رئیس
آنگن ٹیڑھا، دھوپ کنارے، ان کہی جیسے سیریلز کے کردار پاکستان سے زیادہ ہندوستان میں مشہور تھے.
کئی سال پہلے جب ہم اپنے والدین کے ساتھ انڈیا گئے تھے تو کئی لوگ ہم سے کہتے ''تم تو لائیو ٹی وی پر پاکستانی ڈرامے دیکھ سکتے ہو، کتنے خوش نصیب ہو تم لوگ''۔ یہ بات سمجھنے میں ہمیں ذرا دیر لگی، دراصل 80 کی دہائی میں پاکستانی ڈرامے انڈیا میں اتنے مقبول تھے کہ ہمارے ڈرامے باقاعدہ وی ایچ ایس (VHS) پر ریلیز ہوتے اور ہر نئی قسط آنے پر ویڈیو شاپس کے باہر باقاعدہ لائنیں لگتیں۔
آنگن ٹیڑھا، دھوپ کنارے، ان کہی جیسے سیریلز کے کردار پاکستان سے زیادہ ہندوستان میں مشہور تھے، نہ صرف یہ بلکہ عمر شریف کے اسٹیج ڈراموں کے ڈائیلاگ لوگوں کو ایسے رٹے ہوئے تھے جیسے ہمیں امیتابھ بچن کی فلموں کے ڈائیلاگ، ہم یہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے، ہمیں لگا تھا کہ امیتابھ بچن صرف انڈیا کے پاس ہی ہیں لیکن وہاں دیکھا کہ کئی اداکار انڈیا میں پاکستانی امیتابھ بچن ہیں۔
وقت گزرا اور پاکستان میں پاکستان ٹیلی ویژن کے علاوہ بھی کئی چینلز آگئے، جہاں پہلے پی ٹی وی پر ہفتے میں صرف چار ڈرامے آتے تھے وہیں پرائیویٹ چینلز آجانے کی وجہ سے دن میں مختلف چینلز پر کتنے ڈرامے آتے ہیں، گننا مشکل تھا۔
ہر انڈسٹری کی طرح ہمارے ٹی وی کے ساتھ بھی وہی ہوا جو کم وقت میں زیادہ پروڈکشن کرنے کی کوشش میں اکثر ہوتا ہے یعنی ہماری کوالٹی گرگئی، جنھیں پروڈکشن نہیں آتی تھی وہ پروڈیوسر بن گئے اور جنھیں ایکٹنگ کی ''A'' بھی نہیں آتی تھی وہ ایکٹر بن گئے۔ انڈیا ہمارے ڈرامے دیکھے وہ تو دور کی بات ڈراموں کا معیار اتنا گرگیا کہ پاکستانیوں نے بھی انھیں دیکھنا چھوڑ دیا۔
دو چار اچھے ڈرامے ضرور تھے لیکن سو میں سے اگر دو ڈرامے اچھے ہوں تو ان پر وہ 98 بڑے ڈرامے بھاری ہوتے ہیں۔ وہیں جب ہم اپنے ڈرامے خراب کرتے جارہے تھے انڈیا اپنے ڈرامے بہتر کر رہا تھا۔ 2000، 2001 تک انڈیا کے ڈرامے ان کی فلموں کو ٹکر دینے لگے۔ انڈیا کے ٹی وی میکرز نے یہ جان لیا کہ ایک ساس کچھ بہوئیں ایک گھر میں جن کے بیچ جھگڑے والا فارمولا ہٹ ہے، اس آئیڈیے کو جتنی بار مختلف ناموں اور طریقوں سے بنائو وہ ہٹ ہوگا اور ایسا ہوا بھی۔
جہاں انڈیا ہٹ پر ہٹ دے رہا تھا وہیں ہم سو میں ایک دو والی لائن پر چل رہے تھے، ایک بات جو اچھی ہوتی کہ پاکستان میں اس زمانے میں کئی ایسے لوگ ابھرے جو تجربہ کرنے سے ڈرتے نہیں تھے، وہ ہٹ کر ڈرامے بنانے اور لوگوں کو اسٹوریز بتانے کے جوش میں فارمولے سے ہٹ کر کہانیاں دکھاتے۔
کچھوے اور خرگوش کی اس ریس میں کچھوا آگے نکل گیا، وقت بدلا اور اب کچھ عرصے سے پاکستان میں بہت اچھے ڈرامے بننے لگے جو ہمیں ان ڈراموں کے معیار کی یاد دلاتے جو پاکستان میں 1970-80 کی دہائی میں بنے اور بے تحاشا مقبول ہوئے۔ اچھی بات یہ تھی کہ ہمارے ڈراموں میں اب ٹیکنیشن بھی اچھے تھے اور ایکٹرز بھی، پروڈکشن کو بہتر بنانے والی امنگ ڈراموں کو دیکھ کر نظر آتی تھی، ہر کہانی دوسرے سے مختلف اور ایکٹرز اپنی اداکاری میں پچھلے ہٹ ڈراموں کے اداکاروں کو کاپی کرتے نظر نہیں آتے۔
