PK ہندو اور مسلمان
متنازعہ فلم نے 3 ہفتوں کے دوران دنیا بھر میں 600 کروڑ بھاری روپوں کا بزنس کیا ہے۔
بھارتی اداکار عامر خان کی زیر نمائش فلم پی کے ابتدا سے ہی تنقید و مخالفت کا شکار رہی ہے جس پر ہندوستان میں متعدد ہندو انتہاپسند تنظیموں اور گروہوں کی جانب سے اس کی مخالفت اور احتجاج کا سلسلہ جاری ہے، کئی شہروں میں سینما گھروں میں توڑ پھوڑ اور جلانے کے واقعات بھی رونما ہوچکے ہیں، حکومت نے احتجاج کو مسترد کرتے ہوئے فلم پر پابندی لگانے سے انکار کردیا کہ اس فلم کو سنسر بورڈ نے پاس کیا ہے اس لیے حکومت اس کے خلاف کوئی اقدام نہیں کرسکتی۔
عامر خان نے دو ٹوک کہہ دیا ہے کہ میں نے اس فلم سے جو میسج دینا تھا دے دیا ہے۔ فلم ڈائریکٹر راجکمار ہیرانی نے فلم کا بھرپور دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ کچھ گروہوں کے احتجاج پر فکرمند ہیں، ہم تمام مذاہب اور عقائد کا احترام کرتے ہیں، ہماری فلم مہاتما گاندھی اور سنت کبیر کے خیالات سے متاثر ہوکر بنائی گئی ہے۔ اس فلم میں بتایا گیا ہے کہ دنیا میں رہنے والے تمام انسان برابر ہیں، ہم محبت و بھائی چارے کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔
متنازعہ فلم نے 3 ہفتوں کے دوران دنیا بھر میں 600 کروڑ بھاری روپوں کا بزنس کیا ہے۔ اس فلم پر ہندوستانی عوام کی جانب سے کوئی اجتماعی مخالفانہ ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا لیکن کچھ گروہ اس کی مخالفت پر سینہ سپر ہیں۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ بھارتی وزیراعظم مودی سمیت کچھ انتہاپسند تنظیمیں اس فلم پر پابندی لگانے کے خواہاں ہیں، اسی لیے اس فلم کو ہندو مت کے خلاف ایک سازش اور عامر خان کی پاک سوچ قرار دیا جا رہا ہے۔
اس لحاظ سے جب ہندوستانی عوام کی غالب اکثریت اس فلم کی نمائش پر کسی مخالفانہ ردعمل کا اظہار نہیں کر رہی اور ہندوستان ایک سیکولر اور جمہوری ملک ہونے کا دعویدار بھی ہے تو فلم کے موضوع پر مخالفانہ ردعمل اور مخالفت بے معنی ہوجاتی ہے۔ اس میں کئی پہلو غور طلب ہیں، اول یہ کہ اصول و اخلاق اور آئین و قانون کے تحت ہر شہری کو اپنے مذہب اور عقائد پر چلنے اس کا دفاع کرنے کی پوری اجازت اور حق حاصل ہوتا ہے اور کسی شخص، گروہ، ادارے یا حکومت کو یہ حق حاصل نہیں ہوتا کہ وہ کسی مذہب یا عقیدہ کی مخالفت و تضحیک کرے۔
متذکرہ فلم کا موضوع بظاہر طور پر توہم پرستی اور مذہبی ڈھونگ کو عیاں کرنا ہے اور یہ ایک تلخ حقیقت بھی ہے کہ دنیا میں توہم پرستی، بدعات اور ڈھونگ کا جو غلبہ ہے ان کا مذاہب کی بنیادی تعلیم اور عقائد سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ مگر ان کے پیروکار انھیں مذہب کے حصے کے طور پر پہچانتے ہیں۔ لہٰذا ان پر تنقید یا ان کی مخالفت ان مذاہب کے ماننے والوں کی دل آزاری اور ردعمل کا سبب بن سکتی ہے۔ مودی حکومت پر یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ وہ دانستہ طور پر بھارت کو سیکولرازم سے ہندوازم کی طرف لے جانا چاہتی ہے۔
