کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے
عمل، انسان کی پہچان۔ اور ہر عمل سے قبل رب کی مہربانی اور رحمت کو یاد کرنے کا حکم۔
سال کا آخری سورج غروب ہورہا تھا۔
مٹتی کرنوں میں خنک ہواؤں کا شور اٹھا، تو راستے قبل از وقت گھر لوٹ گئے۔ اور شہر قائد پر چپ اتر آئی۔
اس طلسماتی شام درویش سر جھکائے بیٹھا تھا۔ غم اور خوشی سے ماورا۔ جنبش سے آزاد۔ چوکس۔
اور دوسری طرف میں تھا۔ دامن کرب سے بھرا۔ وجود پر گزرتے برسوں کے ان گنت زخم۔ ذہن میں سانحوں کا طلاطم۔ لاشیں، دھماکے، چیخیں۔ امید کی کوئی کرن نہیں۔ ایک بے انت گریہ۔
چپ جلد سسکی میں ڈھل گئی۔ دریافت کیا: ''کیا خیر کی کوئی امید؟''
قلندر خاموش رہا۔ اور وہ خاموشی مراقباتی تھی۔ صبر ہاتھ سے جاتا رہا، تو سوال دہرایا۔ اس نے دہلیز کے باہر پھیلی یخ بستہ خاموشی پر نگاہ کی۔ پوچھا: کیا ایسا ماہی گیر دیکھا، جو ناؤ ندی میں نہ اتارے، اور آرزو کرے کہ جال مچھلیوں سے بھر جائے؟ یا ایسا سنگ تراش، جو چٹان میں چھپا چہرہ کھوجے، پر اوزار نہ اٹھائے؟ ایسا ہاری، جو زمین سے گندم کا طلب گار، پر اس میں بیج نہ بوئے؟
جواب نفی میں پایا، تو مسکراہٹ کچھ کشادہ ہوئی۔ ''فیصلہ۔ اٹل فیصلہ۔ پتھر پر لکیر کے مانند۔ اور جب فیصلہ کر لیا، تو کشتیاں جلا کر میدان عمل میں جست لگا دو۔ زندگی کی شمع کے دونوں کنارے روشن ہوں۔ مسلسل آگے بڑھتے جاؤ، تاآں کہ اپنا مقصد پالو۔''
غیریقینی کی حالت میں سوال کیا: ''ایسے غیرمتزلزل فیصلے کا جنم کب ہوتا ہے؟''
کہا: ''تذبذب کی دھند چھٹنے کے بعد۔ ابہام سے نجات کے بعد۔ اور ایسا نہ کیا، تو بے شعور ہوجاؤ گے۔''
''اور بے شعوری کیا ہے؟'' استفسار ہوا۔
''یہ کہ خطا کرو گے، مگر اس کا ادراک نہیں ہوگا۔ اپنے گناہوں کا احساس جاتا رہا، تو سدھار کا دروازہ بند ہوا سمجھو۔ نہ تو توبہ کی نوبت آئے گی، نہ ہی بہتری کی۔''
موذن نے فلاح کی سمت پکارا، تو درویش کھڑا ہوگیا۔ خاموشی کچھ اور گہری ہوگئی۔
کچھ روز فوجی عدالتوں، آئینی ترمیم، حکم رانوں کے فوٹو سیشن، دعوے وعدوں کا شور رہا۔ حجرے پہنچا، تو ذکر کی محفل جاری۔ اللہ رب العزت کے اسم کی لامتناہی گونج، جس کا لطیف لمس روح تک اتر جائے۔محفل کے بعد سائل نے پوچھا: ''ہمارے زوال کا سبب کیا ہے؟''
شاعر مشرق کو یاد کیا: ''خود بدلتے نہیں، قرآن کو بدل دیتے ہیں!''
وضاحت کی: ''عمل، انسان کی پہچان۔ اور ہر عمل سے قبل رب کی مہربانی اور رحمت کو یاد کرنے کا حکم۔ پر آج فقط اس کے قہر کا تذکرہ۔ وہ تو زمین و آسمان کا نور۔ شہ رگ سے بھی زیادہ قریب!''آنکھوں میں پل بھر کو نمی جھلملائی۔ وقفہ آگیا۔ پھر بات کا سرا تھاما: ''نام لیوا اس کے، جو تمام عالموں کے لیے رحمت، اور روش وہ، جو اوروں کے لیے زحمت۔ وہ عظیم ہستی، اللہ اور فرشتے جس پر سلام بھیجتے ہیں، بدترین دشمن کو بھی معاف کر دے، اور ہمارا یہ حال کہ معصوموں کو ہلاک کریں، اور اس کے جواز تراشیں۔''
ایک عقیدت مند نے نشان دہی کی کہ دشمن دین فطرت کو کرخت بنانے کی سازش پر عمل پیرا۔ کہا: ''ہاں، منصوبہ تو یہی۔ دشمن نے اپنے ہرکارے ہماری صفوں میں داخل کر دیے۔ حلیہ ہم سا، ظاہر پارسائی میں ملفوف، جبہ اور دستار بھی، پر باطن کریہہ۔ ارادے مکروہ۔''
