور تصور کرتے تھے۔
ویسے بھی مسلم لیگ کو شکست دلوا کر اور جگتو فرنٹ کو کامیاب کروا کر بنگالیوں نے خود ہی سیاست دانوں کی کمزوری کی بنیاد رکھی تھی۔ ایوب کا اقتدار رواں دواں تھا۔ اسے کسی جنگ کی حاجت نہ تھی۔ کہتے ہیں کہ بھٹو نے ایوب کو قائل کیا کہ کشمیر میں محدود جنگ چھیڑی جائے جسے بھارت نے لامحدود کردیا۔ ''تاشقند معاہدے'' نے بھی ایوب کو کمزور کیا۔ جنگ ستمبر کسی طرح ایوب کے حق میں نہ گئی۔ اس جنگ نے ہونے والی ترقی کے ثمرات کو محدود کردیا۔
پھل تو صرف سرمایہ داروں کی جھولی میں گر رہا تھا۔ ایک کے بعد دوسری اور تیسری کے بعد چوتھی مل لگ رہی تھی لیکن بندہ مزدور کے اوقات بہت تلخ تھے۔ یہاں ایک معاشی ناانصافی تھی۔ ایک خلا تھا جسے بھٹو نے پر کیا۔ کابینہ سے ان کی علیحدگی اور اس کے بعد ایوب کا پے درپے زوال۔ گول میز کانفرنس تک آتے آتے فیلڈ مارشل اقتدار کی فیلڈ سے باہر جاتے دکھائی دیے۔ کیا جنگیں جنرلوں کی مہربانی سے آتی ہیں؟ دلچسپ سوال کا جواب ابھی باقی ہے۔
یحییٰ خان دوسرے جنرل تھے، جن کے زمانے میں 71 کی جنگ لڑی گئی۔ ان کے اقتدار کو بھی کسی نے چیلنج نہ کیا۔ یوں کہنا چاہیے کہ وہ واحد حکمران تھے جن کے مارشل لا کو ''عاصمہ جیلانی کیس'' میں اقتدار کے خاتمے کے بعد چیلنج کیا گیا۔ یہ بھی ڈوسو کیس کی طرح اتفاقاً عدالتوں کے روبرو آگیا۔ یحییٰ خان نے آنے کے ساتھ ہی تین اہم مطالبات تسلیم کرکے عوامی مقبولیت حاصل کرلی۔ ون یونٹ کا خاتمہ، ون مین ون ووٹ، وفاقی و پارلیمانی نظام۔ اس طرح صوبے بحال ہوگئے، مشرقی پاکستان کی قومی اسمبلی میں سیٹیں بڑھ گئیں اور ملک آنے والے دنوں میں ایوب کی سی صدارت سے آزاد ہوگیا۔
دسمبر 70 میں ہونے والے انتخابات میں مجیب اور بھٹو ملک کے دونوں بازوؤں کے لیڈر منتخب ہوکر سامنے آئے۔ یحییٰ کو کسی جنگ کی حاجت نہ تھی۔ چھوٹی چھوٹی پارٹیاں اسمبلی میں ہوتیں تو یحییٰ خان پچاس کے عشرے کی تاریخ دہراتے۔
وہ غلام محمد اور اسکندر مرزا کی طرح اقتدار کا کھیل کھیلتے۔ اسمبلی کا اجلاس ملتوی کردیا گیا۔ مارچ 71 کے بعد بنگال میں نارمل حالات رہے ہی نہیں۔ پہلے مرحلے پر ناراض بنگالیوں نے بغاوت کی اور پھر اسے کچلنے کے لیے پاک فوج گئی تو وہ چھپ گئے یا بھاگ گئے۔ بھارت سے جنگ کا خطرہ اگست 71 میں پیدا ہوا ۔ یہ جنگ یحییٰ کی ضرورت نہ تھی بلکہ ان کے لیے مصیبت تھی۔ ہماری مصیبتوں کی وجہ نہ آمروں کی حکومتیں رہیں اور نہ ان کی جنگیں۔ ہمارے مسائل کا سبب معاشرے میں ناانصافی رہی جس نے دہشت گردی کو جنم دیا۔