مذہبی تعصب و منافرت پر مبنی مودی، ان کی بی جے پی، اور ہندو انتہاپسند تنظیموں کا ماضی کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ مسلمانوں، عیسائیوں اور سکھوں وغیرہ کو مذہبی بنیادوں پر مارا گیا، ان کی مساجد اور عبادت گاہیں تباہ اور نذرآتش کی گئیں۔ بھارت کا پڑوسی ممالک خاص طور پر پاکستان کے خلاف جارحانہ رویہ قابل مذمت ہے۔ مودی حکومت کے قیام کے بعد سے تو شاید ہی کوئی دن ایسا گزرا ہو جس دن بھارتی فوج نے پاکستانی سرحدوں کی خلاف ورزی اور بے گناہ شہریوں، مویشیوں اور املاک کو نشانہ نہ بنایا ہو، یہاں تک کہ گزشتہ دنوں فلیگ میٹنگ کے لیے بلوا کر دو رینجرز کے اہلکاروں کو بھی شہید کردیا۔
پاک فوج انتہائی نرم رویہ اختیار کرتے ہوئے صبر و برداشت کا مظاہرہ کر رہی ہے، حکومت پاکستان نے بھی بھارتی حکومت سے سرحدوں پر امن یقینی بنانے کا مطالبہ کیا تاکہ مستقبل میں بڑا حادثہ رونما نہ ہو۔ عوام میں ان واقعات پر جذباتی ہیجان برپا ہے، لوگ کہتے ہیں ہم نے ایٹم بم کیوں بنایا ہے؟ پاکستان بھارتی فوج کی جارحیت کا بھرپور جواب دے، لیکن بات وہیں آجاتی ہے کہ کسی ردعمل کی صورت میں دونوں ملکوں میں انسانی زندگیوں کا اتلاف ہوگا۔
بھارتی حکومت سرحدی شرارتوں کے علاوہ اپنے ملک کے اندر بھی اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف امتیازی اور عصبیت پسند کارروائیوں پر گامزن ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور سیکولر ملک کے وزیراعظم کی زبان و بیان ان کے عزائم اور کھلی دھمکیاں ساری دنیا دیکھ رہی ہے۔ اس سیکولر ملک کے ہندو نیشنلسٹ وزیراعظم کی حکومت میں خصوصاً مسلمانوں کے خلاف عصبیت، انھیں ڈرانے دھمکانے اور مذہب تبدیل کرانے کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
گزشتہ دنوں 200 سے زائد مسلمانوں کو زبردستی مسلمان بنانے کی کارروائی نے مسلمانوں میں اشتعال اور خوف کے احساس کو مزید بڑھادیا ہے۔ جس میں ایک غریب و پسماندہ علاقے کے ناخواندہ اور افلاس زدہ مسلمانوں کو ایک تقریب میں یہ کہہ کر بلایا گیا کہ اس تقریب میں انھیں راشن اور پلاٹ دیے جائیں گے اور ہندو مسلم اتحاد کا مظاہرہ کیا جائے گا، جب یہ مفلوک الحال لوگ وہاں پہنچے تو ہندو انتہاپسندوں نے ان سے زبردستی پوجا پاٹ کرائی اور تصویریں بناکر واپس کردیا۔
ان متاثرہ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ جب اخبارات میں خبریں اور تصاویر شایع ہوئیں تو انھیں علم ہوا کہ ان کے خلاف سازش کی گئی تھی، ہندوستان میں کوئی ہندو مسلم یا عیسائی بن جائے یا کوئی ہندو لڑکی مسلم ہوکر شادی کرلے تو واویلا اور ہنگامے شروع ہوجاتے ہیں لیکن دو سو مسلمانوں کو جبری ہندو بنانے کے اقدام پر مکمل خاموشی اختیار کرلی جاتی ہے۔
ہندوستان میں مسلمانوں سے مذہبی امتیاز پر مبنی رویہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے کہ مسلمان بمبئی جیسے بین الاقوامی شہر میں املاک نہیں خرید سکتے، اس سلسلے میں شبانہ اعظمی کا شہرہ آفاق کیس اس کی واضح مثال ہے حالانکہ ہندوستان میں بسنے والے یہ مسلمان اعلیٰ سماجی، معاشی و سیاسی مقام کے حامل اور اپنے اپنے شعبوں میں نمایاں مقام رکھتے ہیں اور اپنے آپ کو سچا ہندوستانی ظاہر کرنے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں اور ان کی معاشرت اور سماجیات میں رچے بسے ہیں۔