ان کی پہچان پوچھی، تو لمحے کا بھی توقف نہیں کیا: ''وہ تمھیں عذاب سے ڈرائیں گے، پر علم کی فضیلت پر خاموش رہیں گے۔ رب کائنات نے ارض و سما کی تخلیق، اختلافِ لیل و نہار کو عقل مندوں کے لیے نشانی ٹھہرایا، کائنات پر غور نہ کرنے کے عمل کو موت سے تشبیہ دی، پر تم انھیں اِس تذکرہ سے پہلو بچاتا ہوا دیکھو گے۔ وہ تم پر الفاظ کا بوجھ تو بڑھائیں گے، پر عمل کی ترغیب نہیں دیں گے۔''
چھتوں پر بیٹھے پنچھی چپ، سامع دست بستہ کہ پرسکون رات میں ایک مطمئن آواز گونجتی تھی: ''کیا کائنات کے بھید کھولنے والی علم کی کنجی کا سودا ہوگیا۔ دین میں جبر کہاں۔ یہاں تو فطری کشادگی اور قبولیت۔ امت وسط کہا گیا۔ دو انتہاؤں کے درمیان۔ پر آج جو شبیہہ پیش کی جارہی ہے، وہ اس کی الٹ۔ رب کائنات نے فرمایا: کیا جو علم رکھتے ہیں، اور جو علم نہیں رکھتے، برابر ہو سکتے ہیں؟ نصیحت تو وہی پکڑتے ہیں، جو عقل مند ہوں۔''
کسی متجسس نے حل دریافت کیا، تو کہا: ''اقرا۔ دین میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ۔ فروغ علم کو مقصد بناؤ۔ امن کا علم اٹھاؤ۔ مشکل میں صبر اور نماز سے مدد چاہو۔ حکمت اپناؤ کہ بڑی نعمت۔ ابہام کی دھول جھونکنے والے دشمن کو پہچانو، اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو۔''
اس رات بادلوں کے درمیان چاند کسی نگینے کے مانند دمکتا تھا۔ عبادت گاہ سے عشاء کی اذان بلند ہوئی۔ گم شدہ یقین لوٹ رہا تھا۔ایسے میں دعا کی درخواست ہوئی، تو کہا: دعا تو سنت۔ پر مرض شدید، دعا کے ساتھ دوا کی بھی ضرورت۔ اور دوا ہے علم، عمل اور بھائی چارہ۔ اور اس کے لیے فیصلہ شرط۔ اور اٹل فیصلے کے لیے تذبذب سے نجات لازم، جس کا اکلوتا ذریعہ قرآن، جسے ہم بھلا بیٹھے ہیں۔
لوٹتے سمے کتنی ہی باتیں ذہن کی راہ داریوں میں دبے پاؤں چلتی تھیں۔ سچ ہے: ناخواندگی اور غربت میں گھری اس ریاست میں علم کی جستجو کے بجائے اِس سے بغض رکھا گیا۔ غور وفکر اور مشاہدے پر، جو حکم الہیٰ، جذباتیت کو ترجیح دی گئی۔ سر بلند کرنا مشکل ہوگیا، سر جھکائے رکھنا آسان۔
عصری تاریخ بھی سامنے تھی۔ کیسے کمیونزم کو شکست دینے کے لیے سامراج نے اس کی کرخت شبیہہ پروان چڑھائی۔ کیسی سازشیں ہوئیں۔ چند لوگ خریدے گئے، مگر اکثریت کے ذہنوں کو ابلاغ کے جدید طریقوں، پروپیگنڈے اور جذبات کو انگیخت کرنے والے نعروں سے گرفت میں لیا گیا۔ کل سرخ نظریات نشانہ تھے، آج ہم۔ اور ہمارے ذہنوں کو بھی گرفت میں لیا جا چکا ہے۔ ہمیں دانش کے راستے سے بھٹکا دیا گیا۔ جہل پر زیتون کا تیل اور شہد لگا کر پیش کیا گیا۔ جس نے ہم میں رعونت کا آسیب پھونکا۔
ہم پر ذہنی معذوری اور غارت گر نیند طاری ہوگئی۔ اُنھوں نے اپنے مکروہ مقصد کی تکمیل کے لیے سرگوشی کی: تم نے سوویت یونین کو نیست و نابود کر دیا، اور ہم عمل تنویم کے زیر اثر گردن ہلاتے رہے۔ انھوں نے پیغام بھجوایا: یہ عسکریت پسند تمھارا اثاثہ ہیں، اور ہم عسکریت پسندی کی ترویج میں لگ گئے۔ اب سامراجی فرماتے ہیں؛ افغانستان میں امریکا اور اتحادی فوج کو عبرت ناک شکست ہوئی ہے، عراق میں ہزیمت اٹھانی پڑی، اور ہم معصوم، بجائے ان کی چال سمجھیں، بغلیں بجا رہے ہیں۔
فطری قوانین سے روگردانی کرنے والی قوموں کا الم ناک انجام سامنے۔ وہ فکری طور پر تباہ ہوئیں، ان پر دوسری قومیں مسلط ہوئیں۔ پر کیسا اندھا پن ہے کہ ہم خطائیں قبول کرنے کو تیار نہیں۔ فطرت کا حلیہ بگاڑنے والوں کو ہی حق کا علم بردار ٹھہرا رہے ہیں۔
''کبھی اے نوجواں مسلم، تدبر بھی کیا تو نے!'' کل شاعر مشرق نے سوال کیا تھا، اور آج مشرق ہم سے سوال کررہا ہے کہ کیا ہم مٹنے کے لیے وجود میں آئے تھے۔