بھٹو نے آئین دیا، اسلامی سربراہ کانفرنس کے بعد بنگلہ دیش کا مسئلہ حل کیا۔ معاشی محاذ پر ایوب کی انتہاپسندی کو انھوں نے دوسری انتہاپسندی سے بدلا۔ مزدوروں کو حق دلانے کے نام پر انھوں نے کارخانوں، بینکوں اور تعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لے لیا۔ اسی طرح ملک کی معاشی اور تعلیمی ترقی کو ریورس گیئر لگ گیا۔ ایک ناانصافی نے دوسری ناانصافی کو جنم دیا۔ انتخابی دھاندلی نے جمہوریت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔ احتجاجی تحریک کے نام پر ہر کوئی اپنا بدلہ چکانے بھٹو کے خلاف میدان عمل میں نکل آیا۔ الیکشن کے چار مہینوں بعد بھی قومی اتحاد سے معاملات طے نہ ہوئے اور یوں جنرل ضیاء الحق برسر اقتدار آگئے۔
مارچ 77 سے دسمبر 79 تک کی ملکی و بین الاقوامی سیاست کا جائزہ لیے بغیر ہم نہ آمروں کی نفسیاتی کیفیت سمجھ سکتے ہیں اور نہ جنگ ان کی ضرورت والے تصور کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ بھٹو کے خلاف چلنے والی تحریک کو ''نظام مصطفیٰؐ'' سے منسوب کیا گیا۔ یہی وہ دور تھا جب بھٹو نے مذہبی قیادت کو خوش کرنے کے لیے جوئے، شراب اور ریس پر پابندی لگانے کے علاوہ جمعہ کو ہفتہ وار تعطیل قرار دی۔ جنرل ضیا خود بھی مذہبی رجحان کی حامل شخصیت تھے۔ وہ انگریز دور میں نئے نئے فوج میں بھرتی ہوئے تھے تو مسلمان افسروں کو عید کی مبارکباد دینے چل پڑے۔
یہ انگریزوں کے چل چلاؤ کا زمانہ تھا ورنہ برٹش انڈین آرمی سے نکال دیے جاتے۔ اس رجحان کے حامل شخص نے ملک میں چلنے والی مذہبی تحریک کا فائدہ اٹھایا۔ وقت کا پہیہ آگے بڑھا اور فروری 79 میں ایران میں خمینی انقلاب آگیا۔ امریکا کے ہاتھ سے شہنشاہ ایران نامی ''پولیس مین'' نکل گیا۔ اس کیلنڈر ایئر کے چوتھے ماہ کے چوتھے دن بھٹو کو پھانسی دے کر جنرل ضیا سیاسی تنہائی کا شکار تو ہوگئے لیکن ان کی حکومت رواں دواں تھی۔
اسی سال کے دسمبر میں کرسمس کے دو دن بعد سوویت روس نے افغانستان پر قبضہ کرلیا۔ نورمحمد ترہ کئی قتل کردیے گئے اور حفیظ اللہ امین کا خطاب ماسکو سے دونوں ملکوں کے ریڈیو پر نشر کیا گیا۔ نظام مصطفیٰؐ کی تحریک، ایران کے انقلاب اور ایک اسلامی ملک پر کمیونسٹ سپرپاور کا قبضہ ہی وہ ٹرننگ پوائنٹس تھے جن کو سمجھے بغیر ہم آج کی صورتحال کا تجزیہ نہیں کرسکتے۔ دو تین برسوں کے یہ واقعات دو تین عشروں کی دہشت گردی کا سبب ہیں۔
آپ کے بنگلے یا کارخانے کے برابر میں کوئی غنڈہ قابض ہوجائے تو آپ کیا کریں گے؟ وہ شرپسند اس سے پہلے بھی قبضے کی تاریخ رکھتا ہو تو آپ کا ردعمل کیا ہوگا؟ کیا محلے والے اکٹھے نہیں ہوں گے کہ اس قابض کا کیا کریں؟ انھیں فکر نہ ہوگی کہ کل کلاں کو یہ ہمارے گھر اور کاروبار پر قبضہ کرے گا۔ یہی صورت حال سوویت روس کے افغانستان پر قبضے کے وقت تھی۔ امریکا میں کمزور ترین صدر جمی کارٹر کی حکومت تھی۔ فروری میں ایران کے محاذ پر شکست کھانے کے بعد ایک سال میں امریکا کی بین الاقوامی محاذ پر یہ دوسری شکست تھی۔