عامر خان، شاہ رخ خان، سیف علی خان، نصیر الدین، عرفان پٹھان اور دیگر بہت سوں نے ہندوؤں میں شادیاں کیں، بچوں کے نام بھی ہندوانہ رکھے، گھروں میں مندر تک بنائے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی انھیں سچا بھارتی نہیں سمجھا جاتا ہے، جس کا اعتراف خود شاہ رخ خان اور شبانہ اعظمی جیسے لوگ کرتے رہے ہیں تو پھر عام مسلمانوں کے ساتھ کیا رویہ ہوگا اس کا اندازہ زیادہ مشکل نہیں ہے، اس کا مظاہرہ ہم ثانیہ مرزا اور شعیب ملک کی شادی کے موقع پر ہندو انتہاپسندوں کے مظاہروں کی صورت میں دیکھ چکے ہیں۔
ہمارے بعض مذہبی و سیاسی رہنما عرصہ دراز سے بھارتی صورتحال کو دیکھ کر یہ کہتے آئے ہیں کہ ہندوستان سے ایک اور پاکستان وجود میں آئے گا جو سمجھ میں نہیں آئی تھی لیکن آج تک کے حالات دیکھ کر اس رائے سے اختلاف مشکل ہوتا جا رہا ہے، اگر ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ مذہبی عصبیت کا یہ سلسلہ اسی طرح پروان چڑھتا رہا تو اس ملک میں ایک مرتبہ پھر دو قومی نظریے کا احیا ہوسکتا ہے جو بھارت کے سیکولر دعویٰ اور ملک کے وجود کو خطرے میں ڈال کر مودی اور انتہا پسند ہندو تنظیموں کے بھارت کو ہندو ریاست بنانے کے خواب کو چکنا چور کرسکتا ہے۔
جس طرح ہندوستان میں کچھ قوتوں کی سیکولرازم سے ہندوازم کی طرف اور پاکستان میں کچھ عناصر کی اسلام سے سیکولرازم کی جانب پیش قدمی کی منظم کوششوں میں سرگرم عمل ہیں جس سے دونوں ملکوں کی اپنے نظریے اور اس کی اساس پر گرفت ڈھیلی پڑ رہی ہے اس کی وجہ سے ان کی تخلیق کا جواز بھی ایک سوالیہ نشان بن سکتا ہے۔
عامر خان نے دو ٹوک کہہ دیا ہے کہ میں نے اس فلم سے جو میسج دینا تھا دے دیا ہے۔ فلم ڈائریکٹر راجکمار ہیرانی نے فلم کا بھرپور دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ کچھ گروہوں کے احتجاج پر فکرمند ہیں، ہم تمام مذاہب اور عقائد کا احترام کرتے ہیں، ہماری فلم مہاتما گاندھی اور سنت کبیر کے خیالات سے متاثر ہوکر بنائی گئی ہے۔ اس فلم میں بتایا گیا ہے کہ دنیا میں رہنے والے تمام انسان برابر ہیں، ہم محبت و بھائی چارے کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔
متنازعہ فلم نے 3 ہفتوں کے دوران دنیا بھر میں 600 کروڑ بھاری روپوں کا بزنس کیا ہے۔ اس فلم پر ہندوستانی عوام کی جانب سے کوئی اجتماعی مخالفانہ ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا لیکن کچھ گروہ اس کی مخالفت پر سینہ سپر ہیں۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ بھارتی وزیراعظم مودی سمیت کچھ انتہاپسند تنظیمیں اس فلم پر پابندی لگانے کے خواہاں ہیں، اسی لیے اس فلم کو ہندو مت کے خلاف ایک سازش اور عامر خان کی پاک سوچ قرار دیا جا رہا ہے۔