انڈیا میں آج بھی وہی فارمولا چل رہا ہے جہاں ایک ساس ایک بڑے سے ڈرائنگ روم میں اپنی آدھا درجن بہوئوں کے ساتھ کھڑی غصہ کررہی ہے کسی فضول سی بات پر، انڈیا نے تجربہ کرنے کی کوشش ہی نہیں کی اور ان کے ڈرامے ان ہی کے لوگوں کو بور لگنے لگے جس سے پاکستانی ڈراموں کو انڈین ناظرین کے دلوں میں وہی مقام حاصل ہوگیا جو 1970-80 میں تھا۔
وہ ڈرامے جو پاکستان میں ایک دو سال پہلے مقبول ہوتے وہ کوئی انڈین چینل خرید لیتا ہے اور پھر وہ انڈیا میں بھی مشہور ہوجاتے ہیں جس کی سب سے بڑی مثال ہے ''زندگی گلزار ہے''۔ یہ ڈرامہ سیریل پاکستان میں 2012 میں چلا تھا لیکن دو سال بعد جب ہندوستان میں چلا تو فواد خان وہاں ویسے ہی مقبول ہوگئے جیسے پاکستان میں تھے۔
انیل کپور کی بیٹی ریحا کپور جو اپنی بہن سونم کپور کے ساتھ فلم خوبصورت بنارہی تھیں انھوں نے فواد خان کو اسی ڈرامے میں دیکھ کر کاسٹ کیا، فواد خان کے علاوہ عمران عباس اور علی ظفر جیسے نام ہمیں بالی وڈ میں نظر آرہے ہیں اور اس کی وجہ صرف اور صرف ہمارے ٹی وی کی ترقی ہے۔ کچھ عرصے پہلے انڈیا میں پاکستان کا مقبول ڈرامہ ''ہمسفر'' ٹیلی کاسٹ ہوا اور کیوں کہ انڈیا کے لیے ساس بہو گھر کی مرغی ہوچکی ہے اس لیے ڈرامے کو ہٹ تو ہونا ہی تھا۔ ڈرامے کی ہیروئن ماہرہ خان راتوں رات انڈیا میں اسٹار بن گئیںاور ساتھ ہی انڈین فلم میکرز کی نظریں ماہرہ خان پر جم گئیں۔
ماہرہ نومبر 2014 میں انڈیا گئیں اور فلم میکرز نے ان پر آفرز کے ساتھ دھاوا بول دیا لیکن حیران کن طور پر ماہرہ خان کو وہ آفر ملی جو کسی بھی پاکستانی ایکٹر کو اس سے پہلے نہیں ملی یعنی ہندوستان کے سب سے مقبول اداکار شاہ رخ خان کے ساتھ کام کرنے کی۔
ماہرہ خان، شاہ رخ خان کی اگلی فلم ''رئیس'' میں کام کریںگی، ''دل چاہتا ہے''، ''ڈان'' ، ''تلاش'' جیسی ہٹ فلمیں پروڈیوس کرنے والے رتیش سدھوانی اور فرحان اختر کافی عرصے سے اپنی نئی فلم رئیس کے لیے ایک نیا چہرہ ڈھونڈ رہے تھے کیونکہ وہ شاہ رخ خان کو اس فلم میں ایک نئے روپ میں لانا چاہتے ہیں، فلم میں شاہ رخ گجرات کے ایک Gangster بنے ہیں جنھیں ایک پولیس والا ممبئی میں لاکر ٹریپ کرتا ہے۔ فلم میں شاہ رخ خان کی بیوی کا رول ماہرہ خان اور پولیس والے کا رول نواز الدین صدیقی ادا کریں گے، جہاں ابھی تک ہمارے سارے ہی پاکستانی اداکار کم بجٹ کی فلموں میں آئے ہیں وہیں ماہرہ کو پہلی ہی فلم بالی وڈ کے بادشاہ کے ساتھ مل رہی ہے جو ایک بڑی کامیابی ہے۔
شاہ رخ خان نے کہا کہ ماہرہ کے ڈرامے میں نے دیکھے ہیں اور وہ بہت اچھی اداکارہ ہیں، بولی وڈ اس وقت پانچ بلین سالانہ کی انڈسٹری ہے، جسے نو دس ہیرو Dominate کرتے ہیں جن میں شاہ رخ نمبر ون ہیں۔
یہ موقع ہے پاکستانی آرٹسٹوں کے لیے اس انڈسٹری کا بڑا حصہ بننے کا جو پاکستان کو کئی معاشی فائدے پہنچا سکتی ہے۔ اس وقت وہی ملک آگے بڑھ رہے ہیں جو Globalization کرنا جانتے ہیں بلکہ ملک کے لیے بھی فائدہ مند ہوگی۔