جنرل ضیا نے فوجی افسران، وزارت خارجہ کے دانشوروں کے علاوہ چینی اور سعودی عرب جیسے دوستوں سے مشورہ کیا۔ افغان مجاہدین نے کبھی غیر ملکی جارحیت کو قبول نہیں کیا تھا۔ وہ اس وقت تک مغلوں اور انگریزوں کو شکست دینے کی تاریخ رکھتے تھے۔ افغانوں نے دروں کے بنے اور روس سے چھینے گئے اسلحے سے مقابلے کا آغاز کیا۔ جمی کارٹر نے ضیا الحق کو چالیس کروڑ ڈالر کی پیشکش کی جسے جنرل نے مونگ پھلی کہہ کر ٹھکرا دیا۔
''دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے۔'' سوویت روس کے خلاف پاکستان کی نفرت تھی جو اس نے بنگال کو الگ کرکے پیدا کی تھی۔ امریکا کو ویت نام میں شکست کا درد تھا تو سعودیوں کے اپنے تحفظات تھے۔ افغانوں کے تو وطن پر روسیوں نے قبضہ کرکے ان کے لاکھوں لوگوں کو کیمپوں میں پہنچا دیا تھا۔ یوں امریکی اسلحے، پاکستانی راہ داری، سعودی سرمائے اور افغان جذبے نے روس کو دریائے آمو کے دوسری طرف دھکیل دیا۔
9/11 کے واقعے میں کوئی پاکستانی ملوث نہ تھا۔ مشرف زخمی امریکا سے تو نہ الجھے لیکن ضیا کی طرح اچھی سودا کاری حاصل نہ کرسکے اور سپر پاور کو اپنے اوپر حاوی کرلیا۔ جنگیں دنیا میں ہر دور میں ہوتی ہیں اور ہوتی رہیں گی۔ دشمن برباد ہوجائے تو دوستوں سے جنگ شروع ہوجاتی ہے۔ انھیں روکنے کا ایک ہی نسخہ ہے اور وہ ہے معاشی انصاف۔ ترازو کے باٹوں میں گھپلا نہ ہو تو بندوق کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ یہ عالمی سچائی اور ازل سے ابد تک کی کہانی ہے۔ اسے آسان لفظوں میں فارسی کے اس محاورے کی شکل میں سمجھا جاسکتا ہے کہ تنگ آمد بجنگ آمد۔
ویسے بھی مسلم لیگ کو شکست دلوا کر اور جگتو فرنٹ کو کامیاب کروا کر بنگالیوں نے خود ہی سیاست دانوں کی کمزوری کی بنیاد رکھی تھی۔ ایوب کا اقتدار رواں دواں تھا۔ اسے کسی جنگ کی حاجت نہ تھی۔ کہتے ہیں کہ بھٹو نے ایوب کو قائل کیا کہ کشمیر میں محدود جنگ چھیڑی جائے جسے بھارت نے لامحدود کردیا۔ ''تاشقند معاہدے'' نے بھی ایوب کو کمزور کیا۔ جنگ ستمبر کسی طرح ایوب کے حق میں نہ گئی۔ اس جنگ نے ہونے والی ترقی کے ثمرات کو محدود کردیا۔
پھل تو صرف سرمایہ داروں کی جھولی میں گر رہا تھا۔ ایک کے بعد دوسری اور تیسری کے بعد چوتھی مل لگ رہی تھی لیکن بندہ مزدور کے اوقات بہت تلخ تھے۔ یہاں ایک معاشی ناانصافی تھی۔ ایک خلا تھا جسے بھٹو نے پر کیا۔ کابینہ سے ان کی علیحدگی اور اس کے بعد ایوب کا پے درپے زوال۔ گول میز کانفرنس تک آتے آتے فیلڈ مارشل اقتدار کی فیلڈ سے باہر جاتے دکھائی دیے۔ کیا جنگیں جنرلوں کی مہربانی سے آتی ہیں؟ دلچسپ سوال کا جواب ابھی باقی ہے۔
یحییٰ خان دوسرے جنرل تھے، جن کے زمانے میں 71 کی جنگ لڑی گئی۔ ان کے اقتدار کو بھی کسی نے چیلنج نہ کیا۔ یوں کہنا چاہیے کہ وہ واحد حکمران تھے جن کے مارشل لا کو ''عاصمہ جیلانی کیس'' میں اقتدار کے خاتمے کے بعد چیلنج کیا گیا۔ یہ بھی ڈوسو کیس کی طرح اتفاقاً عدالتوں کے روبرو آگیا۔ یحییٰ خان نے آنے کے ساتھ ہی تین اہم مطالبات تسلیم کرکے عوامی مقبولیت حاصل کرلی۔ ون یونٹ کا خاتمہ، ون مین ون ووٹ، وفاقی و پارلیمانی نظام۔ اس طرح صوبے بحال ہوگئے، مشرقی پاکستان کی قومی اسمبلی میں سیٹیں بڑھ گئیں اور ملک آنے والے دنوں میں ایوب کی سی صدارت سے آزاد ہوگیا۔