اس لحاظ سے جب ہندوستانی عوام کی غالب اکثریت اس فلم کی نمائش پر کسی مخالفانہ ردعمل کا اظہار نہیں کر رہی اور ہندوستان ایک سیکولر اور جمہوری ملک ہونے کا دعویدار بھی ہے تو فلم کے موضوع پر مخالفانہ ردعمل اور مخالفت بے معنی ہوجاتی ہے۔ اس میں کئی پہلو غور طلب ہیں، اول یہ کہ اصول و اخلاق اور آئین و قانون کے تحت ہر شہری کو اپنے مذہب اور عقائد پر چلنے اس کا دفاع کرنے کی پوری اجازت اور حق حاصل ہوتا ہے اور کسی شخص، گروہ، ادارے یا حکومت کو یہ حق حاصل نہیں ہوتا کہ وہ کسی مذہب یا عقیدہ کی مخالفت و تضحیک کرے۔
متذکرہ فلم کا موضوع بظاہر طور پر توہم پرستی اور مذہبی ڈھونگ کو عیاں کرنا ہے اور یہ ایک تلخ حقیقت بھی ہے کہ دنیا میں توہم پرستی، بدعات اور ڈھونگ کا جو غلبہ ہے ان کا مذاہب کی بنیادی تعلیم اور عقائد سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ مگر ان کے پیروکار انھیں مذہب کے حصے کے طور پر پہچانتے ہیں۔ لہٰذا ان پر تنقید یا ان کی مخالفت ان مذاہب کے ماننے والوں کی دل آزاری اور ردعمل کا سبب بن سکتی ہے۔ مودی حکومت پر یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ وہ دانستہ طور پر بھارت کو سیکولرازم سے ہندوازم کی طرف لے جانا چاہتی ہے۔
مذہبی تعصب و منافرت پر مبنی مودی، ان کی بی جے پی، اور ہندو انتہاپسند تنظیموں کا ماضی کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ مسلمانوں، عیسائیوں اور سکھوں وغیرہ کو مذہبی بنیادوں پر مارا گیا، ان کی مساجد اور عبادت گاہیں تباہ اور نذرآتش کی گئیں۔ بھارت کا پڑوسی ممالک خاص طور پر پاکستان کے خلاف جارحانہ رویہ قابل مذمت ہے۔ مودی حکومت کے قیام کے بعد سے تو شاید ہی کوئی دن ایسا گزرا ہو جس دن بھارتی فوج نے پاکستانی سرحدوں کی خلاف ورزی اور بے گناہ شہریوں، مویشیوں اور املاک کو نشانہ نہ بنایا ہو، یہاں تک کہ گزشتہ دنوں فلیگ میٹنگ کے لیے بلوا کر دو رینجرز کے اہلکاروں کو بھی شہید کردیا۔
پاک فوج انتہائی نرم رویہ اختیار کرتے ہوئے صبر و برداشت کا مظاہرہ کر رہی ہے، حکومت پاکستان نے بھی بھارتی حکومت سے سرحدوں پر امن یقینی بنانے کا مطالبہ کیا تاکہ مستقبل میں بڑا حادثہ رونما نہ ہو۔ عوام میں ان واقعات پر جذباتی ہیجان برپا ہے، لوگ کہتے ہیں ہم نے ایٹم بم کیوں بنایا ہے؟ پاکستان بھارتی فوج کی جارحیت کا بھرپور جواب دے، لیکن بات وہیں آجاتی ہے کہ کسی ردعمل کی صورت میں دونوں ملکوں میں انسانی زندگیوں کا اتلاف ہوگا۔
بھارتی حکومت سرحدی شرارتوں کے علاوہ اپنے ملک کے اندر بھی اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف امتیازی اور عصبیت پسند کارروائیوں پر گامزن ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور سیکولر ملک کے وزیراعظم کی زبان و بیان ان کے عزائم اور کھلی دھمکیاں ساری دنیا دیکھ رہی ہے۔ اس سیکولر ملک کے ہندو نیشنلسٹ وزیراعظم کی حکومت میں خصوصاً مسلمانوں کے خلاف عصبیت، انھیں ڈرانے دھمکانے اور مذہب تبدیل کرانے کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
گزشتہ دنوں 200 سے زائد مسلمانوں کو زبردستی مسلمان بنانے کی کارروائی نے مسلمانوں میں اشتعال اور خوف کے احساس کو مزید بڑھادیا ہے۔ جس میں ایک غریب و پسماندہ علاقے کے ناخواندہ اور افلاس زدہ مسلمانوں کو ایک تقریب میں یہ کہہ کر بلایا گیا کہ اس تقریب میں انھیں راشن اور پلاٹ دیے جائیں گے اور ہندو مسلم اتحاد کا مظاہرہ کیا جائے گا، جب یہ مفلوک الحال لوگ وہاں پہنچے تو ہندو انتہاپسندوں نے ان سے زبردستی پوجا پاٹ کرائی اور تصویریں بناکر واپس کردیا۔
ان متاثرہ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ جب اخبارات میں خبریں اور تصاویر شایع ہوئیں تو انھیں علم ہوا کہ ان کے خلاف سازش کی گئی تھی، ہندوستان میں کوئی ہندو مسلم یا عیسائی بن جائے یا کوئی ہندو لڑکی مسلم ہوکر شادی کرلے تو واویلا اور ہنگامے شروع ہوجاتے ہیں لیکن دو سو مسلمانوں کو جبری ہندو بنانے کے اقدام پر مکمل خاموشی اختیار کرلی جاتی ہے۔
ہندوستان میں مسلمانوں سے مذہبی امتیاز پر مبنی رویہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے کہ مسلمان بمبئی جیسے بین الاقوامی شہر میں املاک نہیں خرید سکتے، اس سلسلے میں شبانہ اعظمی کا شہرہ آفاق کیس اس کی واضح مثال ہے حالانکہ ہندوستان میں بسنے والے یہ مسلمان اعلیٰ سماجی، معاشی و سیاسی مقام کے حامل اور اپنے اپنے شعبوں میں نمایاں مقام رکھتے ہیں اور اپنے آپ کو سچا ہندوستانی ظاہر کرنے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں اور ان کی معاشرت اور سماجیات میں رچے بسے ہیں۔
عامر خان، شاہ رخ خان، سیف علی خان، نصیر الدین، عرفان پٹھان اور دیگر بہت سوں نے ہندوؤں میں شادیاں کیں، بچوں کے نام بھی ہندوانہ رکھے، گھروں میں مندر تک بنائے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی انھیں سچا بھارتی نہیں سمجھا جاتا ہے، جس کا اعتراف خود شاہ رخ خان اور شبانہ اعظمی جیسے لوگ کرتے رہے ہیں تو پھر عام مسلمانوں کے ساتھ کیا رویہ ہوگا اس کا اندازہ زیادہ مشکل نہیں ہے، اس کا مظاہرہ ہم ثانیہ مرزا اور شعیب ملک کی شادی کے موقع پر ہندو انتہاپسندوں کے مظاہروں کی صورت میں دیکھ چکے ہیں۔
ہمارے بعض مذہبی و سیاسی رہنما عرصہ دراز سے بھارتی صورتحال کو دیکھ کر یہ کہتے آئے ہیں کہ ہندوستان سے ایک اور پاکستان وجود میں آئے گا جو سمجھ میں نہیں آئی تھی لیکن آج تک کے حالات دیکھ کر اس رائے سے اختلاف مشکل ہوتا جا رہا ہے، اگر ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ مذہبی عصبیت کا یہ سلسلہ اسی طرح پروان چڑھتا رہا تو اس ملک میں ایک مرتبہ پھر دو قومی نظریے کا احیا ہوسکتا ہے جو بھارت کے سیکولر دعویٰ اور ملک کے وجود کو خطرے میں ڈال کر مودی اور انتہا پسند ہندو تنظیموں کے بھارت کو ہندو ریاست بنانے کے خواب کو چکنا چور کرسکتا ہے۔
جس طرح ہندوستان میں کچھ قوتوں کی سیکولرازم سے ہندوازم کی طرف اور پاکستان میں کچھ عناصر کی اسلام سے سیکولرازم کی جانب پیش قدمی کی منظم کوششوں میں سرگرم عمل ہیں جس سے دونوں ملکوں کی اپنے نظریے اور اس کی اساس پر گرفت ڈھیلی پڑ رہی ہے اس کی وجہ سے ان کی تخلیق کا جواز بھی ایک سوالیہ نشان بن سکتا ہے۔