دسمبر 70 میں ہونے والے انتخابات میں مجیب اور بھٹو ملک کے دونوں بازوؤں کے لیڈر منتخب ہوکر سامنے آئے۔ یحییٰ کو کسی جنگ کی حاجت نہ تھی۔ چھوٹی چھوٹی پارٹیاں اسمبلی میں ہوتیں تو یحییٰ خان پچاس کے عشرے کی تاریخ دہراتے۔
وہ غلام محمد اور اسکندر مرزا کی طرح اقتدار کا کھیل کھیلتے۔ اسمبلی کا اجلاس ملتوی کردیا گیا۔ مارچ 71 کے بعد بنگال میں نارمل حالات رہے ہی نہیں۔ پہلے مرحلے پر ناراض بنگالیوں نے بغاوت کی اور پھر اسے کچلنے کے لیے پاک فوج گئی تو وہ چھپ گئے یا بھاگ گئے۔ بھارت سے جنگ کا خطرہ اگست 71 میں پیدا ہوا ۔ یہ جنگ یحییٰ کی ضرورت نہ تھی بلکہ ان کے لیے مصیبت تھی۔ ہماری مصیبتوں کی وجہ نہ آمروں کی حکومتیں رہیں اور نہ ان کی جنگیں۔ ہمارے مسائل کا سبب معاشرے میں ناانصافی رہی جس نے دہشت گردی کو جنم دیا۔
بھٹو نے آئین دیا، اسلامی سربراہ کانفرنس کے بعد بنگلہ دیش کا مسئلہ حل کیا۔ معاشی محاذ پر ایوب کی انتہاپسندی کو انھوں نے دوسری انتہاپسندی سے بدلا۔ مزدوروں کو حق دلانے کے نام پر انھوں نے کارخانوں، بینکوں اور تعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لے لیا۔ اسی طرح ملک کی معاشی اور تعلیمی ترقی کو ریورس گیئر لگ گیا۔ ایک ناانصافی نے دوسری ناانصافی کو جنم دیا۔ انتخابی دھاندلی نے جمہوریت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔ احتجاجی تحریک کے نام پر ہر کوئی اپنا بدلہ چکانے بھٹو کے خلاف میدان عمل میں نکل آیا۔ الیکشن کے چار مہینوں بعد بھی قومی اتحاد سے معاملات طے نہ ہوئے اور یوں جنرل ضیاء الحق برسر اقتدار آگئے۔
مارچ 77 سے دسمبر 79 تک کی ملکی و بین الاقوامی سیاست کا جائزہ لیے بغیر ہم نہ آمروں کی نفسیاتی کیفیت سمجھ سکتے ہیں اور نہ جنگ ان کی ضرورت والے تصور کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ بھٹو کے خلاف چلنے والی تحریک کو ''نظام مصطفیٰؐ'' سے منسوب کیا گیا۔ یہی وہ دور تھا جب بھٹو نے مذہبی قیادت کو خوش کرنے کے لیے جوئے، شراب اور ریس پر پابندی لگانے کے علاوہ جمعہ کو ہفتہ وار تعطیل قرار دی۔ جنرل ضیا خود بھی مذہبی رجحان کی حامل شخصیت تھے۔ وہ انگریز دور میں نئے نئے فوج میں بھرتی ہوئے تھے تو مسلمان افسروں کو عید کی مبارکباد دینے چل پڑے۔
یہ انگریزوں کے چل چلاؤ کا زمانہ تھا ورنہ برٹش انڈین آرمی سے نکال دیے جاتے۔ اس رجحان کے حامل شخص نے ملک میں چلنے والی مذہبی تحریک کا فائدہ اٹھایا۔ وقت کا پہیہ آگے بڑھا اور فروری 79 میں ایران میں خمینی انقلاب آگیا۔ امریکا کے ہاتھ سے شہنشاہ ایران نامی ''پولیس مین'' نکل گیا۔ اس کیلنڈر ایئر کے چوتھے ماہ کے چوتھے دن بھٹو کو پھانسی دے کر جنرل ضیا سیاسی تنہائی کا شکار تو ہوگئے لیکن ان کی حکومت رواں دواں تھی۔
اسی سال کے دسمبر میں کرسمس کے دو دن بعد سوویت روس نے افغانستان پر قبضہ کرلیا۔ نورمحمد ترہ کئی قتل کردیے گئے اور حفیظ اللہ امین کا خطاب ماسکو سے دونوں ملکوں کے ریڈیو پر نشر کیا گیا۔ نظام مصطفیٰؐ کی تحریک، ایران کے انقلاب اور ایک اسلامی ملک پر کمیونسٹ سپرپاور کا قبضہ ہی وہ ٹرننگ پوائنٹس تھے جن کو سمجھے بغیر ہم آج کی صورتحال کا تجزیہ نہیں کرسکتے۔ دو تین برسوں کے یہ واقعات دو تین عشروں کی دہشت گردی کا سبب ہیں۔
آپ کے بنگلے یا کارخانے کے برابر میں کوئی غنڈہ قابض ہوجائے تو آپ کیا کریں گے؟ وہ شرپسند اس سے پہلے بھی قبضے کی تاریخ رکھتا ہو تو آپ کا ردعمل کیا ہوگا؟ کیا محلے والے اکٹھے نہیں ہوں گے کہ اس قابض کا کیا کریں؟ انھیں فکر نہ ہوگی کہ کل کلاں کو یہ ہمارے گھر اور کاروبار پر قبضہ کرے گا۔ یہی صورت حال سوویت روس کے افغانستان پر قبضے کے وقت تھی۔ امریکا میں کمزور ترین صدر جمی کارٹر کی حکومت تھی۔ فروری میں ایران کے محاذ پر شکست کھانے کے بعد ایک سال میں امریکا کی بین الاقوامی محاذ پر یہ دوسری شکست تھی۔
جنرل ضیا نے فوجی افسران، وزارت خارجہ کے دانشوروں کے علاوہ چینی اور سعودی عرب جیسے دوستوں سے مشورہ کیا۔ افغان مجاہدین نے کبھی غیر ملکی جارحیت کو قبول نہیں کیا تھا۔ وہ اس وقت تک مغلوں اور انگریزوں کو شکست دینے کی تاریخ رکھتے تھے۔ افغانوں نے دروں کے بنے اور روس سے چھینے گئے اسلحے سے مقابلے کا آغاز کیا۔ جمی کارٹر نے ضیا الحق کو چالیس کروڑ ڈالر کی پیشکش کی جسے جنرل نے مونگ پھلی کہہ کر ٹھکرا دیا۔
''دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے۔'' سوویت روس کے خلاف پاکستان کی نفرت تھی جو اس نے بنگال کو الگ کرکے پیدا کی تھی۔ امریکا کو ویت نام میں شکست کا درد تھا تو سعودیوں کے اپنے تحفظات تھے۔ افغانوں کے تو وطن پر روسیوں نے قبضہ کرکے ان کے لاکھوں لوگوں کو کیمپوں میں پہنچا دیا تھا۔ یوں امریکی اسلحے، پاکستانی راہ داری، سعودی سرمائے اور افغان جذبے نے روس کو دریائے آمو کے دوسری طرف دھکیل دیا۔
9/11 کے واقعے میں کوئی پاکستانی ملوث نہ تھا۔ مشرف زخمی امریکا سے تو نہ الجھے لیکن ضیا کی طرح اچھی سودا کاری حاصل نہ کرسکے اور سپر پاور کو اپنے اوپر حاوی کرلیا۔ جنگیں دنیا میں ہر دور میں ہوتی ہیں اور ہوتی رہیں گی۔ دشمن برباد ہوجائے تو دوستوں سے جنگ شروع ہوجاتی ہے۔ انھیں روکنے کا ایک ہی نسخہ ہے اور وہ ہے معاشی انصاف۔ ترازو کے باٹوں میں گھپلا نہ ہو تو بندوق کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ یہ عالمی سچائی اور ازل سے ابد تک کی کہانی ہے۔ اسے آسان لفظوں میں فارسی کے اس محاورے کی شکل میں سمجھا جاسکتا ہے کہ تنگ آمد بجنگ آمد۔